• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر اعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منتخب ممبران کی ٹیمیں ترتیب دی ہیں جو ملکوںملکوں جاکر کشمیر کے بارے میں لابنگ کریں گی۔ بظاہر یہ اقدام بہت احسن اور سود مند ہے کیونکہ دنیا کشمیریوں کی حالت زار سے بیگانہ نظر آتی ہے۔ ماضی میں بھی مختلف مسائل کو اجاگر کرنے کے لئے اس طرح کی ٹیمیں بھیجی جاتی رہی ہیںلیکن عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اس طرح کی کوششیں زیادہ کامیاب نہیں ہوتیں۔ اس طرح کی ٹیمیں زیادہ تر پاکستان دوست حلقوں سے ہی گفت و شنید کرکے واپس آ جاتی ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وزیر اعظم کی نئی ٹیمیں کس حد تک کشمیر کا مسئلہ عالمی سطح پر اٹھا سکیں گی۔
سب سے پہلے تو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ لابنگ عالمی تعلقات کو کس حد تک متاثر کرتی ہے۔ پاکستان جب بھی سفارتی تنہائی کا شکار ہوتا ہے یا اس کا نقطہ نظر بین الاقوامی سطح پر غیر مقبول ہوتا ہے تو پاکستانی میڈیا وزارت خارجہ اور سفارتی حلقوں کو اس کا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ میڈیا میں یہ تاثر دیاجاتا ہے کہ دنیا پاکستان کے نقطہ نظر کو سمجھنے سے قاصر ہے اور ہمارے سفارت کار اپنی ذمہ داریاں نباہنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ ایسے مواقع پر حکومت پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ عالمی سطح پر لابنگ کو تیز کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ مختلف ممالک اپنے مفادات کے تحت بیرونی تعلقات قائم کرتے ہیں اور لابنگ کا اس میں بہت ہی کم کردار ہوتا ہے۔ پاک امریکی تعلقات اس کی بہترین مثال ہیں۔
سرد جنگ کے زمانے میں جب امریکہ کو پاکستان کی ضرورت تھی تو دونوں ملکوں کی قربت کو قائم رکھنے کے لئے کسی قسم کی لابنگ کی ضرورت نہیں تھی۔ اس وقت بھی ہندوستان اتنا ہی بڑا ملک تھا لیکن اس کی واشنگٹن میں شنوائی اس لئے نہیں ہوتی تھی کہ وہ روسی بلاک سے وابستہ تھا۔ اب جب ہندوستان روس سے اپنے فاصلے بڑھاتے ہوئے امریکہ کے قریب تر ہو گیا ہے تو بظاہر واشنگٹن میں ہندوستانی لابنگ بہت کامیاب ہے۔ معاشی سطح پر ہند امریکہ رابطوں میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ امریکی سرمایے کا ہندوستان کی طرف بہاؤ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ ہندوستانی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور امریکی کمپنیوں کے ہندوستان میں مفادات گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ اب یہ امریکی کمپنیاں خودہندوستان کے حق میں لابنگ کر رہی ہیں۔ظاہر بات ہے کہ جس کمپنی نے اربوں ڈالر کا اسلحہ ہندوستان کو بیچنا ہے وہ خود ہی اس کے لئے لابنگ کرے گی۔
اس سلسلے میں سب سے بہترین مثال چین کی ہے جس کی امریکہ میں لابنگ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی اور مالی سطح پر تعلقات کافی گہرے ہیں۔ اگرچہ امریکہ چین کو دنیا میں اپنا سب سے بڑا رقیب سمجھتا ہے لیکن پھر بھی بنیادی تعلقات میں تعطل نہیں آتا۔ ہزاروں امریکی کمپنیاں اپنے پیداواری پلانٹ چین میں لگا چکی ہیں۔ اس کے علاوہ ہزاروں تاجر روزانہ کی بنیاد پر چین سے لین دین کرتے ہیں۔ چین نے امریکہ میں کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اس لئے امریکہ میں چین کے خلاف اقدامات کے خلاف ہزاروں امریکی کمپنیاں خود ہی لابنگ کرتی ہیں۔ یہ کمپنیاں اپنے مفادات کا تحفظ کر رہی ہوتی ہیں۔ اس کے الٹ پاکستان میں امریکی یا ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مفادات نہایت مختصر ہیں جس کی وجہ سے اس کے حق میں کوئی آواز اٹھانے والا نہیں ہے۔کشمیر کے مسئلے پر دنیا کی بیگانگی اسی بنیادی حقیقت کا عکس ہے اور اس میں تبدیلی لانا کافی مشکل ہے۔
کشمیر کے مسئلے پر سب سے اہم کردار امریکہ اور اس کے حلیف مغربی ممالک کا ہے۔ امریکہ نے کبھی بھی کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی کھل کر حمایت نہیں کی۔ جب پاک امریکہ تعلقات میں بہت قربتیں تھیں تب بھی واشنگٹن کا موقف تھا کہ یہ مسئلہ دو ملکوں کے درمیان ہے اور وہ خود ہی اس مسئلے کا حل تلاش کر سکتے ہیں۔ ہندوستان کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ یہ مسئلہ عالمی نہیں بلکہ دو ملکوں کے درمیان ہے۔ اس پہلو سے دیکھیں تو امریکہ نے ہمیشہ ہندوستانی موقف کی تائید کی ہے۔ اب جب امریکہ کی سوئی حقانی نیٹ ورک کے خاتمے پر اٹکی ہوئی ہے تو اس سے کشمیر کے مسئلے پر کسی مثبت پیش رفت کی توقع غیر حقیقی ہو گی۔ اسی طرح عالم اسلام کے بڑے بڑے ممالک بھی ہندوستان کے ساتھ قریبی تجارتی تعلقات استوار کئے ہوئے ہیں اور ان سے کسی طرح کی امید لگانا درست نہیں ہوگا۔ ان حالات میں وزیر اعظم کی سفارتی ٹیمیں کوئی مثبت تبدیلی لانے میں محدود حد تک ہی کامیاب ہو سکتی ہیں۔
مسئلہ یہ بھی ہے کہ سفارتی ٹیمیں پاکستان کے سفارت خانوں کی محتاج ہوں گی جن کے اپنے وسائل محدود ہیں۔ ہو گا یہ کہ پاکستان کے سفارت خانے سفارتی ٹیموں کی ملاقاتیں دوست حلقوں اور پاکستانیوں سے ہی کروا سکتے ہیں۔ مثلاواشنگٹن میں سفارتی وفد کی ملاقاتیں یا تو ان کانگریس مینوں اور سینیٹروں سے ہوں گی جو پہلے ہی پاکستان کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور یا پھر ان پاکستانی گروپوں سے جو پہلے ہی کشمیر کے مسئلے کو اٹھا رہے ہیں۔ غرضیکہ یہ ملاقاتیں ’’ہم خیال کو اور بھی ہم خیال‘‘ کرنے کے مترادف ہوں گی۔ اس پہلو سے دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ سفارتی ٹیمیں پاکستان میں سیاسی حلقوں کو مطمئن کرنے کے لئے بھیجی جا رہی ہیں تاکہ یہ تاثر قائم کیا جا سکے کہ موجودہ حکومت کشمیر کے مسئلے کے حل کے لئے بہت کوششیں کر رہی ہے۔

.
تازہ ترین