• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھرتیاں کالعدم، ججوں کے عدالتی احکامات کو آئینی تحفظ حاصل ہے، سپریم کورٹ

اسلام آباد ( رپورٹ :رانامسعود حسین ) عدالت عظمیٰ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں مختلف عہدوں پر گریڈ 8سے لیکر 19تک کی جانے والی 74 غیر قانونی تقرریوں کے خلاف دائر آئینی درخواستوں کا فیصلہ جاری کرتے ہوئے تما م بھرتیوںکو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا ہے جبکہ ڈپٹی اورایڈیشنل رجسٹرار سمیت خالی ہونے وا لی آسامیوں پر نیشنل ٹسٹنگ سروس ( این ٹی ایس )کے تحت 45 دن کے اندر دوبارہ تقرریاں مکمل کرنے کا حکم جاری کیا ہے ، فاضل عدالت نے فارغ کئے گئے ملازمین کو 15روز کے اندر انکے اصلی اداروں میں واپس بھجوانے کا حکم بھی جاری کیا ہے،اس فیصلے کا اطلاق اسلام آباد ہائیکورٹ کے گریڈ 1سے7 تک ملازمین کی تقرریوں پر نہیں ہوگا تاہم گریڈ 8سے 19تک کے ملازمین اس سے متاثر ہونگے ،فیصلہ سے متاثر ہونے والوں میں ہائیکورٹ کے چیف جسٹس محمد انور کاسی کے سگے بھائی و ایڈیشنل رجسٹرار ادریس کاسی بھی شامل ہیں ، فاضل عدالت نے قرار دیا ہے کہ ہائیکورٹ کے عدالتی فیصلوں یا احکامات کو تو آئینی تحفظ حاصل ہے لیکن انتظامی اختیارات کونہیں، سوموا رکے روز جاری کیا گیا 54صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس امیر ہانی مسلم نے تحریر کیا ہے ، جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں جسٹس مشیر عالم اور جسٹس دوست محمد خان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے فریقین کے وکلاء کے دلائل مکمل ہونے کے بعد 16مئی کو فیصلہ محفوظ کیا تھا،فاضل عدالت نے اپنے فیصلہ میں قرار دیا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اور دوسینئر ججز پر مشتمل ا نتظامی کمیٹی نے ان اسامیوں پر آئین اور قواعد کے خلاف تقرریاں کی ہیں ، جوسروس رولز2011.، 8,4(1)، اورآئین کے آرٹیکل208 کی بھی خلاف ورزی ہے، عدالت نے قرار دیا ہے کہ اس فیصلہ پر 45دن کے اندر عملدرآمد کیاجائے اور ہائیکورٹ میں خالی ہونے والی ان اسا میو ں سمیت آئندہ تما م تقرریا ں این ٹی ایس کے امتحان کے ذریعے کی جائیں ، فاضل عدالت نے مزید کہا کہ تقرریوں میں کسی کو بھی میرٹ کی خلاف ورزی کی اجاز ت نہیں دی جاسکتی، جب ہائیکورٹ خالی اسامیوں پر جان بوجھ کر منظور نظر افراد کو نوازے گی تو عدلیہ کا ادارہ داغدارہوگا اور میرٹ کی پامالی سے عام عوام کاعدلیہ کے اداروں سے اعتماد اٹھ جائے گا، فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ بھرتی کے عمل میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے اور میرٹ کو مدنظر رکھا جائے، عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کیلئے فیصلہ کی نقل بذریعہ فیکس اسلام آباد ہائیکورٹ کے رجسٹرار اور ججز کو بھجوانے کا بھی حکم جاری کیا گیا ہے،فیصلہ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں پہلے ہی 200 ملازمین کام کررہے تھے اسلئے ان اسامیوں پر بھرتی کے لئے کوئی ہنگامی حالات نہیں تھے لیکن اس کے باوجود من پسند افراد کونوازنے کیلئے تمام تر قواعدو ضوابط کو نظر انداز کرتے ہوئے بھرتیاں کی گئیں، فیصلہ میں اس بات کا حوالہ بھی دیا گیا ہے کہ اکائونٹنٹ جنرل آف پاکستان ریونیو کے اکائونٹس آفیسرنسیم الغنی نے ہائیکورٹ کے سال2010-11,2011-12 اور.2012-13کے آڈٹ کی رپورٹوں میں قرار دیا تھا کہ اس عرصہ کے دوران ہائیکورٹ میں بھرتی ہونے والے ملازمین کی ذاتی فائلوں کا جائزہ لینے کے بعد مشاہدہ کیا گیا ہے کہ 2010میں اسلام آباد ہائیکورٹ کی دوبارہ آئینی تشکیل کے بعد سے اب تک مختلف عہدوں پر ہونے والی ایک بھرتی بھی میرٹ پر نہیں کی گئی ،جبکہ دیگر اداروں سے ڈیپوٹیشن پر آنے والے ملازمین کا انضمام کرتے وقت بھی قواعدو ضوابط کی بری طرح پامالی کی گئی، ڈیپوٹیشن پر آنے والوں کو نئے ادارہ میں عموماً اسی اسکیل میں ہی ضم کیا جاتا یا زیادہ سے زیادہ مزید ایک سکیل میں ترقی دی جاتی ہے ،لیکن یہاں پر تو ان کے اصل سکیل سے کئی اسکیل آگے ترقیاں دی گئی ہیں ،جن کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا تھا ،اس تین سالہ عرصہ کے دوران بھرتیوں کے لئے خالی اسامیوں کو اخبارات کے ذریعے مشتہر بھی نہیں کیا گیا جبکہ فاضل سپریم کورٹ مختلف مقدمات میں بغیر مشتہر کئے گئے ہونے والی بھرتیوں کے اقدامات کو پہلے ہی کالعدم قرار دے چکی ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ اسٹیبلشمنٹ (اپوائنٹس اینڈ کنڈیشن آف سروس) رولز 2011کے رول 8کے مطابق ہا ئیکورٹ میں خالی ہونے والی ہر اسامی کو پر کرنے کے لئے اخبار میں اشتہار دینا لازمی ہے، لیکن ان بھرتیوں میں ایسا نہ کرکے حق داروں کی حق تلفی کی گئی۔ بعد ازاں عدالت نے گریڈ 8سے لیکر 19تک کی جانے والی 74 تقرریوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا جبکہ ڈپٹی اورایڈیشنل رجسٹرار سمیت خالی ہونے وا لی آسامیوں پر نیشنل ٹسٹنگ سروس ( این ٹی ایس )کے تحت 45 دن کے اندر دوبارہ تقرریاں مکمل کرنے کا حکم جاری کیا ، عدالت نے فارغ کئے گئے ملازمین کو 15روز کے اندر انکے اصلی اداروں میں واپس بھجوانے کا حکم بھی جاری کیا ہے،جہاں وہ اپنے ساتھی ملازمین کے ساتھ سنیارٹی کے حقدار ہوں گے ،عدالت نے ان 74 غیر قانونی تقرریوں کے علاوہ دیگر تقرریوںکا جائزہ لینے کے لئے جسٹس نورالحق قریشی کی سربراہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے دوسینئر ترین ججز پر مشتمل تین رکنی جائزہ کمیٹی بھی تشکیل دینے کا حکم جاری کیا جودیگر اسامیوں پر 2011سے اب تک ہونے والی تقرریوں کا جائزہ لے گی اور ان میں سے بھی خلاف ضابطہ کی جانے والی تقرریوں کی چھانٹی کر کے قانون و ضابطہ کے مطابق انہیں بھی فارغ کرے گی ،یہ کمیٹی ایک ماہ کے اندر اپنا کام مکمل کرکے اس کی تفصیلی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائے گی۔ فاضل عدالت نے یہ بھی قرار دیا ہے کہ ہائیکورٹ کے عدالتی فیصلوں اور احکامات کو تو آئین کے آرٹیکل 199(5)کے تحت تحفظ حاصل ہے لیکن چیف جسٹس یا انتظامی کمیٹی کے وہ فیصلے جو آئین کے آرٹیکل 208سے متصادم ہوں انہیں چیلنج کیا جا سکتاہے، فاضل عدالت نے یہ بھی قرار دیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے قواعد و ضوابط کا جائزہ لینے کے بعد یہ قرار دیا جا سکتا ہے کہ کسی بھی چیف جسٹس کو قواعد میں نرمی کا محدود اختیار تو حاصل ہے لیکن لامحدود نہیں کہ وہ اسے استعمال کرتے ہوئے کسی بھی ملازم یا شہری کے حقوق کو پامال کرسکے ،یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سال2010-11,2011-12 اور. 2012-13 کے اس عرصہ کے دوران سپریم کورٹ کے موجودہ جج ،مسٹر جسٹس اقبال حمید الرحمان اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جبکہ موجودہ چیف جسٹس محمد انورکاسی اور وفاقی شرعی عدالت کے موجودہ جج، مسٹر جسٹس ریاض احمد خان( د وسینئر ججز پر مشتمل) انتظامی کمیٹی کے ممبر تھے ، اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر و درخواست گزار چودھری محمد اکرم نے تین سال قبل اسلام آباد ہائیکورٹ میںسال2010 سے لیکر 2013 تک کی گئی 74 تقرریوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا ،کیس کا فیصلہ جاری ہونے کے بعد چودھری اکرم کے وکیل عارف چوہدری نےصحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ سے نہ صرف74 ملازمیں بلکہ مجموعی طور پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے 150 کے قریب ملازمین متاثر ہوں گے، کیونکہ فیصلہ کا اطلاق 2011کے بعد ہونے والی تمام بھرتیوں پر ہوگا، انہوںنے کہا کہ اس فیصلہ سے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے بھائی ادریس کاسی بھی فارغ ہوں گے جو اس وقت ہائی کورٹ میں ایڈیشنل رجسٹرارتعینات ہیں ۔


.
تازہ ترین