• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر ملک میں کھچڑی پک رہی ہے تو کالم میں کیوں نہیں؟شروع کرتے ہیں وزیر اعظم سے جو رحیم یارخان میں غریبوں کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے اور یہ ’’آب دیدگی ‘‘دیکھ کر مجھے اپنی تاریخ کا اک واقعہ یاد آگیا۔ حضرت علیؓ کسی ساتھی سمیت اک ایسی جگہ سے گزرے جہاں کوئی شخص اپنے پالتو پیارے جانور کو ذبح کررہا تھا۔ آپؓ کے ساتھی نےفرمایا’’دیکھئے اس بیچارے کی آنکھوں سے آنسو رواں ہیں‘‘علم کے شہر اور کوہ دانش شیر خداؓ نے جواب دیا’’اس کی آنکھیں نہیں ہاتھ دیکھو جو چھری چلارہے ہیں‘‘ ۔ بابائے قوم محمد علی جناح کے سامنے بھی ایک صاحب مسلمانوں کی حالت زار پر اسی طرح آبدیدہ ہوئے توعظیم قائد نے سرزنش کے سے انداز میں کہا’’اپنی آنکھیں خشک رکھو تاکہ منظر صاف دکھائی دے اور دھندلا نہ ہونے پائے‘‘یہاں منیر نیازی یاد آئے جو لکھتے ہیں؎’’میں جس سے پیار کرتا ہوں اسی کو ماردیتا ہوں‘‘میں ایسے کسی بھی قسم کے پیار سے پناہ مانگتا ہوںوزیر اعظم نے یہ بھی فرمایا کہ ’’غریبوں کا خیال رکھنا چاہئے‘‘ میں مسلسل سوچ رہا ہوں کہ غریبوں کا خیال ’’رکھنا‘‘ کہاںچاہئے؟ اس خیال کو’’رکھنے‘‘ کے لئے پاناما بہتر ہے یا پارک لین کے بیش قیمت اپارٹمنٹس؟ ویسے تو’’غریبوں کے خیال‘‘ جیسی بیش قیمت جنس کو اس جاتی امرے میں بھی احتیاط سے رکھا جا سکتا ہے،جو ہے تو ہمارے وزیر اعظم کی ذاتی رہائش گاہ لیکن اسے کیمپ آفس قرار دے کر 75کروڑ روپے خرچے سے اس کے گرد زبردست قسم کی حفاظتی دیوار بنادی گئی ہے اور سرکاری خرچ پر سینکڑوں پولیس اہلکار تو پہلے سے ہی موجود ہیں۔ ایسی پرآسائش ، وسیع و عریض اور محافظوں کے حصار میں گھری جگہ بھی’’غریبوں کا خیال‘‘ محفوظ کرنے کے لئے خاصی آئیڈیل ہے۔وزیر اعظم کے جمہوری آنسو دیکھ کر مجھے دیگر کئی قسموں کے آنسو یاد آرہے ہیں۔ سب سے پہلے عدم صاحببال بکھرائے ٹوٹی قبروں پرجب کوئی مہ جبین روتی ہےمجھ کو ہوتا ہے اس گھڑی احساسموت کتنی حسین ہوتی ہےآنسو قبروں پر بھی بہائے جاتے ہیںآنسو چرنوں پر بھی چڑھائے جاتے ہیںمگر مچھ کے آنسوئوں سے تو بچہ بچہ واقف ہےپیاز کاٹتے وقت مائوں، بہنوں، بیٹیوں کے بہتے ہوئےآنسو بھی مقدس ہوتے ہیںرات کے پچھلے پہر جب ہمیشہ کے لئے بچھڑ چکے  اپنے یاد آتے ہیں اور تکیہ بھیگ جاتا ہے تو ان آنسوئوں کا تقدس جاننے کے لئے بھی کوئی پیمانہ نہیں۔ندامت کےآنسوئوں کی اپنی دنیا اور تشکر کے آنسوئوں کا اپنا مقام ہے اور کچھ آنسو ایسے بھی جو عرق انفعال ہونے کے باوجود بقول اقبال شان کریمی موتی سمجھ کر چن لیتی ہے۔آقا کے ذکر پر بیتاب ہو کر بہنے والے آنسو عاقبت کے لئے ڈھال بن جاتے ہیں اور خوف خدا کی کوکھ سے جنم لینے والے سمندر صفت آنسوئوں میں گناہ گہرے غرق ہوجاتے ہیں۔غم کے ساتھ ساتھ خوشی کے آنسو بھی کبھی عام ہوتے تھے۔ ملن اور جدائی کے آنسوئوں کا اپنا اپنا افسانہ ہے لیکن میرا رب سب کو خون کے آنسوئوں سے محفوظ رکھے جو سادہ آنسوئوں کے خشک ہوجانے پر بہہ نکلتے ہیں۔بے بسی اور بددعا کے آنسوئوں کا ہر قطرہ ایسے سیلاب کی مانند ہوتا ہے جو سب کچھ بہا لے جاتا ہے۔ یہاں تک کہ تختوں اور تاجوں کو بھی بہا لے جاتا ہے۔ انسانی تاریخ میں لاتعداد مثالیں ایسی ہیں کہ بڑی بڑی سلطنتیں چھوٹے چھوٹے لوگوں کے ننھے منے آنسوئوں میں غرق ہوگئیں کہ اس کے گھر میں دیر تو ہوسکتی ہے، اندھیر ممکن نہیں اور رسی پاکستان سے پاناما تک بھی دراز ہو تو اس کی کوئی نہ کوئی حد ضرورہوتی ہے۔بدنصیب ہے وہ انسانی آنکھ جو صرف دیکھنے کے کام آتی ہے کیونکہ آنکھ کے فرائض منصبی میں آنسو بہانا بھی شامل ہے۔ آنسوئوں کا غسل پلید کو بھی پاکیزہ، پوتر کردیتا ہے۔ دل اور دماغ کی دھلائی کے لئے بھی، ذہن اور ضمیر کی صفائی کے لئے بھی آنسوئوں سے بہتر کوئی شے نہیں اور حکمرانوں کے لئے تو وہ لہو ہی نہیں جو آنکھ سے نہ ٹپکے۔ خاص طور پر اک ایسے ملک کا حکمران جس کے باسیوں کی بھاری اکثریت بنیادی ضروریات زندگی سے بھی محروم ہو۔میں نہیں جانتا وزیر اعظم کے آنسوئوں کے پیچھے کیا تھا؟ ندامت یا کوئی پچھتاوا کہ یہ بھی خدا کی عطا سے کم نہیں۔کچھ اور موضوعات پر بھی لکھنا تھا لیکن ناں ناں کرتے بھی سارا کالم تو آنسوئوں میں ہی ڈوب گیا۔




.
تازہ ترین