• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارے معاشرے میں منافقت بڑھ رہی ہے اور حریت فکر کم ہورہی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام کا نام تو بہت لیا جاتا ہے لیکن اکثریت کے کردار و عمل میں اسلام نظر نہیں آتا۔ جمہوریت موجود ہے لیکن جمہوری رویے مفقود ہیں، حب الوطنی دکھاوا نہیں بلکہ تماشا بن چکی ہے۔ مکے لہرا لہرا کر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے والے پاکستان کے آئین و قانون کو پامال کرنا بھی قومی سلامتی کا تقاضا قرار دینے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔ ان منافقانہ رویوں کو فروغ دینے میں میڈیا بھی کسی سے کم نہیں۔ پچھلے چند دنوں میں کچھ واقعات نے ہماری سیاسی اشرافیہ اور میڈیا کے دوغلے رویے کو ایسا ننگا کیا ہے کہ چھپانے کو بھی کچھ نہیں بچا۔ گزشتہ ہفتے پارلیمنٹ ہائوس میں نماز جمعہ سے کچھ دیر قبل چیئرمین سینیٹ کے دفتر میں موٹر وے پولیس اور فوجی افسران کے درمیان ہونے والے ایک ناخوشگوار واقعے پر گفتگو ہورہی تھی۔ اس گفتگو میں مسلم لیگ(ن) ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف ، اے این پی اور ایم کیو ایم کے کچھ سینیٹر صاحبان زور و شور سے میڈیا پر تنقید کررہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر کسی سیاستدان نے موٹر وے پولیس کے ساتھ بدتمیزی کی ہوتی تو اس کی خیر نہیں تھی لیکن اس واقعے میں آڈیو اور ویڈیو موجود ہونے کے باوجود میڈیا نے بڑی سعادت مندی کے ساتھ معاملہ گول کردیا۔ چیئرمین صاحب خاموشی سے گفتگو سنتے رہے اور میں سینیٹر صاحبان کے طعنوں پر مسکراتا رہا۔ جب طعنہ بازوں کے لہجوں کی کاٹ نشتر سے خنجر بننے لگی تو میں نے اپنے اسمارٹ فون سے ان سینیٹر صاحبان کو اس واقعے کے ایک کردار کی گفتگو سنوائی جو اپنے ساتھی کو بتارہا تھا کہ موٹر وے پولیس کے اہلکار نے اس کے ساتھ گالی گلوچ کی اور پھر اس نے الفاظ کے ذریعہ پولیس کو ایک ایسی جگہ لٹکایاجو ناقابل بیان ہے۔ میں نے مسلم لیگ(ن) کے ایک سینیٹر صاحب سے کہا کہ جناب اس نوجوان افسر کی گفتگو کس نے ٹیپ کی؟ کس نے سوشل میڈیا پر ڈالی؟ فوج نے تو بتادیا کہ اس واقعے کی انکوائری ہورہی ہے آپ کی حکومت کیوں خاموش رہی؟ یہ الزام کیوں لگایا گیا کہ اس واقعے کی آڑ میں فوج کو بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؟ میڈیا پر آپ کی تنقید بجا لیکن آپ کے وزیر کیوں چپ رہے؟ کیا وہ اتنا بھی نہیں کہہ سکتے تھے کہ اس واقعے کی انکوائری کے بعد دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا؟ کیا یہ درست نہیں کہ آپ کی حکومت نے آئین کی دفعہ چھ کی خلاف ورزی کے ملزم کو ٹرائل کے دوران ملک سے فرار کراکر آئین کو ایک مذاق بنادیا ہے اور اس آئین کی دھجیاں اپنے ہاتھ سے بکھیر دی ہیں ، اب تو اس ملک میں صرف اسی کا قانون چلے گا جس کے پاس طاقت ہے؟ میرے سوالات نے ماحول کو اداس کردیا، اس سے پہلے کہ ہم سب ایک دوسرے کے گلے لگ کر رونے لگتے محفل برخاست ہوگئی کیونکہ نماز کا وقت ہوچکا تھا۔
نماز سے فارغ ہو کر دفتر پہنچا تو پتہ چلا کہ مہمند کے علاقے امبار کے ایک گائوں کی مسجد میں نماز جمعہ کے دوران خود کش حملے میں بہت سے نمازی شہید ہوگئے ہیں۔ اس علاقے کے قبائلیوں نے عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں سیکورٹی فورسز کی مدد کی تھی لہٰذا انتقام کے طور پر ایک ایسی مسجد کو نشانہ بنایا گیا جہاں اتمان خیل قبیلے کے کچھ مشران نماز ادا کررہے تھے۔ اس افسوسناک واقعے کی تفصیلات آرہی تھیں کہ کراچی میں ایم کیو ایم کے رہنما خواجہ اظہار الحسن کو گرفتار کرلیا گیا۔ سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی گرفتاری ایک بڑا واقعہ تھا جس کی ویڈیو میں پولیس والے ایک سیاستدان کو ہتھکڑی لگا کر دھکے مارتے ہوئے گرفتار کررہے تھے اور گھر کی خواتین چیخ و پکار کررہی تھیں۔ کچھ ہی دیر میں وزیر اعلیٰ سندھ نے اس واقعے سے لاعلمی ظاہر اور گرفتار کرنے والے پولیس افسر رائو انوار کو معطل کردیا۔ اب یہ خبر الیکٹرانک میڈیا کی مین اسٹوری بن گئی اور مہمند کا سانحہ پس منظر میں چلا گیا۔ تمام بڑے ٹی وی چینلز نے سانحہ مہمند کی کوریج کیلئے پشاور سے اپنی ٹیمیں روانہ کیں۔ شب قدر کے قریب یکہ غنڈ کے علاقے میں ان سب کو روک لیا گیا۔ مقامی لوگوں نے اپنے موبائل فونوں سے کچھ فلمیں بنا کر ٹی وی چینلز کو مہیا کیں۔ یکہ غنڈ میں فرنٹیئر کانسٹیبلری نے صحافیوں سے کہا کہ مقامی پولٹیکل انتظامیہ نے پشاور سے آنے والی میڈیا ٹیموں کا مہمند میں داخلہ بند کردیا ہے۔ صرف ایک پشتو چینل کو امبار تک جانے کی اجازت ملی۔ اس علاقے میں کچھ عرصہ قبل عسکریت پسندوں نے حملہ کرکے نو مقامی خاصہ دار شہید کردئیے تھے جس کے بعد سے اتمان خیل قبیلے کے مشران علاقے میں سیکورٹی کے انتظامات بڑھانے کا مطالبہ کررہے تھے۔ اب ایک اور سانحے کے بعد یہ مشران ناراض تھے اور انتظامیہ ان کی ناراضی کو میڈیا سے چھپانا چاہتی تھی لہٰذا میڈیا کا داخلہ بند کردیا گیا۔ میڈیا پر لگائی گئی اس پابندی کے باعث اس سانحے کی کوریج ویسے نہ ہوسکی جیسی عام طور پر ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود یہ سانحہ خواجہ اظہار الحسن کی گرفتاری سے بڑا واقعہ تھا، اسے مین ہیڈ لائن نہ بنانا زیادتی تھی، لہٰذا اس سلسلے میں میڈیا پر ہونے والی تنقید اتنی بلاجواز نہیں۔ کاش کے وزیر اعظم، گورنر، وزیر اعلیٰ یا آرمی چیف سانحہ مہمند کے شہداء کی نماز جنازہ میں شرکت کیلئے امبار چلے جاتے تو شاید شہداء کو کچھ زیادہ کوریج مل جاتی لیکن دور دراز علاقے کے شہداء کو اس ملک کی اشرافیہ اور میڈیا نے مل کر نظر انداز کردیا۔ موٹر وے اور مہمند کے واقعات نے ایک اور حقیقت کو بھی آشکار کیا ہے۔ وہ یہ کہ میڈیا کی آزادی تیزی سے کم ہورہی ہے۔ پہلے زندہ انسان لاپتہ ہوئے تھے۔ اب خبریں بھی لاپتہ ہوجاتی ہیں۔ ان لاپتہ خبروں پر سوشل میڈیا میں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کا خوب مذاق اڑایا جاتا ہے کیونکہ سوشل میڈیا پر جرأت و بہادری کا مظاہرہ کرنے والے اکثر مرد و خواتین کے نام اور چہرے جعلی ہوتے ہیں۔ بہرحال یہ طے ہے کہ وہ زمانہ گیا جب ذاتی مفاد کی خاطر خاموشی اختیار کرنے کو مصلحت کا نام دیا جاتا تھا۔ اب یہ منافقت اور بزدلی ہے لیکن یہ مت بھولیں کہ سوشل میڈیا پر موٹر وے والے واقعہ میں ملوث ایک کپتان کی گالیاں اور لب و لہجہ پوری فوج کے کردار کی غمازی نہیں کرتا۔ اسی فوج کا ایک کپتان اسفندیار 18ستمبر 2015ء کو بڈھ بیر ائیر بیس پشاور پر حملہ کرنے والوں کا بڑی بہادری سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوگیا تھا۔ ا یسے شہداء قوم کے ماتھے کا جھومر ہیں لیکن چند افراد کی غلطیاں ان شہداء کی قربانیوں کو کچھ دیر کیلئے پس منظر میں دھکیل دیتی ہیں۔ کیا غلطیوں سے گریز ممکن ہے۔
اگر ہم نے ایک زندہ قوم کے طور پر آگے بڑھنا ہے تو ہمیں اپنے کردار و عمل کا دوغلا پن ختم کرنا ہوگا۔ مصلحت کے نام پر خاموشی اور حب الوطنی کے نام پر پابندیوں کو توڑنا ہوگا۔ پرنٹ اور الیکٹرنک میڈیا کو طاقت اور پیسے سے کنٹرول کرنے کی کوشش میں مصروف اشرافیہ یاد رکھے کہ عام لوگوں کو بے وقوف بنانے کازمانہ گزر گیا۔ نواز شریف اور عمران خان موٹر وے کے واقعہ پر خاموش رہے اور خواجہ اظہار الحسن کے واقعہ پر زور زور سے بولنے لگے۔ عمران خان نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ ایس ایس پی رائو انوار کو وزیر اعظم کے حکم پر معطل کیا گیا حالانکہ رائو انوار کو وزیر اعلیٰ سندھ نے اپنے طور پر معطل کیا۔ عمران خان کو ایسی غلط بیانیاں زیب نہیں دیتیں۔ اسی طرح وزیر اعظم نواز شریف بھی اب بس کریں اور پاناما پیپر ز کے معاملے کو لٹکانے کی بجائے اسے منطقی انجام تک پہنچانے کے عمل کا آغاز کریں ۔ جن لوگوں نے وردی پہن رکھی ہے وہ بھی جان لیں کہ صرف پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے سے کام نہیں چلے گا۔ پاکستان کے آئین و قانون کو بھی زندہ رکھنا ضروری ہے۔ وردی کسی بھی رنگ کی ہو اس کا احترام ضروری ہے۔ ایک وردی والا کسی دوسرے ادارے کی وردی پھاڑے گا تو سب وردیوں کا احترام ختم ہوجائے گا۔ موٹر وے پر ایک چھوٹا سا واقعہ رونما ہوا اور اتنے بڑے میڈیا کی نام نہاد آزادی کو بے نقاب کرگیا۔ اس میڈیا نے ایک شخص کی تین سال تک امیج بلڈنگ کی ۔خدشہ ہے کہ اس امیج کو اٹک قلعہ کا واقعہ نقصان نہ پہنچا دے۔ ہمیں افراد کا نہیں پاکستان کا امیج بنانا ہے پاکستان کا امیج آئین و قانون کی بالا دستی سے مشروط ہے۔


.
تازہ ترین