• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کمسن بچوں کے اغوا کی بڑھتی ہوئی وارداتیں اور بیگار کیمپوں میں ان سے جبری مشقت لینا معاشرے کا بہت بڑا المیہ بن چکاہے جس کا سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لے کر ریاست اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے۔ بدھ کو از خود نوٹس کی سماعت کے دوران دو رکنی بینچ نے ریمارکس دیئے کہ کسی کو ریلیف مل رہا ہے، نہ ریاست کو پتہ ہے کہ بچے کیوں اغوا ہو رہے ہیں۔ بینچ کے سربراہ جسٹس ثاقب نثار نے اس بات پر سب سے زیادہ دکھ کا اظہار کیا کہ بچے بازیاب نہیں ہو رہے اور پنجاب میں بیگار کیمپوں کے خاتمے کے لئے کوئی سنجیدہ نہیں دکھائی دیتا۔ عدالت نے بچوں کے اغوا کے محرکات کا جائزہ لینے اور پولیس کی تفتیش کے بارے میں جاننے کے لئے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کردی جو تین ہفتے میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی، اس کے علاوہ ایڈووکیٹ جنرل کے آفس میں ہاٹ لائن قائم کرنے کی ہدایت کی جس پر بچوں کے والدین شکایت کی صورت میں فوری رابطہ کر سکیں گے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ بچہ اغوا ہو تو سب سے پہلی ذمہ داری پولیس کی ہے۔ عدالت میں راولاکوٹ کے سینئر سول جج دھاڑیں مار کر رونے لگے کہ ان کا 5 سالہ بچہ دو سال پہلے اغوا ہو گیا مگر پولیس اسے بازیاب کرانے کی بجائے مقدمے میں نامزد ملزموں کی طرف داری کر رہی ہے۔ اس لئے تفتیش فوج سے کروائی جائے، یہ منظر دیکھنے والے حیران تھے کہ جب لوگوں کو انصاف دینے والا جج خود انصاف سے محروم ہے تو عام لوگوں کے ساتھ کیا ہوتا ہوگا؟ سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لے کر اس مسئلے کے حل کے لئے عدلیہ کی تشویش کو اجاگر کیا ہے۔ عام طور پر کم عمر بچے سیر وتفریح کے پارکوں، میلے ٹھیلوں، پرہجوم پبلک مقامات اور ایسے گلی محلوں سے اغوا ہوتے ہیں جہاں لوگوں کی آمد و رفت کم ہو زیادہ تر غریب لوگوں کے بچوں کو اغواکرکے ان سے بیگار کیمپوں میں مشقت لی جاتی ہے ، بھیک منگوائی جاتی ہے یا دوسری مجرمانہ سرگرمیوں میں انہیں استعمال کیا جاتا ہے۔ حکومت اس مسئلے کے حل کے لئے ترجیحی بنیادوں پر ٹھوس اقدامات اٹھانے چاہئیں۔
تازہ ترین