• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کسی نے میرے مجنوں نما گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ مجنوں نما گھر سے میری مراد ہے ایسا گھرجو مجنوں کی طرح ہو۔ اگر اس گھر کا کوئی گریبان ہوتا، تو وہ گریبان مجنوں کے گریبان کی طرح چاک چاک ہوتا۔ اگر اس گھر کا کوئی سر ہوتا تو اس سر میں خاک پڑی ہوتی۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ میرے گھر کی حالت وہی ہے جو مجنوں کی حالت تھی۔ دوبارہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا ۔ اس وقت میرے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے تھے۔ مروڑ بھی ایسے ویسے نہیں تھے۔ مجھے لگ رہا تھا جیسے بکرے اور بیل مجھے اندر سے پیٹ میں ٹکریں مار رہے تھے۔ پیٹ درد کی جتنی بھی چورنیں ایجاد ہو چکی ہیں۔ میں آزما چکا تھا۔ پتھر ہضم، لکڑ ہضم، لوہا ہضم، سریا ہضم، ریتی ہضم، بجری ہضم، سیمنٹ ہضم قسم کی چورنیں میں آزما چکا تھا۔ کوئی افاقہ نہیں ہوا تھا۔ پیٹ میں بدستور مروڑ اٹھ رہے تھے۔ اس کے بعد میں نے اعلیٰ نسل کی ہر چیز ہضم چورنیں آزمائیں جیسا کہ بینک قرضے ہضم، سرکاری گرانٹ اور فنڈ ہضم، غیر ملکی امدادیں ہضم، ملازمتیں ہضم، اور بیت المال ہضم کرنے والی مہنگی چورنیں پھانکنے سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ درد بڑھتا گیا جوں جوں چورنیں آزمائیں۔
اتنے میں تیسری مرتبہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں نے بادل نخواستہ اٹھ کر دروازہ کھولا۔ ایک خستہ حال پریشان عورت کھڑی ہوئی تھی۔ وہ کچھ کچھ میری ماں سے مشابہ تھی۔ مجھے دیکھتے ہی خستہ حال عورت نے کہا ’’میرے دو جڑواں بیٹوں کو ماجا اور پاجا دن دیہاڑے اٹھا کر لے گئے ہیں۔‘‘
خستہ حال عورت کو میں اپنے مجنوں نما گھر میں لے آیا۔ اسے بٹھایا۔ پانی پلایا۔ عورت نے زار و قطار روتے ہوئے کہا ۔ ’’پڑوسی کہتے ہیں کہ پولیس والوں سے تمہاری اچھی دعا سلام ہے۔ تم مجھے میرے دونوں بیٹے واپس دلوائو‘‘۔
ماجا اور پاجا ہمارے پڑوس کے نامی گرامی قصائی ہیں۔ وہ اغوا برائے تاوان کا کاروبار بھی کرتے ہیں۔ تاوان نہ ملنے کی صورت میں مغوی کا سر تن سے جدا کرنے میں وہ اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ آپ کو شاید حیرت نہ ہو کہ ماجا اور پاجا کبھی ایم این اے اور کبھی سینیٹر بنتے آئے ہیں۔ آج کل ان کا ستارہ گردش میں ہے۔ اگر پارٹی پریزیڈنٹ کی ان پر پھر سے نظر کرم پڑ گئی تو بیس ماہ بعد ہونے والے انتخابات میں ایم این اے کا الیکشن لڑیں گے۔ اگر ہار گئے تو سینیٹ کے ممبر بنا دیئے جائیں گے اور معزز سینیٹر کہلوائیں گے۔
خستہ حال عورت نے کہا ’’تم پولیس والوں کی مدد سے میرے بیٹوں کو بچا لو گے نا؟‘‘
کراچی کے کئی ایک تھانوں کے ایس ایچ اوز سے میری بہت اچھی سلام دعا ہے۔ جن دنوں لکھنا میری روزی روٹی کا ذریعہ نہیں بنا تھا تب میں پولیس کے لئے مخبری کرتا تھا۔ اچھے اچھوں کے چھکے چھڑا دیتا تھا۔ خوب ڈٹ کر کھانے کے لئے روزی روٹی کا بندوبست ہو جاتا تھا۔ مگر مجھے یہ کام اچھا نہیں لگتا تھا۔ مجھے بھاتا نہیں تھا۔ لوگ مجھ سے ڈرتے تھے مگر میری عزت نہیں کرتے تھے۔ کرائے پر رہنےکے لئے مجھے ایک کمرہ نہیں دیتے تھے۔ میں نے دیکھا ہے کہ مالک مکان پولیس کے لوگوں اور وکیلوں کو کرائے پر مکان دینے سے ہچکچاتے ہیں۔ میں پیدائشی صوفی فقیر ہوں۔ سب سے ڈرتا ہوں۔ پولیس کے لئے مخبری کرتے ہوئے مجھے اچھا نہیں لگتا تھا کہ لوگ مجھ سے ڈریں اور پھر جیسے ہی لکھنا میرے لئے روزی روٹی کا سبب بنا میں نے پولیس کے لئے مخبری کرنے کا کام چھوڑ دیا۔ اس بات کو ایک عرصہ گزر چکا ہے۔ مگر اب تک پولیس والوں سے سلام دعا کا رشتہ ہے۔ میں جس محلے میں رہتا ہوں وہ کاٹھیاواڑی پولیس اسٹیشن کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ خستہ حال عورت کو لے کر میں کاٹھیاواڑی پولیس اسٹیشن پہنچا۔ کاٹھیاواڑی پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او جان محمد شر سے میری پرانی شناسائی ہے۔ تب وہ سپاہی تھا اور مجھے ملباری باکڑے کی کڑک چائے پلا کر اڑوس پڑوس کی خبریں پوچھتا رہتا تھا۔ ہٹا کٹا تھا، بدمعاشوں اور غنڈوں کی جان محمد شر سے جان جاتی تھی۔ وہ سینہ ٹھوک کر کہتا تھا اور اب بھی کہتا ہے کہ میرا نام جان محمد شر ہے۔ میں شرپسندوں کی جان کا دشمن ہوں۔
جان محمد شر بڑے تپاک سے مجھ سے ملا۔ اس نے تھانے آنے کا سبب پوچھا۔ میں نے کہا ’’ماجا اور پاجا ایک مسکین بے بس ماں کے دو بیٹے اٹھا کر لے گئے ہیں اور خدشہ ہے کہ انہوں نے دونوں بچے بیچ دیئے ہیں‘‘۔
’’میرا نام جان محمد شر ہے۔ میں شرپسندوں کی جان کا دشمن ہوں۔‘‘ جان محمد شر نے میز پر مکا مارتے ہوئے کہا ’’کہاں ہے مظلوم ماں؟‘‘
میں نے کہا ’’وہ بیچاری باہر کھڑی ہوئی ہے۔ میں اسے لے آتا ہوں‘‘۔ میں باہر جانے کیلئے کرسی سے اٹھا۔
’’تم بیٹھو بالم۔‘‘ جان محمد شر نے اپنے سپاہیوں سے کہا ۔’’ باہر ایک مظلوم ماں کھڑی ہوئی ہے۔ اسے عزت سے اندر لے آئو‘‘۔
دو سپاہی دوڑتے ہوئے باہر گئے اور کچھ دیر کے بعد ہانپتے کانپتے واپس آئے اور کہا ’’سر ، باہر کوئی عورت نہیں ہے۔ البتہ ایک بکری کھڑی ہوئی ہے۔‘‘
’’کیا بات کرتے ہو!‘‘ میں لپک کر اٹھا، اور باہر نکل گیا۔ مظلوم ماں سر جھکائے کھڑی تھی۔ میں اسے اندر لے آیا۔ جان محمد شر نے تعجب سے پوچھا ۔’’مظلوم ماں کہاں ہے؟ اور تم بکری کو اندر کیوں لے آئے ہو؟‘‘
’’یہ بکری نہیں ہے جان محمد ۔‘‘ میں نے کہا ’’یہ ایک مظلوم ماں ہے۔ ماجا اور پاجا اس کے دو بیٹوں کو اٹھا کر لے گئے ہیں۔ ماجا اور پاجا قصائی ہیں۔ وہ اس بے بس ماں کے بیٹوں کو ذبح کر دیں گے۔ تم مظلوم ماں کی ایف آئی آر کاٹو۔‘‘
جان محمد شر نے مجھے اپنی مضبوط بانہوں میں جکڑ لیا اور کہا ’’میرے بھائی، میرے یار، یہ بکری ہے۔ پاکستان کے قوانین کے مطابق بکری کی ایف آئی آر نہیں کٹ سکتی۔‘‘
’’ماں، ماں ہوتی ہے۔‘‘ میں نے کہا ۔ ’’اورماں بکری اور گائے نہیں ہوتی۔ ماں، ماں ہوتی ہے۔ ٹھیک ہے جان محمد۔ تم ایک مظلوم بے بس ماں کی ایف آئی آر مٹ کاٹو۔ میں کورٹ سے رجوع کرتا ہوں۔‘‘
میں نے کورٹ میں مظلوم ماں کی طرف سے درخواست بھیج دی۔ جب کئی دنوں تک جواب نہیں آیا تو میں نے منصف صاحب کو ریمائنڈریعنی یاددہانی کروائی۔ پھر بھی جواب موصول نہیں ہوا۔ دسویں ریمائنڈر کے بعد جواب موصول ہوا ۔ لکھا تھا ۔ ’’اگر تم بار بار ریمائنڈر بھیجنے سے باز نہیں آئے، تو تمہیں توہین عدالت کے جرم میں گرفتار کر کے پاگل خانے بھجوا دیا جائیگا‘‘۔


.
تازہ ترین