• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کسی زمانے میں یہ کہا جاتا تھا کہ جو لوگ کسی آفت یا بیماری کی وجہ سے روزگار کا کوئی ذریعہ تلاش کرنے پرقادر نہیں ہوتے وہ مجبوری کے عالم میں گداگری کی راہ اختیار کرلیتے ہیں اس عہد میں یقیناً اس قول میں صداقت موجود ہوگی لیکن عصر حاضر میں گداگری ایک منفعت بخش پیشہ بن گیا ہے۔ ہر شہر میں ٹھیکیداروں کا ایک ٹولہ اس کو کنٹرول کرتا ہے جو نہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ملی بھگت سے گداگری کے سپاٹ متعین کرتا ہے بلکہ مبینہ طور پر بعض اہلکاروں کو روزانہ اس کا حصہ رسدی بھی ادا کرتا ہے۔ ٹھیکیدار اپنے گروہ کے بھکاری مزدوروں کو قانونی تحفظ بھی فراہم کرتے ہیں ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ خاص طور پر خواتین کو کم عمر بچے بھی کرایہ پر مہیا کرتے ہیں جن میں گم شدہ اور بعض اوقات اغوا شدہ بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔ شہروں پر گداگروں کی یلغار اس قدر بڑھ گئی ہے کہ سڑکوں اور چوراہوں پر گاڑیوں کے رکتے ہی گداگروں کے غول کے غول ان کے گرد جمع ہوجاتے ہیں جس سے ٹریفک جام ہو کر رہ جاتا ہے اور دہشت گردی کے اس ماحول میں کسی بھی ناخوشگوار سانحہ کے رونما ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔ یہ صورتحال اب اس قدر ناگفتہ بہ ہوگئی ہے کہ کسی گھر کی بیل بجائی جائے تو مالک مکان دروازے پر کسی نہ کسی گداگر خاتون، بچے، بوڑھے یا ہیجڑے کو کھڑا دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے۔شہریوں کو پرسکون ماحول میں رہنے کی سہولیات فراہم کرنا ہر ذمہ دار حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ہماری حکومتیں گداگری ختم کرنے کے اعلانات کے باوجود اس ناسور کو ختم کرنے میں کوئی قابل رشک کردار ادا نہیں کرسکیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت صرف زبانی جمع خرچ سے کام نہ لے اور پوری قوت سے گداگری کا خاتمہ کرے۔علماء کرام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے خطبات میں گداگری کے خلاف عوامی شعور کو بیدار کریں اور انہیں خبردار کریں کہ وہ پیشہ ور گداگروںکو بھیک نہ دے کر ان کی حوصلہ شکنی کریں۔

.
تازہ ترین