• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جلتی، سلگتی، دھماکوں سے لرزتی مقبوضہ جموں و کشمیر کی سرزمین عالمی ضمیر کے لئے چیلنج بن چکی ہے۔ جنت نظیر کشمیر لہو لہو نظر آرہا ہے۔ سات لاکھ سے زیادہ بھارتی فوجیوں کی سنگینوں اور مہلک ہتھیاروں کا ہدف بننے والے نہتے کشمیریوں کی بستیاں تاراج ہیں اور ان کی گمنام قبروں پر مشتمل اتنے قبرستان آباد ہوچکے ہیں جن کی دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا بھر میں کہیں مثال نہیں ملتی۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ نئی ابھرتی ہوئی قبروں کے علاوہ پیلٹ گنوں کی براہ راست فائرنگ کے نتیجے میں مسخ ہونے والے چہرے اور قابض فوجیوں کی سفاکی کے ہولناک مناظر عالمی برادری سے سوال کررہے ہیں کہ نئی دہلی حکومت کا اقوام متحدہ میں کیا گیا وہ وعدہ کب پورا ہوگا جو 1948ء میں کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو عارضی طور پر رکوانے کے لئے کیا گیا تھا اور جس میں کہا گیا تھا کہ آزادانہ ریفرنڈم کے ذریعے کشمیری عوام پاکستان یا بھارت میں سے جس ملک کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کریں گے، اس کا احترام کیا جائے گا۔ مقبوضہ کشمیر میں بلند ہونے والے ’’آزادی آزادی‘‘ کے نعروں میں سلامتی کونسل کے لئے اس سوال کی گونج بھی شامل ہے کہ اس نے استصواب رائے کے ذریعے کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا اختیار دینے کی جو قراردادیں منظور کیں ان پر عمل کرنے کا وقت کب آئے گا؟ حزب المجاہدین نامی حریت پسند تنظیم کے نوجوان رہنما برہان وانی کی 8؍جولائی کو قابض فوجوں کے ہاتھوں شہادت کے بعد شروع ہونے والی احتجاجی لہر میں اب تک تقریباً ساٹھ افراد اپنی جانیں دے چکے ہیں اور سیکڑوں کشمیری جوان، بوڑھے اور بچے پیلٹ گنوں کے سیدھے فائروں کے نتیجے میں بینائی سے محرومی سمیت مہلک زخموں کے شکار ہوچکے ہیں۔ وادی کے متعدد علاقوں میں مسلسل کرفیو جاری ہے جبکہ سری نگر میں 17دن کے بعد اٹھایا گیا کرفیو بدھ کے روز شدید بارش کے باوجود مظاہرین اور قابض فورسز کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں دوبارہ نافذ کردیا گیا۔ حریت رہنمائوں سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق کو جو کلگام کی جانب مارچ کی اپیل کے بعد اپنے اپنے گھروں سے نظربندی توڑ کر باہر نکل آئے تھے، ایک بار پھر گرفتار کرلیا گیا ہے۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی بھی ان کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئیں اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ بھارتی مظالم کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور ہوگئے۔ نئی دہلی کے حکمرانوں نے 3؍جون کے تقسیم ہند کے فارمولے کو نظرانداز کرکے 27؍اکتوبر 1947ء کو جس استدلال پر اپنی فوجیں کشمیر میں بھیجیں، وہی استدلال بھارت کو پاکستان سے الحاق کا اعلان کرنے والی ریاستوں حیدرآباد دکن، جونا گڑھ، مانا ودر، مانگرول پر کنٹرول رکھنے سے روکتا ہے جبکہ نئی دہلی جس معاہدے کا ڈھنڈورا پیٹتا رہا، اس پر وادی سے فرار ہوکر جموں میں چھپنے والے مہاراجہ ہری سنگھ کیلئے نہ دستخط کرنا ممکن تھا نہ وہ اس کا مجاز تھا۔ اسی لئے بھارت کے متعدد اہل دانش بھی کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دینے کے بھارتی دعوے کو بے اصل ہی نہیں، اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی بھی سمجھتے ہیں۔ نئی دہلی میں ’’جنتر منتر‘‘ کی کشمیریوں سے یک جہتی کی ریلی اور ہریانہ کی اشوکا یونیورسٹی کے طلبہ و اساتذہ کی طرف سے کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دینے کیلئے بھارتی حکومت کو لکھا گیا کھلا خط اس کی مثالیں ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے درست طور پر اس بات کی نشاندہی کی ہے تصفیہ کشمیر تقسیم ہند کے نامکمل عمل اور اقوام متحدہ کے ایجنڈے کا ناگزیر حصہ ہے۔ پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کے انسانی حقوق کی اخلاقی و سفارتی حمایت کا پابند ہے۔ بھارت کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ استصواب رائے کے ذریعے کئی مقامات پر لوگوں کو ماضی قریب میں آزادی ملی ہے اور اس عمل کا نتیجہ زیادہ بہتر تعلقات اور باہمی تعاون کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کو بھی اس باب میں اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے کیونکہ یہ محض زمین کے ٹکڑے کا تنازعہ نہیں، کشمیری عوام کے انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔
تازہ ترین