• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہی فیصل کالونی نمبر ایک تھا اور یہی وہ پلاٹ ہے جہاں سیکٹر آفس بنایا گیا تھا جہاں اس سے قبل اس علاقے میں ایک داداگير نظیرا کا طوطی بولتا تھا۔ یہ امیتابھ بچن کی آرٹ فلموں کا زمانہ تھا۔ دادائوں کا زمانہ۔ زیادہ سے زیادہ مہلک اور جنکے ہاتھ دہشت والا ہتھیار سات گراری چاقو تھا۔ اور ایسے دادا گلی محلے میں ہوا کرتے تھے۔ انکا ایک دھندا وی سی آر اور انڈین فلمیں کرائے پر دینا ہوا کرتا۔ لڑکے بالے امیتابھ بچن کی میری آواز سنو جیسی فلمیں دیکھ کر یا پھر نصیر الدین شاہ اور نانا پاٹیکر کی فلمیں دیکھ کر انہی فلموں کےکرداروں جیسے لگتے، کچھ دن کی بڑھی ہوئی شیو، تن پرچادر لپیٹے، نظر کا چشمہ اور جاگرز۔ ابھی "حقوق یا موت" کے نعرے دیواروں پر شروع نہیں ہوئے تھے۔ کرکٹ کا بخار گلی گلی تھا۔ یہیں اردو بولنے والے، پٹھان، اور سندھی بچے اور نوجوان ساتھ ساتھ کرکٹ کھیلتے۔ یہیں اردو اور سندھی بولنے والے شاعر، ادیب، ڈرامہ نگار، موسیقار مصور اور کامریڈ بھی بستے۔ بیٹھکیں کرتے۔ انکی آپس میں یاری اور سنگتیں تھیں اور کئی کی اب بھی ہیں۔
پھر یوں ہوا کہ ملیر سے پاپوش نگر تک اور لانڈھی سے لسبیلہ پل تک دیواروں پر نت نئے لیکن خوفناک نعرے چلو چلو اور کافر کافرجیسی خطرناک سیاہی کے بیچ نظر آئے "حقوق یا موت"۔ اور اس طرح کے نعرے شاہ فیصل کالونی نمبر ایک کی دیواروں پر بھی لکھے نظر آنے لگے۔ اب نظیرا بھی دیکھا دیکھی میںان کل کے لونڈوں لپٹوں اور فیصل کالونی نمبر ایک کے لڑکوں کےگینک کو ساتھ لیکر چلنے لگا- اسوقت وی سی آر اور انڈین فلمیں ایک زیر زمین کاروبار تھا۔ پھر تین حرفی لفظ سے ایک نئی لسانی پارٹی بن گئی۔
فیصل کالونی میں اب کسی خالی پلاٹ کے گرد دیوار کھڑی کردی گئی اور اسکے اندر گملے پودے رکھے گئے۔ ایک کتا بھی باندھ دیا گيا۔ باہر کے گیٹ پر لکھا گیا "سیکٹر آفس"۔ یہ لڑکے اب ایم کیو ایم کی "شرفا کمیٹی" کے رکن تھے۔ شرفا کمیٹی کے یہ نوجوان ان سفید پوشوں سے الگ تھلگ تھے جو اس نئی پارٹی کے عہدیدار تھے۔ جو جلسوں میں اسٹیج پر دیکھے جاتے۔ یہ بھائی لوگ تھے۔ یہ بجلی کے کھمبوں پر ترنگا پرچم پینٹ کرتے۔ دیواروں پر چاکنگ کرتے۔ اور ان میں سے کچھ "بھائی کے باڈی گارڈ" بھی بنتے جب بھائی نے پہلی بار فیصل کالونی کا دورہ کیا تھا۔ لیکن اب بھی یہ لڑکے آرٹ فلموں اور کرکٹ کے شوقین تھے۔ اب نظیرا انکا سلامی تھا۔ پھر ہم نے سنا اور دیکھا کہ نظیرے کو بھی بھائیوں کے حکم پر "ٹھوک" دیا گیا۔سات گراری اور آٹھ فیری ریوالور والی نظیرے کی دہشت کا زمانہ ختم ہوا۔ اب تو "کلاشنکوف" انہی لڑکوں کے ہاتھ میں دکھائی دی۔ اسکے بعد جب بھائی کا شاہ فیصل کالونی میں جلسہ ہوا اور لڑکے آفاق بھائی سے متاثر ہوئے جنہوں نے بھائی کی پیجارو کے آگے کلاشنکوف اٹھا رکھی تھی۔ آفاق بھائی فیصل کالونی کے "شرفا" میں "ڈپٹی صاحب" کے نام سے خوب مشہور تھے۔
اب ماحول بدلا بدلا سا تھا۔ شہر میں پٹھان مہاجر فسادات ہوئے اور وہ پختون بچہ جو انہی لڑکوں کے ساتھ کرکٹ کھیلا کرتا تھا اسے بھی قتل کردیا گیا۔ ملیر ندی کے پیٹ میں ایک جگہ سے دوسری جگہ موٹر سائیکلوں پر یہ شرفا کرکٹ کے سامان کے بیگ میں ہتھیار منتقل کرتے جسے وہ "سامان" کہتے۔
سب سے لرزہ خیز واردات یہ بھی ہوئی کہ علاقے میں پختونوں کی لکڑیوں کی ٹال کو آگ لگادی گئی جس میں سونے والے بھی جل کر راکھ ہو گئے۔ یہ محلے کے ایک پولیس سپاہی ندیم عرف ملاں کی اس پھیلائی افواہ پر ہوا کہ جس نے رات کی ڈیوٹی سے واپس آتے ہوئے علی الصبح یہ آ کر کہ فلاں علاقے میں اردو بولنے والی لڑکی سے ریپ کیا گیا ہے۔ بعد میں یہ افواہ ظاہر ہے کہ جھوٹی نکلی۔
ادھر علی گڑھ اور قصبہ کالونی جیسے اردو بولنے والے اکثریتی علاقے میں اردو بولنے والے لوگوں کو گولیوں سے بھون دیا گيا۔ مبینہ طور پر افواہیں یہ بھی ہیں کہ پشتو بولنے والےان شرپسندوں کے ہمراہ کچھ سندھی بھی تھے۔ یہ بالکل گووند نہالانی کے اس ڈرامے "تمس" کے سین تھے جو بٹوارے کے بہت سالوں بعد بنا مگر جب بھی نشر ہوا بھارت میں پھرفسادات پھوٹ پڑے۔ زخم ہرے ہوگئے۔
اب "شرفاکمیٹی" پنچائیت بھی اور فیصلے بھی نمٹاتی۔ بھائیوں کو جب یہ اطلاع ملی کہ ایک نمبر میں ایک پریمی جوڑا گھر سے بھاگ نکلنے والا ہے تو انہیں بھاگنے سے پہلے قابو کر لیا گیا۔ لڑکے کی دھلائی کی گئی اور لڑکی اپنے ماں باپ کو واپس کردی گئی۔ یعنی کہ بھائی لوگ ظالم سماج کا بھی کردار ادا کرنے لگے۔ "بچہ بازی" کے فیصلے بھی انہی کے پاس آتے۔
یہی کردار سندھ کے تمام بڑے شہروں میں "شرفا کمیٹی" کا تھا۔ اچھے خاصے پیارے ناموں والے بچے فرخ۔ خرم، ندیم اب "ٹی ٹی" اور "کن کٹے" کہلانے لگے۔ حیدرآباد گاڑی کھاتے میں ایک پختون نوجوان کو اردو اور سندھی بولنے والے غنڈوں نے مارپیٹ کر ہلاک کردیا۔ ادھر لیاقت میڈیکل کالج میں سندھی قومپرستوں نے بڑے بھائی کو اجرک پہنائی اور کلاشنکوف کا تحفہ پیش کیا۔ پتہ نہیں کیوں ان میں اکثر وی سی آر اور کرائے پر انڈین فلموں کا کام کرتے تھے!
لیکن "شرفا کمیٹی" کے ساتھ ساتھ فکری نشستیں بھی تھیں۔جو رات بھر چلتی رہتیں۔ ایک دفعہ مجھے یاد ہے بڑے بھائی حیدرآباد آئے اور جلسہ گاہ کا معائنہ کیا اور شرفا کمیٹی والوں سے خود برش لیکر پارٹی کا ترنگا کھمبے پر پینٹ کرنے لگے۔ یہ "حق پرست الیون" اور "شاہ لطیف" الیون کے درمیان فسادات کے خونریز میچوں سے بہت پہلے کی بات ہے۔ جب سندھی بغلیں بجاتے رہے اور خوش ہوتے تھے کہ چلو ہم سے ٹلے ہوئے ہیں اور پٹھانوں کو مار رہے ہیں! (جیسے اب خوش ہورہے ہیں کہ آپریشن کا سارا غضب ایم کیو ایم اور اردو بولنے والوں کی طرف ہے)لیکن میرے ایک دوست نے کہا تھا" خوشیاں مت منائو ابھی بریانی کھانے کے بعد انکے میٹھا کھانے کی بھی باری آئے گی۔ کہ چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں۔ یعنی کہ بقول شخصے وہ قوم جو منہ میں پان کی گلوری لیکر سات دفعہ ایک دوسرے کوآداب کہا کرتی اب ایک دوسرے کے نرخرے کاٹ رہی تھی۔
پھر حیدرآباد میں سندھ کے بہت بڑے انقلابی کسان رہنما جسے سندھ کے لوگ بابائے سندھ کامریڈ حیدر بخش جتوئی کہتے ہیں ۔ جن کے آدھے رشتہ دار اردو بولنے والے ہیں،کی یاد میں نام والے حیدرچوک جو کہ سندھ کے حقوق کی تحریک اور ملک میں جمہوری تحریک کا بھی ایم آر ڈی کے دنوں میں مرکز تھا،پر پھر بھائی لوگوں نے بقول انکے "مہاجر اکابرین " کی تصاویر آویزاں کردیں۔ اب یہ میں نہیں سمجھ سکا الطاف حسین حالی، ابوالکلام آزاد، سراج الدولہ "مہاجر اکابرین" کیسے ہوئے!
کاش وہ ابو الکلام آزاد کا ان سے کلام مانگ لیتے۔ کاش وہ قرۃالعین حیدر کے معرکتہ آرا ناول "آگ کا دریا" کا آخری باب "مہاجر" ہی پڑھ لیتے۔ کاش کچھ سندھی اور سندھی قومپرست رہنما بھی عقل کے ناخن لے لیتے۔ سوائے جی ایم سید، عبدالواحد آریسر اور چند اور کے۔ پھر ایسا ہوا کہ سندھی شرپسندوں نے بھی ان "مہاجر اکابرین" کی تصاویر پر کالک مل دی۔ انیس سو بہتر اور ستتر کے بعد پھر پہلی بار لسانی کشیدگی نے جنم لیا اور دیکھتے دیکھتے وہ آنیوالے دنوں میں ایک بڑی خونریزیوں کے سلسلوں میں تبدیل ہو گئی۔۔یہاںتک کہ لسانی بنیادوں پر طلاقیں ہوگئیں اور منگنیاں توڑ دی گئیں۔ ایک رات میں لسانی جماعت کے "شرفا" نے ایک سو سندھی مرد عورتیں اور بچے کراچی میں قتل کیے جن میں میرے دوست شاہد بھٹو کے اسی فیصل کالونی میں ماموں کا خاندان اور پیارا فنکار وائسزگروپ کا منور پٹھان بھی مقتولین میںشامل ہیں اور سندھی قومپرستوں اور ڈاکوئوں کے ٹولوں نے ملکر حیدرآباد میں تیس سو کے قریب اردو بولنے والے۔
لیکن چونکہ بڑے بھائی الطاف حسین جاگیردارانہ سماج سے تھے نہ جاگیردارانہ سوچ والے تو انہوں نے نہ فقط اپنے کارکنوں سے کہا کہ وہ تصاویر جاکر حیدر چوک سے ہٹائیںپر اس پر انہوں نے معافی بھی مانگ لی۔ اسے کچھ سندھیوں نے انکی بزدلی سمجھ لیا۔ تو یہ جیسے میرے دوست محمد حنیف نے ایک دفعہ عمران فاروق پر اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ قرۃ العین حیدر اور اور ماریو پزو کا ناول "گاڈ فادر" ساتھ ساتھ چل رہے ہوں۔ بالکل اسی طرح شرفا کمیٹیاں ایم کیو ایم کی قیادت کی شعر شاعری والی زبان ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔
مجھے آج سندھ کے ہاری حقوق کے معروف کارکن چاچا محمد علی لغاری کی وہ بات یاد آ رہی ہے جو انہوں نے ایک نوجوان سیاسی کارکن سے کہی تھی: "بیٹا اگر تمہیں سیاست کرنی ہے تو پھر کبھی بھی پستول کو ہاتھ نہ لگانا۔"
لیکن بھائی صاحب بات یہ ہے کہ اٹھانوے فی صد اردو بولنے والوں نے سیاست میں پستول نہیں اٹھائی ہوئی ان پر ٹینک اور بلڈوزر نہ چڑھائیں یہ امن پسند لوگ ہیں۔ وہ خون جو ڈھاکہ کی سڑکوں پر بہا تھا اسے کراچی کی سڑکوں پر مزید بہانے سے احتیاط برتیے گا۔


.
تازہ ترین