• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک اور خط نے تو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
بلاشبہ قوم حالت ِ جنگ میں ہے___نیشنل ایکشن پلان پر عملد ر آمد کیلئے ایک سرکاری تربیتی ادارہ فرنٹ لائن فورس کے طور پر حصہ لے رہا ہے۔ ان حالات میں ہر شعبے میں چستی اور پھرتی آجاتی ہے___ زمانۂ امن کی کاہلی اورکوتاہی چھوڑ دی جاتی ہے، تما م___مگر ٹریننگ کا شعبہ سب سے زیادہ متحرک ہو تاہے کہ اس کی ذمہ داریوں میں بے پناہ اضافہ ہو جا تا ہے۔یہ ایک بڑا تربیتی ادارہ ہے جس کا سربراہ ایک اعلیٰ افسر ہو تا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ادارے کی ریکروٹمنٹ میرٹ پر ہو رہی ہے۔ میرٹ پر بھرتی ہونے والے زیرِ تربیت افسران میں سے ایک لیڈی تربیتی افسر کے خط نے ہلا کر رکھ دیا ہے___ لکھتی ہے
بہت ہی قابلِ احترام سر !
میں بڑے شوق سے اس ادارے میں آئی تھی اور واقعی معاشرے میں امن قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتی تھی مگر چند مہینوں میں ہی سارا جوش و خروش ٹھنڈا پڑ گیا اور Pride ختم ہو گیا ہے___ پہلے چند ہفتوں میںہی اندازہ ہو گیا کہ اس میں کوئی ڈسپلن نہیں ہے اور ماحول بھی خراب ہے ، پھر آہستہ آہستہ غیر اخلاقی سر گرمیاں بڑھتی گئیں اور اس کا اثر ہمارے یعنی لیڈیز ہوسٹل تک بھی آ پہنچا۔ پہلا دھچکا اسوقت لگا جب چند (انڈر ٹریننگ) لڑکیوں کو بلایا گیا اور پھر چھٹی کے نام پر نہ جانے کہاں بھیج دیا گیا۔ لڑکیوں نے کئی راتیں باہر گزاریں___اور پھر یہ معمول بن گیا۔ بات پھیلنے لگی کہ یہ سب کچھ ادارے کے سربراہ کے حکم پر ہو رہا ہے ، وہ ایک دوسرے شہر سے اپنے خاص افسر ساتھ لائے ہیں اور انہی کے ذریعے ان غیر اخلاقی احکامات پر عمل ہو تا ہے۔ پھر کسی نے ہمت کر کے اس ادارے کو رپورٹ کر دی تو انہوں نے ایک افسر کو انکوائری دی۔ انکوائری میں یہ ثابت ہو گیا کہ لڑکیاں یہاں سے گھر کے نام پر بھیجی جاتی ہیں لیکن وہ گھر نہیں جاتیں کیونکہ ان کے گھر والوں نے بتایا ہے کہ وہ گھر نہیں آئیں۔ لہٰذا جب ثابت ہو گیا کہ لڑکیوں کو غیر قانونی اور غیر اخلاقی مقصد کیلئے کہیں اور بھیجا جا رہا ہے تو پھر ایکشن ہونا چاہئے تھا مگر ایکشن کی بجائے ادارے کے سربراہ کے اکسانے پر زیر ِ تربیت لڑکیوں نے اپنی انسٹرکٹر کے خلاف جلوس نکال دیا اور ان سے اختیارات واپس لے لئے ___ اور اس کے بعد تو شرم حیا ختم ہو گئی ۔ سب کچھ کھل کر ہونے لگا۔ ماضی میں ایک سربراہ ( جو غالباً پی ایچ ڈی تھے ) بہت بدنام تھے مگر موجودہ صاحب تو ان سے بہت آگے نکل گئے ہیں___
سر ! اب تو یہ حال ہے کہ اس کے سربراہ رات کے وقت لڑکیوں کو اپنے گھر پر کسی بہانے سے بلا لیتے ہیں ___ اور وہ بیچاری جاتی ہیں کیونکہ حکم نہ ماننے کی صورت میں نوکری سے محروم ہونے کا خطرہ ہے___اس کے علاوہ رات کو انتہائی گندی اور فحش فلمیں لڑکوں اور لڑکیوں کو اکٹھے بٹھا کر دکھائی جاتی ہیں۔ سر ! آپ سوچ نہیںسکتے یہاں کیا ہو رہا ہے۔ خدا کیلئے آپ کچھ کیجئے ___آپ کا نام بہت سنا ہے اس لئے آپ سے امید ہے کہ کچھ کریں گے، ارباب اختیار کو بتائیں کہ اتنے اَہم تربیتی ادارے کو کیا بنا دیا گیا ہے___ خداکیلئے اِسے بھی بچائیں اور ہمیں بھی بچا لیں___ فقط ،آپ کی ___ایک بیٹی___
تحریر پڑھ کر ایک عام پاکستانی کے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ___حالت ِ جنگ میں جس ادارے میں قوم کو تحفظ دینے والی نئی فورس تیار ہو رہی ہو___اُس کا یہ حال ہے؟___بالکل یقین نہیں آتا تھا مگر حقائق جاننے کیلئے تحقیق کی تو یہ جا ن کر دلی صدمہ ہو ا کہ خط کے مندرجات صحیح ہیں۔ اس کا ذمہ دار اِس کاسربراہ ہے جو خود شرمناک سرگرمیوں میں ملو ث ہے۔
مزید دکھ یہ جان کر ہو اکہ اعلیٰ افسران خاموش ہیں___حکومت نے چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے ۔ یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ جہاں یہ سب کچھ ہو رہا ہو اور وہ آنکھیں بند کر لیں ، پہلے تو ایسا نہیں ہوتا تھا___ اب کیا مجبوری ہے؟ ___ کہاں ہے صوبے کا وزیرداخلہ ؟ کہاں سوئے ہوئے ہیں ؟ کیا کسی تربیتی ادارے کا سربراہ ایسا کرنے کا سوچ سکتا ہے ؟ اگر کہیں ایسا ہو تو اس کا انجام کیا ہوگا ؟
پہلے بھی لکھا ہے کہ فوج کی ٹریننگ کا معیاربہت بلند ہو تا ہے کیونکہ وہ اس کو پرائیڈ سمجھتی ہے اور اپنے بہترین افسر تربیتی اداروں میں تعینات کرتی ہے جبکہ سویلین اسے فٹیگ اور سزا سمجھتے ہیں اس لئے ان کی ٹریننگ پست اور غیرمعیاری ہوتی ہے ۔ انتہائی پست ٹریننگ کے بعد جو کھیپ نکلے گی اس کی کار کردگی بھی ناقص اور خطرناک ہو گی۔ اچھی ٹریننگ کا پہلا اصول یہ ہے کہ تربیتی اداروں میں وہ افسر تعینات کئے جائیں جو رول ماڈل سمجھے جاتے ہوں۔ یہ اٹل حقیقت ہے کہ تعلیم اور تربیت فراہم کرنے والے نا اہل ہوں گے تو قوم زوال کا شکار ہو گی اور اگر وہ بدکردار ہوں گے تو ذِلّت اس قوم کا مقدّر ہو گی۔
بدقسمتی سے مذکورہ افسر کا دامن پہلے ہی مبینہ طور پر مالی اور اخلاقی کرپشن سے داغدار ہے ، جب یہ ایک شہر میں سی پی او تھا تو اُس وقت اِس کے خلاف انکوائری کروائی تھی جس میں کروڑوں کے گھپلے تھے مگر اس وقت کے وزیر اعظم کے پاؤں پکڑ کر جان چھڑا لی۔ صوبائی حکومت مگر اُسے کوئی پوسٹنگ دینے پر تیار نہیں تھے۔ ایسی شہرت کے حامل افسر کو تربیتی ادارے کا سربراہ بنانا غفلت نہیں ___ سنگین جرم ہے ___اس کی تعیناتی پر بھی اچھی شہرت کے تمام پولیس افسران حیران اور پریشان ہوگئے تھے___ ایک بدنام شخص کو اس ادارے کا سربراہ کیوں بنایا گیا؟ اور کس نے بنا یا ؟ اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں ۔
ایک زیرِ تربیت اور قوم کی ایک حساس بیٹی نے جو دُہائی دی ہے ___وہ پورے ملک کو ہلاد ینے کیلئے کافی ہے___ اللہ کرے اس کی آواز ارباب اختیار کو بیدار کر دے ___ اگر وہ جا گ اُ ٹھیںتواُمید ہے کہ فوری اور مؤثر کارروائی ہو گی۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ موجودہ بدنام افسر کو صوبائی حکومت فوراً معطل کرے اور اُسے وہاں سے فوری طور پر نکال کردیانتدار مگر نڈر افسروں سے انکوائری کرائی جائے___ملک کے سب سے بڑے تربیتی ادارے میں کسی مشکوک شخص کو تعینات کرناایک سنگین جرم ہے۔یہ نیشنل ایکشن پلان سے روگردانی ہے، ضرب ِ عضب کے مقاصد کی نفی ہے اور شہداء کے خون کی توہین ہے۔
نوٹ: پچھلا کالم چھپنے کے بعد ہر طرف شور مچ گیا۔ پرنٹ اور برقی میڈیا میں ابھی تک ایک افسر اعلیٰ کی معیوب اور غیر قانونی حرکت پر افسوس کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ امید ہے کہ سپریم کورٹ اور متعلقہ وزارت اس کا نوٹس لیں گے۔ لاکھوں قارئین اس خوشخبری کے انتظار میں ہیں کہ اب وطنِ عزیز میں کوئی بڑا آدمی بھی غلط کام کرے تو اس کا نوٹس لیا جاتا ہے۔
کالم میں سانحۂ بلدیہ ٹاؤن پر مقرر کی جانے والی تفتیشی ٹیم کا بھی ذکر کیا گیا تھا، یہ سانحہ ملک کے چند سنگین ترین کیسوں میں سے ہے ،ڈھائی سو بے گناہ شہریوں کا خون پوری قوم پر قرض ہے۔ وزیراعظم اور آرمی چیف کا فرض ہے کہ اس کیس میں انصاف دلائیں، بے گناہوں کے خون کو کسی سیاسی مصلحت کی بھینٹ نہ چڑھنے دیں۔ آئی جی سندھ نے ایک افسر کو انکوائری کمیٹی کا سربراہ بنا کر کئی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔کئی حلقوں میں تاثر ہے کہ اس کمیٹی کی تشکیل بے گناہوں کے خون کے ساتھ مذاق ہے،یہ تاثر بھی ہے کہ یہ صرف ملزموں کو بچانے کیلئے بنائی گئی ہے۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ فوری طور پر جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی جائے ۔ یہ ٹیم دو ہفتوںمیں تفتیش مکمل کرے اور ملزمان کو گرفتار کر کے کیس ملٹری کورٹ میں بھیجا جائے۔ انصاف کو یقینی بنانے کے کیلئے ضروری ہے کہ وزیراعظم، آرمی چیف اور میڈیا اس کیس کی نگرانی کرتے رہیں۔ قیاس آرائیوں کے بر عکس نا چیز کا خیال ہے کہ اس جرم میں کوئی پارٹی ملو ّث نہیں ہوگی مگر جو افراد ملو ّث ہیں(اِن کا جس پارٹی سے بھی تعلق ہو)اُنہیں نشانِ عبرت بنانے میں کوئی کسرنہ چھوڑی جائے۔
تازہ ترین