• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
17 سال قبل جمہوریت پر شب خون مارنے والے پرویزمشرف دنیا کے ایک سے دوسرے ملک میں پناہ لے رہے ہیں مگر اپنے وطن واپس آنے کی جرات نہیں کر رہے وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہاں ان کا کوئی حمایتی موجود نہیں ہے۔ ڈکٹیٹر کی سب سے بڑی سزا یہ ہوتی ہے کہ اسے عوام میں پذیرائی نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کی کوئی سیاسی جڑیں ہوتی ہیں وہ غیر معینہ مدت تک صرف اور صرف ڈنڈے کے زور پر حکومت پر قابض رہتا ہے۔ ہمارے ہاں جتنے بھی فوجی ڈکٹیٹر گزرے ہیں وہ جب حکومت کرتے رہے تو بڑے ہی دانشور اور اسٹیٹس مین لگتے تھے مگر جونہی اقتدارکی کرسی ان سے چھنی تو وہ ایک عام سوجھ بوجھ رکھنے والے آدمی سے بھی کم تر نظر آئے۔ جب وہ اقتدار سے علیحدہ ہوئے تو انہیں عوامی سطح پر کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ ایوب خان اور یحییٰ خان نے تو اسی میں عافیت سمجھی کہ وہ سیاست سے کنارہ کش رہیں کیونکہ انہیں اپنی عوامی ساکھ کا بخوبی علم تھا۔ ضیاء الحق اقتدار میں ہوتے ہوئے ہی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ ہمیں یاد ہے کہ جب اخبار نویسوں نے ان سے 1987ء میں پوچھا کہ جنرل صاحب آپ یونیفارم کب اتار رہے ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ یہ سوال مجھ سے 1995ء میں کریں مگر اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ 17 اگست 1988ء کو وہ جہاز کے حادثے میں اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔ ہر ڈکٹیٹر کی طرح ان کے بھی بڑے لمبے سیاسی عزائم تھے تاہم جب ان کی وفات ہوئی تو کوئی بھی ان کا سیاسی وارث سوائے ان کے بیٹے اعجاز الحق کے سامنے نہ آیا وجہ یہ تھی کہ عوام میں ان کی بالکل پذیرائی نہیں تھی اور وہ صرف ڈنڈےکے زور پر ہی حکومت کرتے رہے۔
پرویزمشرف نے 12 اکتوبر 1999ء کو اقتدار پر قبضہ کرکے اپنے 9 سالہ دور میں ملک کا بیڑا غرق کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ انہوں نے ڈالروں کے عوض پاکستانیوں کو امریکہ کو بیچا اور ملک کو ایک ایسی جنگ میں جھونک دیا جس کا خمیازہ آج تک ہم سب بھگت رہے ہیں۔ ضیاء الحق اور مشرف نے پاکستان کو جو سب سے بڑے تحفے دئیے ان میں کلاشنکوف، ڈرگز، دہشتگردی اور انتہا پسندی سب سے زیادہ نمایاں ہیں۔ ان برائیوں کی وجہ سے جو ہماری تباہی ہوئی اس کو ریورس کرنے میں مزید کئی سال لگیں گے۔ پرویزمشرف نے اقتدار پر قبضہ صرف اپنی نوکری بچانے کیلئے کیا تھا۔ وہ ضمیر فروش سیاستدان بھی مشرف کے ساتھی بن گئے جو کبھی بھی منصفانہ اور شفاف انتخابات میں اتنی جیت حاصل نہیں کرسکتے کہ وہ اقتدار میں آجائیں۔ آمر کے دور میں انہوں نے خوب مزے لوٹے۔ تاہم جب ڈکٹیٹر کی اقتدار پر گرفت کمزور ہونے لگی تو انہوں نے چوہوں کی طرح ڈوبتی کشتی سے چھلانگیں لگا دیں۔ 2008ء کے عام انتخابات کافی حد تک غیرجانبدار انداز میں کرائے گئے جس کی وجہ جنرل اشفاق پرویز کیانی تھے۔ ان میں عوام نے ایسے سیاستدانوں کا نہ صرف بوریا بستر گول کر دیا بلکہ آئندہ سالوں میں بھی ان کو کبھی پذیرائی نہیں بخشی۔ اب بھی ایسے عناصر اس ٹوہ میں لگے رہتے ہیں کہ کس طرح کوئی اور ڈکٹیٹر سامنے آجائے اور ان کا پرانا ہنی مون واپس آجائے۔ انہیں اس کی پروا نہیں ہے کہ ملک کی کیا تباہی ہوگی۔ کمانڈو کی حالت یہ ہے کہ وہ کمر کی درد کا بہانہ بنا کر ملک سے فرار ہوا اور اب واپسی کا نام نہیں لے رہا۔ باوجود اس بیماری کے وہ نجی محفلوں میں ڈانس کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کمر درد والی بات جھوٹ تھی اور اصل مقصد یہ تھا کہ کیسے پاکستان میں اذیت ناک زندگی جو کہ بالکل ایک قیدی جیسی تھی سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ جاتے ہوئے وہ عدالتوں اور حکومت کو یہ کمٹمنٹ دے کر گئے کہ وہ چند ہفتوں میں واپس آ جائینگے اور اپنے خلاف جاری مختلف مقدمات بشمول سنگین غداری کا کیس کا سامنا کریں گے۔
یہ تو ہے آمروں کی زندگی جب وہ اقتدار سے علیحدہ ہوتے ہیں۔ دوسری طرف عوامی مقبولیت والے سیاستدان دیکھیں تو اگر وہ ذوالفقار علی بھٹو کی طرح پھانسی پر نہ لٹکا دئیے جائیں تو ایک نہ ایک دن لوگوں کی حمایت سے باقاعدہ منتخب ہو کر دوبارہ عوامی خدمت کیلئے اقتدار میں آجاتے ہیں۔ جب پرویزمشرف نے نوازشریف کو برطرف کیا تو بہت سے خوش فہمی کا شکار حضرات کی یہ خام خیالی تھی کہ نون لیگ کے صدر کا سیاسی مستقبل ختم ہوگیا ہے۔ اپنی برطرفی کے بعد نوازشریف کو ایک لمبی تاریک رات بشمول جلاوطنی کا سامنا کرنا پڑا مگر جونہی وہ عوام کی حمایت کے بل بوتے پر واپس پاکستان آئے تو پھر ان کی جماعت عوامی حمایت سے انتخابات جیت گئی۔ پہلی بار 2008ء میں نون لیگ پنجاب میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی اور پھر 2013ء کے عام انتخابات میں اسے بہت زیادہ عوامی پذیرائی حاصل ہوئی اور وہ تیسری بار وزیراعظم بن گئے۔ یہ ہے فرق عوامی لیڈر اور ڈکٹیٹر میں۔ سیاستدان کی چونکہ عوام میں جڑیں ہوتی ہیں لہذا وہ ان کی حمایت سے ہی زندہ رہتا ہے۔ باوجود اس کے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا مگر ان کی عوامی حمایت کو پھانسی پر نہیں لٹکایا جاسکتا۔ اس کے بعد بھی ان کی پیپلزپارٹی تین بار عام انتخابات جیتی اور چوتھی بار اسے سندھ میں ایک بار پھر مکمل پذیرائی ہوئی اور وہاں وہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ نہ تو ایسے حضرات جن میں ڈکٹیٹر بننے کے جراثیم ہوتے ہیں تاریخ سے کچھ سبق حاصل کرتے ہیں نہ ہی وہ سیاستدان جو جمہوریت کے دشمن ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ کوئی آمر آ جائے تا کہ وہ اپنا الو سیدھا کرسکیں۔ اگر واقعی پاکستان کے ڈکٹیٹروں نے ملک کو اندھیروں سے باہر نکال دیا اور وہ انقلاب لے آئے جو سیاستدان نہیں لاسکے تو کیا وجہ ہے کہ جونہی اقتدار کی کرسی ان سے چھنی تو انہیں بالکل عوامی حمایت حاصل نہیں تھی۔ کچھ نے ریٹائرمنٹ کے بعد کوشش کی کہ وہ سیاست میں اپنا نام پیدا کریں مگر انہیں مکمل طور پر ناکامی ہوئی اور انہوں نے اسی میں عافیت سمجھی کہ سیاست سے کنارہ کش ہو جائیں۔ پرویزمشرف کے دماغ میں سیاست کا کیڑا تھا مگر جونہی وہ اس میدان میں آئے تو انہیں اندازہ ہوگیا کہ ان کی یہاں کوئی جگہ نہیں۔ تاہم اگر وہ اقتدار پر قبضہ کرنے کے چند ماہ بعد منصفانہ عام انتخابات کرا دیتے تو شاید بعد میں ان کی سیاست میں کوئی جگہ بن سکتی تھی مگر ہر سرکاری ملازم کی طرح وہ بھی چاہتے تھے کہ وہ زیادہ سے زیادہ عرصہ اپنا عہدہ رکھ سکیں آئین اور قانون جائے بھاڑ میں۔


.
تازہ ترین