• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’بیٹی یہ جیالے کیا ہوتے ہیں‘‘ کراچی میں رہنے والی میری دوست کی ماں نے اس سے پوچھا۔ ’’اماں جیالے پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو کہتے ہیں‘‘ میری دوست نے اپنی ماں کو جواب دیا جس نے بلاول کے کراچی میں جلوس والے دن ٹی وی چینلوں پر بار بار لفظ جیالے سنتے تجسس سے پوچھا تھا۔ میں پی پی پی کے ان جیالوں کو ’’تہترواں فرقہ‘‘ کہتا ہوں۔ یہ اس قلندر کے فقیر ہیں جو قتل گاہ جیسی تنگ گلیوں میں بھی رقص کرتے ہیں جہاں داخل ہونے کا سوچنے پر بھی بڑوں بڑوں کے پسینے نکل جاتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے اگرچہ پاکستان پیپلزپارٹی یا اسکی قیادت کا کئی برسوں سے کبھی مداح نہیں رہا۔ لیکن یہ عجیب سیاسی عشق ہے جسکا مظاہرہ انہوں نے پچھلی اتوار کراچی میں پی پی پی کے چیئر پرسن بلاول بھٹو زرداری کے جلوس میں کیا ۔ کیا مرد، کیا عورتیں، کیا بچے۔ وہ بچے بھی جنہوں نے بھٹو تو خیر بینظیر بھی نہیں دیکھی بلکہ اسکے بعد کا جنم ہیں۔ یہ سب پی پی پی کے بلوچی گیت ’’بجاں تیر بجاں‘‘ پر رقص کناں تھے۔ جیسے سہون کی گلیوں میں یا شاہ حسین کے میلے پر سرخ اور سبز پوش فقیر رقص کناں ہوتے ہیں۔ کراچی جہاں ابھی کل ہی کی بات ہے موت رقص کرتی تھی اب یہ ترنگے سبز سیاہ سرخ پرچم والے جیالے ’’جئے بھٹو بینظیر‘‘ پر رقص کر رہے تھے۔
تو میں تم سے کہہ رہا تھا میں پی پی پی یا اسکی قیادت کا کبھی مداح نہیں رہا لیکن ملک میں آمریتوں کے خلاف جمہوریت کی بحالی مں اسکے تاریخ ساز کردار کا منکر نہیں معترف ہوں۔ جیالوں کے فرقے کو بہت قریبی اور انکے شوق کو بغور اور تاریخ کی آنکھ سے دیکھا ہے۔ یہ جیسے میں نے کبھی کہا تھا سروں کے چراغ جلاتے جیالے ہیں۔ ذرا تصور کریں کہ پاکستان جو اسلامی دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں اسکی عمر کا بڑا حصہ فوجی اور نیم فوجی براہ راست یا بلا راست فوجی راج کے زیرنگیں ہونے کے باوجود جمہوریت کی تحریکیں کبھی گولی سے نہیں دبیں۔ وہاں دنیا میں اسکی مثال بہت کم ملتی ہے کہ ڈیڑہ سو سے زائد ایک ہی سیاسی پارٹی کے کارکن بموں کا نشانہ بنکر لقمہ اجل بن جائیں اور انکی خود لیڈر اسی دہشت گرد قاتلانہ حملے میں سے بال بال بچ کر دوسری صبح کی اخبار اور پہلی چائے کی پیالی سے پہلے جمہوریت کے ان پروانوں اور اپنی پارٹی کے قتل شدہ جیالوں اور زخمیوں کے گھروں پر پہنچ جائے۔ اسپتالوں میں زخمیوں کی عیادت کرے۔ ہلاک ہونیوالوں اور زخمی ہونیوالوں کے ورثا اوربچوں کو گلے لگائے انکے ساتھ فرش عزا پر بیٹھے۔ کارساز کے بقول انکے ’’قافلان شہدا ‘‘ کی کچھ ایسی ہی کہانی ہے۔ ایسا صرف نیویارک میں گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر دہشت گردانہ حملے کے دوران جیالے پولیس والوں اور فائر مینوں نے کیا تھا جو اس آتش نمرود میں کود پڑے تھے لوگوں کو بچانے۔ یا پھر یورپ اور روس میں فاشزم کے خلاف لڑنے والے اتحادی سپاہیوں نے۔ لیکن یہ ققنس ہیں جو اپنی ہی راکھ سے پھر جنم لیتے ہیں۔ پھر گیت گاتے ہیں پہلا اور اخری گیت گاتے ہیں۔ رقص آخر رقص۔ یعنی کہ پھر جنم لیں گے ہم۔ اس سے پہلے یہ قصے صرف فیض احمد فیض کی شاعری یا منصوری اور سرمدی صوفیوں کی شاعری میں ملتے ہیں۔
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جنکی راہ طلب میں ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
بلاول کی ریلی کا حال کچھ یہی تھا۔ وہی کارساز تھا وہی لیاری تھا۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ سیاسی بیوفیائوں کے مارے ہوئے یہ لوگ اور انکی موجودہ قیادت پھر فیض کی اسی مشہور جہاں نظم کی ان سطروں جیسی تھی:
کر چلے جنکی خاطر جہانگیر ہم
جاں گنواں کر تیری دلبری کا بھرم
اپنی موجودہ قیادت کی دلبری کا بھرم رکھنا بھی یہ جیالے جانتے ہیں۔ وہی بلوچی گیت جس کی چاپ اور تھاپ عبد اللہ شاہ غازی سے لے کر نیٹی جیٹی کے پل تک گدھا گاڑیوں کے جلوس والے بلوچوں کو بھی نچواتی ہے تو بم گولیوں سے محفوظ ٹرک پر سوار پی پی پی کے لینڈ کروزر اور کاٹن گروپ لیڈروں کو بھی۔ یہاں رقص کرنے والوں میں قمر الزمان کائرہ بھی تھے جن کا اپنا کزن بینظیر پر راولپنڈی میں دہشت گردانہ حملے کا دفاع کرنے والوں ان کارکنوں میں شامل تھا جو کام آئے (تو اس رقص پر یہ اعتراض کہ قتل ہونیوالوں کو خراج اسطرح؟ عبث ہے۔ یہ لولی لنگڑی جمہوریت ایسے نہیں ملی کہ آمر کی آپ اکیس توپوں کی سلامی میں رخصتی کریں۔آپ تو آمریت کی پیدروار نہیں تھے۔
بلاول بھٹو جسے میں زرداری سے زیادہ بینظیر بھٹو کا بیٹا سمجھتا ہوں بالکل ایسے جیسے میں ایاز لطیف پلیجو کو رسول بخش پلیجو سے زیادہ سندھ کی ام کلثوم جی جی زرینہ بلوچ کا بیٹا سمجھتا ہوں، تصور کریں کہ آپ اس ریاست میں ہیں جہاں بچوں کو ریاست اپنے باپ کے سامنے بڑا ہونا دیکھنے سے دور رکھتی ہے۔ پابند سلاسل رکھتی ہےاب وہ بلاول بڑا ہوگيا ہے۔ اور عہد مغلیہ کے ہندوستانی شہزادوں کی طرح بڑے بڑے اتالیقوں کے گھیرے میں ہے۔ اسکی اردو سندھی سکھانے والے ایک ہیں درست کرنے والے اور رومن رسم الخط میں تقریریں لکھنے والے کئی اور انکی شعروں اور طویل نظموں کی ادائیگی کرنے والے کئی اور اداکار۔ کبھی ایک برطرف ہوتے ہیں اور کبھی دوسرے رکھے جاتے ہیں۔ یہ سب بلاول کے انداز بیاں ، جوش خطابت اور زیب داستاں اور اسکے سکھانے والوں کے اسکرپٹوں پر اور ابا اور پھوپھی سے تعلقات اور رواں سہ ماہی پالیسوں اور پروگراموں پر دارو مدار رکھتا ہے۔ وگرنہ آپ نے سندھ کے وزیراعلیٰ کو بھی اس جلسے میں خراب اسکرپٹ کی ادائیگی کرتے دیکھا۔ میں نے بلاول کے نزدیک رہنے والے ایک اسکے اتالیق سے سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ کی کارگردگی کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا’’سید مراد علی شاہ بھی ایک نوجوان قائم علی شاہ ہیں۔‘‘ اور ایسے بھی درباری شاعر تھے جنہوں نے بلاول کے نغموں میں زرداری خاندان اور اویس ٹپی جیسا نام بھی اپنی شاعری میں شامل کیا ہوا تھا۔ لیاری والوں کے درد سے زیادہ اویس ٹپی کو کون جانتا ہے؟ لیکن جیالوں کو ان باتوں سے کوئی سروکار نہیں۔عشق کو اس سے کوئی سرکار نہیں کہ وہ مجازی ہو ، حقیقی ہو کہ سیاسی۔
ان جیالوں میں میرے نوجوان جیالے دوست سرائکی بیلٹ سے تعلق رکھنے والے شہزاد شفیع بھی شامل تھے جو کارساز ریلی میں شرکت کرنےکئی سو دیگر جیالوں کی طرح لاہور سے طویل سفر کر کے کراچی پہنچے تھے۔ وہ گڑھی خدا بخش بھی گئے جہاں نیا بیاہتا جوڑا بینظیر بھٹو کی مرقد پر اسکے قدموں سے مرقد کے گرد گھوم رہا تھا۔ وہ سچل سرمست اور شاہ لطیف کی درباروں پر بھی حاضری بھرنے گئے۔ شہزاد شفیع کے پیر بیس میل سےزائد جلوس میں چل کر چھالوں کی وجہ سوجے ہوئے تھے شہزاد شفیع اسوقت بھی کارساز کے بینظیر بھٹو کے جلوس میں شریک تھا جب اسکی عمر سولہ سال تھی اور اس ریلی پر دہشت گردانہ حملہ ہوا تھا۔ اس ریلی کی خاص بات یہ تھی کہ اس نے نوجوانوں اور عورتوں کے بڑے حصے کو اپنی طرف کھینچا۔ لیکن ان عشاق اور سندہ کے عوام کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ سندھ میں طرز حکومت بہتر ہے کہ نہیں، حکام کے نام پر وانٹھے (حواری) پرائمری ٹیچر کی تقرری کے آٹھ لاکھ روپے لیتے ہیں یا واقعی یہ پی پی پی اور اسکی سندھ میں حکومت ابا اور پھوپھو کے کنٹرول میں ہے کہ بلاول کے کنٹرول میں۔ سب سے بڑی بات کہ نہ کار ساز دہشت گردانہ سانحے کے کردار اپنے کیفر کردار کو پہنچے اور نہ ہی زیادہ تر قتل اور زخمی ہونیوالوں کے ورثاء سے انصاف ہوا سو دیدہ زیب رنگوں کی کتاب اور کروڑوں کے سرکاری اشتہارات کے نیز یہ سوال بھی کہ کیا یہ ریلی سندھ کے علاوہ باقی صوبوں اور کشمیر میں پی پی پی کو اکثریتی ووٹوں میں بدل سکتی ہے یا یہ رقص آخری تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ
جو رقص دار پر بھی منصور نے کیا تھا
جو رقص قونیا میں درویش نے کیا تھا
(حسن مجتبیٰ)
چہ جائیکہ یہ کراچی میں بلاول کی یہ ریلی ستر اور اسکی کی دہائی میں اسکی اماں اور نانا کے جلوسوں کی یاد دلاتی تھی۔ لیکن نانا اور ماں نے عوام کے مزاج اور نفسیات کو سمجھا تھا اور اس میں کئی برس لگائے تھے۔ بلاول کو فقط رٹا لگانے والے سے آگے نکلنا ہوگا۔ اور اس عوام کا بھی خیال رکھنا ہوگا جو کراچی میں اسی اتوار کو جلوس کی وجہ سے سڑکوں اور گھروں پر محصور ہوکر رہ گئے کہ اسی طرح ’’پارٹی ابھی شروع نہیں‘‘ ختم ہونے کو ہے۔


.
تازہ ترین