• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وقت آگیا ہے کہ اہم حکمران سیاسی جماعتیں اور حساس و انتہائی اہم قومی ادارے بلوچ رہنما سردار اختر مینگل کی باتوں پر سنجیدگی سے غور کریں اور پاکستان کو ایک حقیقی وفاقی جمہوریت بنانے اور اس سلسلے میں اس کے فروغ کے لئے ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات کریں‘ کیا یہ بات غلط ہے کہ ایک طرف ملک اور خاص طور پر سندھ اور پنجاب کے عام لوگ متعلقہ حکمران جماعتوں کی انتہائی غیر معمولی کرپشن سے بالکل تنگ آچکے ہیں تو دوسری طرف ایسا محسوس ہورہا ہے کہ پاکستان نہ فقط اس ریجن میں مگر دنیا بھر میں الگ تھلگ ہوتا جارہا ہے‘ ویسے تو اس سلسلے میں کئی باتوں کا حوالہ دیا جاسکتا ہے مگر آج کے اس کالم میں فقط ان باتوں کے حوالے سے بات کروں گا جو گزشتہ دنوں بلوچ رہنما اور بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کراچی پریس کلب میں صحافیوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے کی ہیں۔ان کا کہنا ہےکہ: تین صوبے پنجاب کی کالونی بنے ہوئے ہیں‘ صوبوں کو اختیارات دینے کے بعد ہی صوبوں سے بات چیت کی جائے‘ وزیر اعظم نے وعدے کے باوجود اے پی سی میں بلوچستان کے معاملات شامل نہیں کیے اگر اے پی سی میں بلوچستان میں ہونے والی گمشدگیوں اور سی پیک منصوبے کو شامل کیا گیا تو وہ اے پی سی کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔ جن کے گھر میں لاشیں ملیں گی وہ بات چیت کیسے کریں گے‘ بلوچستان میں مبینہ طور پرہزاروں بہنوں کے بھائیوں کو مار کر ان کے سروں سے چادریں اتار دی گئی ہیں حالانکہ یہ نکات کچھ لکھنے کے لئے کافی ہیں۔ انہوں نے تین صوبوں کے ساتھ سلوک کے حوالے سے مزید کہا کہ ’’سندھ کے ریونیو پر سندھ کا حق‘ کے پی کے وسائل پر کے پی کا حق ہے اور بلوچستان کے وسائل پر بلوچستان کا حق ہے‘انہوں نے شکایت کی کہ پنجاب بیرونی ممالک سے معاہدے کررہا ہے جبکہ سندھ‘ کے پی اور بلوچستان بیرون ممالک سے معاہدے نہیں کرسکتے‘ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ باقی تین صوبے پنجاب کی کالونیاں ہیں‘ سی پیک منصوبے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسئلہ سی پیک روٹ کا نہیں ہے مگر Root Cause یعنی بنیادی ایشو کا ہے‘ اس نکتہ کی بہرحال انہوں نے مزید وضاحت نہیں کی‘ انہوں نے مسلح جنگ لڑنے والوں سے خود کو الگ کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں آزادی حاصل کرنے کے اس طریقہ کار کی حمایت نہیں کرتا‘ ہم پرامن جدوجہد کررہے ہیں اور پارلیمنٹ میں اپنے حقوق کی جدوجہد جاری رکھیں گے‘‘ ۔ سی پیک منصوبے کے حوالے سے گوادر بندر گاہ کا ذکر کرتے ہوئے سردار اختر مینگل نے زوردار آواز میں کہا کہ ’’گوادر کی حقیقت یہ ہے کہ وہاں پینے کا پانی بھی نہیں ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ’’ان‘‘ کی گوادر کے عوام میں کوئی دلچسپی نہیں ہے‘ مگر ان کو گوادر کی سرزمین کی ضرورت ہے‘‘۔ میرے خیال میں سردار اختر مینگل کا ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ باقی تین صوبوں کو پنجاب کی کالونیاں بنا دیا گیا ہے‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب سے پاکستان بنا ہے اسے کبھی بھی وفاقی کے طور پر نہیں چلایا گیا‘ جہاں تک سندھ کا تعلق ہے تو سندھ نے پاکستان بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا‘ سندھ ہی تھا جس کی اسمبلی نے اتفاق رائے سے پاکستان کے حق میں قرار داد منظور کی مگر گزشتہ 68 سالوں میں سندھ سے جو سلوک کیا گیا وہ سب کے سامنے ہے‘ پہلے تو کہا گیا کہ سندھ کی حکومت کراچی سے نکل جائے‘ بعد میں ون یونٹ لگاکر دوسرے صوبوں کے ساتھ سندھ کی صوبائی حیثیت ختم کردی گئی یہاں تک بھی معاملہ نہیں رکا مگر ایک لمبے عرصے تک ملک پر مارشل لا مسلط کیا گیا‘ ون یونٹ کے دوران اور مارشل لاز کے دوران سندھ کی زمینیں جن کو الاٹ کی گئیں ان کا سندھ سے کیا تعلق تھا؟ اس دوران کیا پاکستان کو ایک وفاق کے طور پر چلایا گیا؟ 18 ویں ترمیم منظور ہونے کے بعد سندھ و دیگر چھوٹے صوبوں کے عوام نے کسی حد تک اطمینان کا سانس لیا کہ شاید اب پاکستان کو وفاقی جمہوریت کے طور پر چلایا جائے‘ مگر کیا ایسا ہورہا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ حکومت نے 18 ویں ترمیم کو کہیں نظر بند کردیا ہے‘ میں اس سلسلے میں کئی کالم لکھ کر حکمرانوں کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کراتا رہا ہوں کہ سی سی آئی کہاں ہے؟ این ای سی کہاں ہے‘ آئین کی وہ شقیں کہاں ہیں جنہیں 18 ویں ترمیم کے ذریعے آئین میں شامل کیا گیا تھا‘ مثال کے طور پر 18 ویں ترمیم کے تحت یہ طے ہوا تھا کہ کسی صوبے میں جو منرل‘ آئل اور گیس نکلے گا اس میں وفاقی حکومت اور متعلقہ صوبے کا 50,50 فیصد حصہ ہوگا مگر کیا اس پر عمل ہورہا ہے۔؟ ہاں سردار اختر مینگل نے ایک یہ اہم مطالبہ کیا ہے کہ سندھ اور بلوچستان کی سمندری پٹیاں متعلقہ صوبوں کے اختیار میں دیدی جائیں‘ سندھ کے لوگ خاص طور پر یہ سوال کرتے ہیں کہ پاکستان میں منظور کی جانے والی ’’لاہور قرارداد‘‘ میں یہ کہاں کہا گیا ہے کہ جو صوبہ پاکستان میں شامل ہوگا وہ اپنے سارے اثاثے بشمول سمندری پٹیاں مرکز کے حوالے کرے گا‘ حالانکہ جب آصف زرداری ملک کے صدر تھے تو انہوں نے مرکزی حکومت کی طرف سے ایک نوٹیفکیشن جاری کرکے گوادر بندر گاہ بلوچستان حکومت کی تحویل میں دیدی تھی مگر یہ قدم بھی فیس سیونگ کے لئے تھا۔ کیا ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے بندرگاہ کو صوبے کی تحویل میں دیا جاسکتا ہے؟ اس کے لئے تو آئین میں ترمیم کی ضرورت تھی۔ بہرحال سردار مینگل نے خیال ظاہر کیا ہے کہ 18 ویں ترمیم کے بعد اب کچھ شقوں کے تحت سمندری پٹیاں متعلقہ صوبوں کے حوالے ہوگئی ہیں‘ اب صرف ان شقوں پر عمل ہونے کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سردار مینگل کے کہنے کے مطابق ان شقوں کا گہری نظر سے جائزہ لیا جائے اگر واقعی ان شقوں کے ذریعے ایسا ہوسکتا ہے تو فوری طور پر عمل کیا جائے‘ اگر اس بات پر اتفاق رائے نہیں ہوتا تو تینوں صوبوں کو بشمول سمندری پٹیوں کے اپنے سارے حقوق آئین کے دائرے میں لانے کے لئے مشترکہ جدوجہد کرنی ہوگی‘ اس لئے پہلے قدم کے طور پر ضروری ہے کہ تینوں چھوٹے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور دیگر سیاسی قیادت اکٹھے بیٹھ کر متفقہ لائحہ عمل تیار کریں‘ اس سلسلے میں پہل سندھ حکومت کو کرنی چاہئے کیونکہ ان تینوں صوبوں میں سندھ سب سے بڑا صوبہ ہے‘ خاص طور پر سندھ میں نئی سیاسی قیادت سامنے آنے کے بعد لوگ اس قیادت سے ایسی توقعات رکھنے میں حق بجانب ہوں گے۔ سردار مینگل نے بلوچستان میں لاشیںملنے پر شدید دکھ کا اظہار کیا ہے۔ دیکھا جائے تو خود سردار مینگل کا خاندان ایسے متاثرین میں شامل ہے‘ ستر کی دہائی میں کراچی میں سردار عطا اللہ مینگل کے گھر سے ان کے بیٹے سردار اختر کے بھائی کو نامعلوم عناصر کی طرف سے اغوا کرلیا گیا اور وہ زندہ یا مردہ آج تک ظاہر نہیں کیا گیا مگر بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اب کچھ عرصے سے یہ ’’خونی کھیل‘‘ بتدریج سندھ میں بھی کھیلا جانے لگا ہے‘ اس ظالمانہ حرکت کے متاثرین میں سندھی قوم پرست رہنما بشیر قریشی اور ان کے بھائی بھی شامل ہیں۔ قوم پرست حلقوں کا کہنا ہے کہ بشیر قریشی اور ان کے بھائی کا یہ حشر اس وجہ سے ہوا کہ انہوں نے اپنے انتقال سے کچھ عرصہ پہلے سکھر‘ جیکب آباد سے لیکر کراچی تک ایک بڑا عوامی جلوس نکالا تھا۔


.
تازہ ترین