• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پہلی تصویر ملاحظہ ہو،امریکی صدر اوباما ڈیوٹی پر موجود کسی خاتون اہلکار کو اپنا شناختی کارڈ دکھا رہے ہیں، وہ خاتون اور نہ ہی وہاں موجود دیگر اہلکاروں میں سے کوئی شخص صدر ذی وقار کے احترام میں کھڑا دکھائی دے رہا ہے۔ دوسری تصویر میں ہالینڈ کے وزیر اعظم سائیکل پر سوار ی کرتے ہوئے اپنے دفتر کے داخلی دروازے سے گزر رہے ہیں اور وہاں موجود سیکورٹی اہلکار انہیں سیلوٹ کر رہا ہے۔ تیسری تصویر مزید دلچسپ ہے، اس میں صدر اوباما ملکہ برطانیہ کے ساتھ کھانے کے لئے تشریف لے جانے کے لئے ایک پرانی گاڑی کی اگلی نشست پر بیٹھے ہیں جسے ملکہ معظمہ کا شوہر یعنی شہزادہ فلپ ڈرائیو کر رہا ہے جبکہ مشل اوباما پچھلی نشست پر ملکہ کے ساتھ براجمان ہیں، اس سادگی پہ کون نہ مر جائے! چوتھی تصویر میں آسٹریلوی وزیر اعظم کیون رڈ کوئنز لینڈ کے سیلاب کے دوران اپنے سر پر سامان اٹھائے نظر آ رہے ہیں، یہ واضح نہیں کہ یہ سامان ان کا اپنا ہے یا وہ سیلاب میں پھنسے متاثرین کی بنفس نفیس مدد کر رہے ہیں۔ پانچویں تصویر میں روسی صدر پیوٹن اپنی گاڑی میں خود پٹرول بھر رہے ہیں اور گاڑی بھی کوئی سستی قسم کی ہے، کہیں سے بھی صدر کے شایان شان نہیں۔ پانچویں تصویر میں نوجوان کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو واشنگٹن میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ گھوم رہے اور اپنے سب سے چھوٹے بچے کو وزیر اعظم صاحب نے گود میں اٹھایا ہوا ہے۔ ساتویں تصویر میں امریکی صدور جارج بش اور اوباما اور برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون مختلف جگہوں پر بارش سے بچنے کے لئے اپنے ہاتھوں میں چھتریاں اٹھائے پھر رہے ہیں۔ آٹھویں اور نویں تصاویر میں برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر اور ڈیوڈ کیمرون کسی میٹرو میں سفر کر رہے ہیں، میٹرو کی نشستیں خالی ہیں مگر وہ کھڑے اخبار پڑھ رہے ہیں، دیگر مسافر لاتعلق سے انداز میں بیٹھے ہیں۔ دسویں تصویر میں صدر اوباما اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ عام لوگوں کے ساتھ کسی چرچ میں دعا کر رہے ہیں۔
ان تصاویر پر تبصرہ کرنے سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ تصاویر انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں اور ان کے اصلی یا جعلی ہونے کے بارے میں کوئی رائے نہیں دی جا سکتی تاہم فی الحال ہم یہی فرض کرتے ہیں کہ یہ تمام تصاویر اصلی ہیں۔ اس قسم کی تصاویر اپنے ہاں بہت بکتی ہیں (ب کے نیچے زیر پڑھی جائے زبر نہیں)، لوگ سوشل میڈیا پر بہت شوق سے انہیں شیئر کرتے ہیں اور نیچے لکھتے ہیں کہ یہ ہوتے ہیں حکمران، اسے کہتے ہیں اصلی جمہوریت اور ساتھ ہی پاکستانی حکمرانوں کی چند تصاویر لگاتے ہیں جن میں وہ گاڑیوں کے قافلوں میں سفر کرتے دکھائی دیتے ہیں اور پھر ان تصاویر کےنیچے حسب توفیق مغلظات لکھی جاتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ، برطانیہ اور یورپ میں جمہوریت اپنی اصل روح کے ساتھ موجود ہے، قانون کی عملداری ہے، غیر ضروری پروٹوکول کا کوئی تصور نہیں، ہر خاص و عام کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جاتا ہے، صدر کا بیٹا تیز رفتار ڈرائیونگ کرتے ہوئے پکڑا جائے تو اس کا چالان ہو جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ مگر یہ ان تمام تصاویر کا ایک رخ ہے، دوسرا رخ یہ ہے کہ یہ تصاویر ہی سب کچھ نہیں، امریکی صدر اگر کسی پرانی گاڑی میں سفر کرتا ہے یا کسی چرچ میں دعا کے لئے جاتا ہے تو اس کی سیکورٹی کا پورا انتظام موجود ہوتا ہے، اپنے ہاں اگر وزیر اعظم خصوصی طیارے پر سفر کر لے تو اس ’’شاہانہ بندوبست‘‘ پر تنقید ہوتی ہے مگر صدر اوباما کی ’’ایئر فورس ون‘‘ کی تصاویر کوئی شیئر نہیں کرتا، واضح رہے کہ ایئر فورس ون امریکی صدر کے لئے مخصوص طیارہ ہے جس کا کرو فر دیکھنے لائق ہے۔ امریکی جمہوریت اور سیاست کو ہم کافی آئیڈلائز کرتے ہیں لیکن اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ درحقیقت امریکی سیاست کس قدر سفاک ہے تو ’’ہاؤس آف کارڈز‘‘ کا سیزن ضرور دیکھیں، کافی افاقہ ہوگا۔ روسی صدر پیوٹن کی گاڑی میں پٹرول بھرتے ہوئے تصویر تو ہمیں بہت پسند آئی مگر یہ کوئی نہیں بتاتا کہ موصوف کا اپنے ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا کس قدر شاندار ریکارڈ ہے، ممکن ہے کسی وقت انہوں نے اپنی گاڑی میں پٹرو ل ڈالنے کا شوق فرما لیا ہو مگر درحقیقت جناب کا شاہانہ طرز زندگی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے ، موصوف کے پاس دنیا کی مہنگی ترین گھڑیوں کا خزانہ ہے جو کسی سربراہ مملکت کے پاس نہیں، بطور صدر اُن کے تصرف میں بیس محلات ہیں، اٹھاون جہازوں کا بیڑہ ہے، ساٹھ ملین پاؤنڈ مالیت کی بحری کشتیاں ہیں (انہیں کشتیاں کہنا کس قدر زیادتی ہے) اور لاتعداد مرسیڈیز گاڑیاں ہیں، حیرت ہے کہ یہ تصاویر ہم شیئر نہیں کرتے، واضح رہے کہ یہ اس ملک کے صدر کی بات ہو رہی ہے جہاں دو کروڑ غریب بستے ہیں۔ ملکہ برطانیہ کا چھوٹی گاڑی میں سفر کرنا تو ہمیں اچھا لگا مگر کسی نے بکنگھم پیلس کی تصویر شیئر کرکے نیچے نہیں لکھا کہ یہ ہوتے ہیں سادہ حکمران!
یہ درست ہے کہ غیر ضروری پروٹوکول ایک لعنت ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے ہر سربراہ حکومت کو ضروری سیکورٹی مہیا کی جاتی ہے، جو وزرائے اعظم سائیکل پر سفر کرتے ہیں ان ممالک میں ایک اَن دیکھی سیکورٹی موجود ہوتی ہے، ان کی سرحدیں محفوظ ہوتی ہیں، اسی لئے ان کا صدر عام آدمی کی طرح گھومتا ہے۔ 1998 کی بات ہے، میں اپنی گاڑی میں جا رہا تھا، کلمہ چوک لاہور کے اشارے پر میں نے گاڑی روکی، یہ وہ جگہ ہے جہاں سے بائیں ہاتھ کو سڑک ماڈل ٹاؤن کی طرف جاتی ہے جہاں وزیر اعظم کی رہائش گاہ تھی، اچانک میری نظر ساتھ والی گاڑی پر پڑی اس میں وزیر اعظم اپنی اہلیہ کے ساتھ پچھلی نشست پر بیٹھے تھے جبکہ ڈرائیور گاڑی چلا رہا تھا، کوئی گارڈ یا پروٹوکول ساتھ نہیں تھا، میں نے ان کی طرف مسکرا کر دیکھا، انہوں نے جواباً ’’ویو‘‘ کیا اور پھر ان کی گاڑی ماڈل ٹاؤن کی طرف مڑ گئی۔ کیا آج کے حالات میں یہ ممکن ہے؟ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے یہ فرض کر لیا ہے کہ اگر ہمارے حکمران سائیکل پر سوار ہو کر ایوان صدر آئیں گے تو ہمارے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔ دراصل جن ممالک کی ہم مثالیں دیتے ہیں اور تصویریں شیئر کرتے ہیں ان ممالک نے کئی سو سال کی جدوجہد کے بعد یہ مقام حاصل کیا ہے، وہاں انہوں نے کئی سو برس پہلے یہ طے کر لیا تھا کہ لولی لنگڑی جمہوریت کو ہی چلنے دینا چاہئے اس کا لنگ اپنے آپ ٹھیک ہو جائے گا اور ایسا ہی ہوا، وہاں کسی نے اس لولی لنگڑی جمہوریت کی ٹانگوں پر ڈنڈے برسا کر اسے اپاہج کرنے کی کوشش نہیں کی۔ جو لوگ اُن جمہوریتوں کی تصاویر شیئر کرکے اپنے ملک کی جمہوریت کے خلاف مقدمہ تیار کرتے ہیں اُن سے گزارش ہے کہ ہم بھی اِن ممالک کی صف میں کھڑے ہو سکتے ہیں بشرطیکہ ہمارے پاس منتخب وزیر اعظم کو پھانسی لگانے کی کوئی تصویر نہ ہو، کسی کو جلا وطن کرنے کی کوئی تصویر نہ ہو اور کسی وزیر اعظم کو سر عام گولی مارنے کی کوئی تصویر نہ ہو!

.
تازہ ترین