• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم ایک مدت سے سرکار کو عرض کررہے ہیں کہ میڈیکل پروفیشن اور سرکاری اسپتال تباہی کی طرف جارہے ہیں۔ ایک طرف حکومت اربوں روپے خرچ کرکے مریضوں کو سہولتیں دینا چاہتی ہے۔وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ صحت پر آدھا بجٹ خرچ کیا جاسکتا ہے پچاس نئے اسپتال بنائے جارہے ہیں، تو دوسری طرف سسٹم کی خرابی کے باعث وسائل ضائع ہورہے ہیں ، جب تک ڈاکٹروں کا رویہ مریضوں کے ساتھ اچھا نہیں ہوگا،جب تک ڈاکٹروں کی اپنے پروفیشن کی اعلیٰ اقدار اور کام میں مہارت پیدا نہیں ہوگی،جب تک نرسوں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کا رویہ درست نہیں ہوگا، تب تک اس پروفیشن کی تنزلی کا سلسلہ جاری رہے گا۔
ایک زمانہ تھا مریض ڈاکٹرز کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے ہم نے خود اپنی آنکھوں سے مریضوں کو ڈاکٹروں کے ہاتھ چومتے اور غریب دیہاتیوں کو اپنے معالج کے لئے گڑ اور دیسی گھی لاتے ہوئے دیکھا ہے ، اچھے معالج کی ہمیشہ قدر ہوتی ہے۔سفید کوٹ کی بڑی عزت تھی،چہرے مہرے اوربات چیت سے لوگ دور سے پہچان لیتے تھے کہ ڈاکٹر ہے، مگر کیا دعا دیں اس وائی ڈی اے(ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن) کو جنہوں نے آج ہر سرکاری اسپتال میں ایک طوفان بدتمیزی کھڑا کیا ہوا ہے، اس میں شامل زیادہ تر وہ ڈاکٹرز ہیں جنہوں نے چین ،روس اور دنیا کی گمنام جگہوں سے ایم بی بی ایس بغیر کسی ہائوس جاب کے کئے ہوا ہے، کیونکہ وہ ممالک اپنے مریضوں کو دوسرے ممالک سے آئے زیر تربیت ڈاکٹروں اور میڈیکل اسٹوڈنٹس کو ہاتھ بھی نہیں لگانے دیتے ،سو یہ لاکھوں روپے دے کر ڈاکٹر بننے والے ہائوس جاب پاکستان میں آکر کرتے ہیں اور پھر یہاں غریب مریضوں پر وہ تجربے کرتے ہیں کہ خدا کی پناہ، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ گزشتہ دنوں پاکستان کی سب سے قدیم اور بڑی علاج گاہ میو اسپتال میں وائی ڈی اے کے ڈاکٹروں نے اپنے سربراہ کی زیر قیادت سرجیکل وارڈ( گوجرانوالہ وارڈ )میں داخل ایک غریب مریض اور اس کے لواحقین کو صرف علاج کی بابت بات کرنے پر لاتوں، گھونسوں اور ٹھڈوں سے مار مار کر شدید زخمی کردیا۔ یہ مسیحا ہیں جو زندگی بچانے والے ہوتے ہیں لیکن یہی مسیحا مریض کے لواحقین سے اس کی زندگی چھیننے کی کوشش کررہے تھے۔ اس واقعہ کے کئی افسوسناک پہلو ہیں مثلاً یہ دیکھئے کہ مار بھی مریض اور اس کےغریب لواحقین نے کھائی اور پولیس چوکی بھی انہی بے چاروں کو جانا پڑا۔ ان ینگ مسیحائوں نے مریض کا علاج کرنے کی بجائے اس کو اس کے رشتہ داروں کو حوالات میں بند کرادیا جو پولیس کی منتیں کرتے رہے مگر کسی نے ان کی نہ سنی۔ ایک اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جب مریض کے لواحقین ایم ایس میو اسپتال کے آفس سے ہو کرڈی ایم ایس کے پاس ان ڈاکٹروں کے رویے کے بارے میں شکایت لکھ رہے تھے تو یہ ’’بہادر ڈاکٹرز‘‘ پھر وہاں پہنچ گئے۔ ابھی مریض اور اس کے لواحقین کو مار کر دل نہیں بھرا تھا کہ پھر جاکر مریض اور اس کے لواحقین کو کسی پنجابی فلم کے سین کی طرح مارنا شروع کردیا اور گھسیٹتے ہوئے ڈی ایم ایس کے آفس سے باہر لے آئے۔
قارئین آپ کو یہ بات بہت دلچسپ لگے کہ یہ ینگ ڈاکٹرز اپنے رشتہ داروں کا علاج اپنے ساتھی ڈاکٹروںسے یا خود نہیں کرتے بلکہ اپنے سینئر ز اساتذہ یا پروفیسروں سے کراتے ہیں۔ ان اساتذہ اور پروفیسرز سے جن کی یہ بے عزتی کرتے ہیں، جن کو کمروں میں بند کردیتے ہیں، میو اسپتال، کے ای ایم یو کے اس افسوسناک واقعہ کی بازگشت آج بھی سنی جارہی ہے کہ جب ایک سینئر پروفیسر نے ایک کورس میں مزید ڈاکٹروں کو داخلہ دینے سے انکار کیا تو ان وائی ڈی اے والوں نے اپنے استاد جو کہ سینئر پروفیسر اور ڈاکٹر تھے کے ساتھ انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کئے بلکہ گالیاں بھی دیں۔
آج ہم وائی ڈی اے کےڈاکٹرزجو اس معزز پیشے سے تعلق رکھتے ہیں، پوچھنے کی جسارت کررہے ہیں کہ کیا آپ نے حلف نہیں اٹھایا تھا جس میں یہ لکھا تھا کہ آپ اپنے مریض کی بیماری کا علاج ہر حال میں کریں گے اور اس کی بیماری کو دوسروں سے پوشیدہ رکھیں گے؟ آپ اس طرح تشدد کرکے کیا اس مقدس پیشے کو بدنام نہیں کررہے ؟ کہاں گیا وہ حلف جو آپ ڈاکٹر بننے کے بعد بھرے ہال میں ڈگری لیتے وقت بے شمار لوگوں کے سامنے اٹھاتے ہیں؟
ابھی صرف چند برس قبل آپ لوگوں نے ہڑتال کی تھی اور تمام سرکاری اسپتالوں کی ایمرجنسی بند کردی تھی جس کے نتیجے میں دو سو کے قریب لوگ مرگئے تھے۔ اب پھر یہ دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر اس واقعہ کی انکوائری کی رپورٹ ان کے خلاف آئی تو پورے پنجاب میں ہڑتال کردیں گے۔ یعنی چوری اور سینہ زوری بھی۔ ایک طرف مریض اور اس کے لواحقین کی دو مرتبہ شدید پٹائی کی اور اب انکوائری رپورٹ بھی اپنی مرضی کی مانگ رہے ہو، کیونکہ انکوائری کرنے والی ٹیم انتہائی ایماندار اور اچھی شہرت کی حامل ہے۔دوسری طرف حکومت کو مریض کو علاج کے لئے شیخ زید اسپتال داخل کرانا پڑا۔
سیکرٹری اسپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن پنجاب نجم احمد شاہ نے اس واقعہ کا فوری نوٹس لے کر بڑی اعلیٰ سطح کی انکوائری کمیٹی بنادی ہے جس کے کنوینریونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے جنرل محمد اسلم مقرر ہوئے ہیں جبکہ ممبران میںا سپیشل سیکرٹری ہیلتھ ڈاکٹر ساجد چوہان اور پروفیسر ڈاکٹر عیس محمد شامل ہیں۔ پورے میڈیکل پروفیشن میں پروفیسر ڈاکٹر فیصل مسعود سے لائق اور اپنی فیلڈ میں ماسٹر کوئی نہیں، ہونا تو یہ چاہئے کہ نوجوان ڈاکٹرز اپنے قابل اساتذہ سے کچھ سیکھیں مگر یہ ہر وقت ہنگامہ آرائی پر تلے ہوتے ہیں،جس کا اظہار وزیر اعلیٰ شہباز شریف کرچکے ہیں۔ اس کالج کو یونیورسٹی بنانے میں پروفیسر ڈاکٹر ممتاز حسن نے گراں قدر خدمات سرانجام دی تھیں ۔ اس تاریخی کالج سے منسلک اس تاریخی اسپتال کو صرف اور صرف یہ ینگ ڈاکٹرز عالمی سطح پربدنام کررہے ہیں۔ وائی ڈی اے تباہ و برباد کررہی ہے۔ غریب سے ان کے علاج کا حق بھی یہ ینگ ڈاکٹرز چھین رہے ہیں، شاید ان کے دل پتھر کے ہیں۔ کاش! ان کا کوئی عزیز ہڑتال کے دنوں میں بیمار ہو تو کوئی پوچھے ان پر کیا گزرتی ہے۔ ڈاکٹری ایک لازمی سروس کے زمرے میں آتی ہے۔ ہمارے خیال میں حکومت کو چاہئے کہ وہ ہڑتالوں اور احتجاج پر مکمل پابندی لگادے۔ لازمی سروس ایکٹ کے تحت جو لوگ ایسی ملازمت کرتے ہیں وہ اپنی ڈیوٹی نہیں چھوڑ سکتے۔ہم یہاں مریضوں سے بھی کہیں گے کہ وہ بھی اپنے اندر برداشت کا مادہ پیدا کریں مگر یہ بات ڈاکٹر کو بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ کوئی مریض ان کے پاس صرف تکلیف کی وجہ سے آتا ہے اور ایمرجنسی میں آنے والے ہر مریض کے پاس وقت کم ہوتا ہے۔ وائی ڈی اے والے دوستو! ڈرو اللہ کے عذاب سے ان دکھی لوگوں کو مزید دکھی نہ کرو۔
حکومت کو چاہئے کہ وہ ٹیچنگ اسپتالوں میں سب سے پہلے ان ڈاکٹروں کو ملازمت دے جو اس ادارے کے فارغ التحصیل ہوں۔ اس کے بعد اگر سیٹیں بچ جائیں تو دوسرے ڈاکٹروں کو ملازمت دے۔ آج تک وائی ڈی اے نے کیا کبھی شہرکے مہنگے ترین پرائیویٹ اسپتالوں کے خلاف آواز اٹھائی؟ جو ایک دن کا کرایہ تین سو سے پانچ سو ڈالر لیتے ہیں؟ کیا وائی ڈی اے نے عطائیت کے خلاف آواز اٹھائی ،جس ملک میں چار لاکھ عطائی ہوں ، عطائیت صرف یہ نہیںکہ جن کے پاس ڈگری نہیں۔ عطائیت یہ بھی ہے کہ ڈگری رکھ کر علاج نہیں کررہے ہیںیا غلط علاج کررہے ہو۔ بجائے اس کے اپنے نامور اساتذہ کے پاس بیٹھ کر مزید علم و تربیت سیکھیں اور ان نامور اساتذہ کے پاس آکر پیچیدہ کیسوں کو سمجھیں یہ لوگ اس کی بجائے ہڑتالیں کرنے، ٹھیکے لینے اور اسپتالوں میں مختلف سامان و آلات کی خرید و فروخت میں دلچسپی رکھتے ہیں، افسوس در افسوس۔ خدارا غریب مریضوں کے لئے سرکاری اسپتالوں کو نو گو ا یریا نہ بنائیں اور نہ ڈاکٹروں کی تنظیم کو دہشت کی علامت بنائیں۔


.
تازہ ترین