• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے واضح کردیا ہے کہ دنیا نے دہشتگردی کے خلاف ہمارا کردار کو تسلیم کیا ہے اور دنیاکے بہت سے ممالک ہمارے تجربےسے سیکھنا چاہتے ہیں، اسکے علاوہ دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ بھارت کی پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش ناکام ہوگئی اوربھارت کا جھوٹا پروپیگنڈہ نہ صرف ناکام ہوگیا ہے بلکہ وہ مسئلہ کشمیرسے دنیا کی توجہ ہٹانے میں بھی کامیابی حاصل نہ کرسکا۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اور وزیر دفاع منوہر پاریکر اپنی سی کوشش کررہے ہیں کہ وہ پاکستان کو تنہا کرکے اسی طرح تقسیم کردیں جیسے بنگلہ دیش بنا تھا، وہ برملا کہتے بھی ہیں کہ وہ ایک اور بنگلہ دیش بنائیں گے تاہم اس وقت پاکستان واقعی تنہا ہوگیا تھا اور پاکستان کو بچانے کی شہنشاہ ایران نے آخری کوشش یہ کی تھی کہ انہوں نے پاکستانی اور روسی صدور کی ملاقات کروائی تھی جو موقع جنرل یحییٰ خاں نے گنوا دیا تھا۔ اِس کے برعکس پاکستان اب تنہا نہیں ہوا ہے، کیونکہ جہاں روسی افواج اور ایرانی بحریہ ستمبر 2016ء کو پاکستان میں مشترکہ مشق کے لئے دو ہفتے کے لئے آئیں وہاں 15 اکتوبر 2016ء کو برکس کانفرنس میں بھی چین اور روس نے بھارت کا ساتھ نہیں دیا جبکہ امریکہ نے بھی بھارت کا ساتھ نہ دیا، اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی تصدیق کی۔ او آئی سی، ترکی، سعودی عرب اور دیگر ممالک نے کشمیر میں ظلم و ستم کے حوالے سے پاکستان کے موقف کو درست گردانا۔ بھارت نےسارک سربراہی اجلاس ملتوی کرادیا مگر پاکستان کو تنہا نہیں کرسکا۔ ویسے بھی سارک کی تنظیم دنیا بھر میں سب سے ناکام مانی جاتی ہے اور یہ پہلے بھی 8بار ملتوی ہوچکی ہے اور اکیلے بھارت نے اسے 5مرتبہ ملتوی کرایا۔ اگرچہ اسنے کبھی اُوڑی کا ڈرامہ رچا یا تو کبھی سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ کیا، مگر کسی بھی ملک نے بھارت کے اِس دعویٰ کو سنجیدگی سے نہیں لیا بلکہ بھارت کا مسخرا پن کھل کر سامنے آگیا۔ وہ برکس میں پاکستان کو دہشت گردی کا مرکز اور دہشت گردی کی ماں کہلانے میں ناکام رہا، پاکستان نہ صرف یہ کہ تنہا نہیں ہوا بلکہ وہ پاکستان پر کوئی پابندی لگانے میںبھی ناکام رہا۔ اِس کے علاوہ جب بھارت اُوڑی واقعہ کا ڈھنڈورا پیٹ رہا تھا انہی دنوں میں یعنی 4 اکتوبر 2016ء کو یورپی یونین کے مرکز برسلز میں پاکستان اور یورپی یونین کے درمیان اسٹرٹیجک مذاکرات ہوئے، اس میں یہ طے پایا کہ درمیانی اور طویل المدتی تعاون کو پاکستان اور یورپی یونین کے درمیان مزید فروغ دیا جائے گا، جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا اس میں پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی اور دہشت گردی کو ختم کرنے میں جو قربانیاں دیں اُن کو سراہا گیااور دہشت گردی کے خاتمے میں پاکستان کی مدد کا یقین دلایا گیا۔ کشمیر میں بھارتی جارحیت اور ظلم و ستم سے یورپی یونین کو آگاہ کیا گیااور یورپی یونین نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے تنازع کو بات چیت کے ذریعے پُرامن طور پر حل کرنے پر زور دیا۔یورپی یونین میں درجنوں مشرقی و مغربی یورپی ممالک شامل ہیں۔ اس طرح پاکستان سے یورپ تعلقات کو فروغ دے رہا ہے اور اس طرح بھارت کی پاکستان کو تنہا کرنے اور اُسے دہشت گرد ملک قرار دینے کی پالیسی ناکامی کا منہ دیکھ رہی ہے۔ اس طرح بھارت کی دو سال کی محنت رائیگاں گئی، پھر 6 اکتوبر 2016ء کو امریکی خارجہ امور کے ترجمان جان کربی نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کو سنگین قرار دیا اور پاکستان اور بھارت کو مل کر اس کا حل تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیا، نہ صرف یہ بلکہ دہشت گردی کو مشترکہ خطرہ اور چیلنج قرار دیا، اس سے نمٹنے کے لئے باہمی تعاون کا طریقہ استعمال کرنے پر اصرار کیا، نہ صرف یہ بلکہ امریکہ نے کشمیر پر بامعنی مذاکرات کا مشورہ بھی دیا۔ وقتی طور پر مودی صاحب پر اس کا اثر ہوا اور انہوں نے 11اکتوبر 2016ء کو لکھنو میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم سمجھتے ہیں کہ بھارت میں دہشت گردی نہیں ہورہی تویہ غلط ہوگا، ان کا فرمانا تھا کہ یہ وائرس معاشرے کو متاثر کررہا ہے اور دُنیا کو متحد ہو کر اِس کے خلاف لڑنا ہوگا، مگر پھر برکس کے اجلاس میں اس کو مسئلے کو اٹھایا اور ناکام ہوا وہاں کسی نے اُن کی نہ سنی۔ اس پر بھارت کے کئی کالم نگار یہ کہتے ہیں کہ شاید دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے جو کامیابی حاصل کی، اُس کے تجربے سے دوسرے ممالک فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، چنانچہ 6 اکتوبر کو ہی نیٹو کے جنرل پیٹر پیول نے بھی پاکستان کی دہشت گردی میں کامیابی کو متاثر کن قرار دیا اور کہا کہ دنیا مسئلہ کشمیر سے علیحدہ نہیں ہوسکتی انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دیا۔ 14اکتوبر 2016ء کو وزیراعظم پاکستان آذربائیجان کے دورے پر گئے تو آذربائیجان نے بھی کشمیر کے بارے میں پاکستان کے موقف کی حمایت کی۔ 17اکتوبر 2016ء کو چین نے پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف کردار کو سراہا اور اس نے وہی اصطلاح استعمال کی جو پاکستان استعمال کرتا ہے کہ جب تک دہشت گردوں کو پیدا کرنے والے بنیادی اسباب اور اُن کے خلاف امتیازی سلوک ختم نہیں ہوگا، اس وقت تک دہشت گردی ختم نہیں ہوگی۔ اس پر بھارت میں یہ شور مچ گیا کہ بھارت کا دُنیا پر اتنا اثر نہیں ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف دُنیا کو اپنا ہمنوا بنا سکے۔ اُن کا کہنا ہے کہ روس، چین، ایران اور دوسرے ممالک سوائے بھارت کے سب کو علم ہے کہ داعش کے لوگ جو شام میں گھر گئے ہیں اور اُن کو شکست کا سامنا ہے، اُن کو چین، روس، ایران اور پاکستان کی سرحد کے قریب لایا جائے گا اور اس وقت ان سب ممالک کو پاکستان کی سخت ضرورت محسوس ہوگی اور یہاں داعش کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لئے پاکستان کا تجربہ بروئے کار لایا جائے گا۔ بھارت کا معاشی اثر اسٹرٹیجک مفادات کے سامنے ماند پڑ جاتا ہے جبکہ پاکستان کی پوزیشن مضبوط ہوتی ہے۔ انڈین ایکسپریس میں پروین سوامی نامی کالم نگار لکھتے ہیں کہ پاکستان مقبول تو نہیں مگر اس کا اثرورسوخ بڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ جسکا اظہار ہر روز ہورہا ہے، برطانیہ کے آرمی چیف آف اسٹاف نے اپنے حالیہ دورئہ پاکستان کے دوران اپنے پاکستانی ہم منصب جنرل راحیل شریف سے ملاقات میں پاکستان کے کردار کو سراہا انہوں نے فاٹا کا دورہ بھی کیا، اسکے علاوہ برطانیہ نے بھارتیوں کےاس الزام کو رد کیا کہ پاکستان دہشت گردی کرا رہا ہے بلکہ اس بات کی تصدیق کی کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پر عزم ہے ایسی صورتِ حال میں بھارت کو چاہئے کہ وہ خوابوں کی دُنیا سے باہر نکل آئے اورپاکستان کو تنہا کرنے کی بات کرنا چھوڑ دے بلکہ پاکستان کے ساتھ مل کر خطے کے معاملات بہتر بنائے اور ماحول کو سازگار بنانے کے لئے کشمیر پر بات چیت کے لئے آمادگی ظاہر کرے۔


.
تازہ ترین