• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جس دوران اسلام آباد پر عمران خان کی چڑھائی کا وقت قریب آتا جارہا ہے ، حکمران جماعت، المعروف ’ن لیگ‘ کی پریشانی بڑھتے بڑھتے ظریفانہ رنگ اختیار کررہی ہے ۔ اخبارات کے صفحہ ٔ اوّل کو دیکھیں ، بیانات کا پانی پت سجا دکھائی دیتا ہے ۔ ن لیگ کے مختلف رہنماوں کا غوغا ،( 1)مارچ بلاجواز ہے ،( 2)مارچ کی اجازت نہیں دی جائے گی، شیکسپیئر کے ڈرامے ’ہیملٹ‘‘ کی لیڈی کی یاد دلاتا ہے ۔
اگر حکمران جماعت مارچ روک سکتی ہوتی تو بیان بازی کی کیا ضرورت تھی؟ ایک سوچ یہ بھی ہے کہ حکمران جماعت کے ایم این اے اور ایم پی اے جوابی ریلیاں کیوں نہیںنکالتے ؟اُنہیں یقین دلانا چاہیے کہ وہ بھی ریلیاں نکالیں، ان سے مارشل لا لگنے کا اندیشہ نہیں۔ ان سے حالات بہتر نہ بھی ہوں لیکن انہیں پارٹی کی نروس اور بے ترتیب سانسیں بحال کرنے کا موقع مل جائے گا۔ تاہم میدان میں قدم رکھنے کی نسبت بیانات دیناکہیں آسان ہے ۔
وفاقی وزیر برائے نج کاری، محمد زبیر پر نج کاری کے حوالے سے تو مایوسی کی دیوی سایہ فگن رہی ، اس میدان میں ان کے پاس دکھانے کے لئے کچھ نہیں، لیکن آئے روز اُنھوں نے پریس کانفر نس کرکے پی ٹی آئی پر دل کی بھڑاس ضرور نکالنی ہوتی ہے ۔میرا خیال ہے وہ اسی طرح اپنی افادیت ثابت کرتے ہیں۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کو اپنی تشہیر پر کچھ خرچ کرنے کی ضرورت نہیں، نواز لیگ کے وزرااپنی بیان بازی سے اس کی مفت میں ضرورت سے زیادہ تشہیر کررہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن، ماہر ترین سیاسی قلاباز، بھی عمران خان کی ہجو میں کمر کس کے (اپنی) میدان میں ہیں۔ مولانا کے حوالے سے البتہ ایک بات ماننا پڑے گی، اور اس کا اُنہیں کریڈ ٹ جاتا ہے کہ وہ کچھ بھی مفت میں نہیں کرتے ۔ نہر سوئز کے اس پار اُن سا عملیت پسند ڈھونڈے نہیں ملے گا۔ اُن کے پاس حکمران جماعت کی تشفی کے لئے کیا ہے ؟یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔
اسلام آباد محاصرے کی تشہیر تو حکمران جماعت خود ہی کررہی ہے ۔ اس وقت میڈیا دودھڑوں میں تقسیم ہے ۔ ایک طرف ’’آئین کے از سرنو ابدی رکھوالے‘‘ ہیں جو بھرائی ہوئی آواز میں اسے جمہوریت پر حملہ قرار دے رہے ہیں۔ دوسرا کیمپ مزید بھرائی ہوئی آواز میں اسے پاک چین معاشی راہداری کو ناکام بنانے کی سازش سے تعبیر کرتا ہے۔ اس کورس سانگ کے ماسٹر، وزیر ِاعلیٰ پنجاب ہیں۔ ان تھیوریز کو ہوا دینے والے اس بحران کو جنم دینے والے بنیادی مسئلے سے نظریں چرا رہے ہیں، جو کہ پاناما اسکینڈل ہے ۔ عمران خان صرف یہی پوچھ رہے ہیں کہ حکمران خاندان مے فیئر جا ئیداداور سمندر پار اکائونٹس کے الزام سے خود کو کلیئر کرائیں۔ مے فیئر جائیداد کا تعلق 1990 کی دہائی سے ہے جب حکمران خاندان کے بیٹے اور بیٹی بہت نوعمر تھے ۔چنانچہ اس جائیداد کی ملکیت کے بارے میں پوچھے گئے سوالات کا قطعی جواز موجود ہے ۔ اور یہ بھی کہ اسے خریدنے کے لئے رقم کہاں سے آئی؟کیا ان اثاثوں کا ذکربھی انکم ٹیکس گوشواروں یا انتخابی کاغذات میں کیا گیا؟دنیا میں کہیں اور یہ ایک دھماکے دار کیس بن جاتا۔ا س کی پاداش میں نہ صرف عوامی عہدہ رکھنے سے نااہلی کی سزا ملتی بلکہ کریمنل کیس بھی بن جاتا۔ اب چونکہ ن لیگ کی ٹیم کے پاس کوئی واضح جواب نہیں ، اس لئے وہ شور مچارہے ہیں کہ اس احتجاج کی وجہ سے سیاسی نظام اور سی پیک خطرے میں ہیں۔ وہ عمران کی کردار کشی کی بھی کوشش کررہے ہیں۔
دراصل حقائق کو چھپانا ، مٹی ڈالنا، دروغ گوئی سے کام لینا ہماری قومی زندگی کا خاصا بن چکا ہے ۔ شریف برادران ، جو اس سے پہلے بھی بہت سی الجھائو دار صورت ِحال سے بچ نکلنے کا تجربہ رکھتے ہیں، امید کررہے تھے کہ وہ حسب ِ معمول پاناما سے بھی گزر جائیں گے ۔ تاہم جب اُنھوں نے ایک بے ضرر جوڈیشل کمیشن بنانے کی تجویز پیش کی تومحترم چیف جسٹس نے اسے منظور نہ کیا۔ اور حکمران جماعت کے سامنے کوئی اور منصوبہ نہیں تھا۔ چنانچہ اس معاملے کو ابہام میں ڈالتے ہوئے وقت گزارنے کی کوشش کی ۔ تاہم دیگر معاملات کے برعکس ، اس اسکینڈل نے قالین کے نیچے سرکنے سے انکار کردیا ۔ اصغر خان کیس، جس میں آئی ایس آئی نے مہران بنک سے رقم لے کر کچھ سیاست دانوں، جن میں نواز شریف اور شہباز شریف بھی شامل تھے، میں تقسیم کی۔اگر ایسا کوئی کیس پی پی پی کے خلاف ہوتا تو اس کی کئی حکومتیں تباہ ہوجاتیں۔ تاہم شریف برادران نے شاید سیاسی آب ِحیات پی رکھا ہے ۔
ماڈل ٹائون کیس وزیرستان کے کسی دور افتادہ علاقے کا نہیں ، لاہور کے قلب میں دوخواتین سمیت چودہ افراد کو گولی مار کر ہلاک اور اسّی کو زخمی کردیا گیا۔ حتی کہ نسل پرستی کے شکار جنوبی افریقہ اور ظلم و ستم کے شکار فلسطین میں بھی یہ ایک بہت بڑا واقعہ قرار پاتا، لیکن ہمارے سیاسی شعبدہ باز اس سے بچ نکلے ، کم از کم اس وقت تک۔ وہ اُس وقت بھی بچ نکلے تھے جب اُن کا دعویٰ تھا کہ اُنھوںنے جنرل مشرف سے دس سال تک سیاست میں حصہ نہ لینے کا کوئی معاہدہ نہیں کررکھا۔اُنھوں نے بار ہا ایسے کسی معاہدے سے سنجیدگی سے انکار کیا، یہاں تک کہ پرنس مقرن ، جو کہ سعودی انٹیلی جنس چیف تھے، کو اسلام آکر ایک غیر معمولی پریس کانفرنس کے دوران ایک کاغذ دکھانا پڑا جو ان کے دعوے کی تکذیب کرتا تھا۔ عام افراد شایدشرم سے زمین میں گڑ جاتے لیکن بطخ کے پروں پر پانی کون ٹھہرائے ۔ کہا کہ ہاں معاہدہ تو تھا لیکن پانچ سال کا۔
یہ ہے ان کا اعتماد، لیکن اب تک بچتے چلے آنے کے بعد اب دو معاملات ان کے دامن گیر ہوچکے ہیں۔ ایک پاناما لیکس اور دوسرے عمران خان۔ عمران خان کے استقلال کے بغیر یہ اسکینڈل اپنی موت مر چکا ہوتا۔ اسے زندہ رکھنے کا کریڈٹ عمران کی ہمت کو جاتا ہے ، اور حکمران جماعت کو سمجھ نہیں آرہی کہ اس سے جان کیسے چھڑائیں۔ اب ان کی ٹیم عمران پر جتنا کیچڑ اچھالتی ہے ،ان کی گھبراہٹ میں اتناہی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے ۔ انہیں دیگر سیاست دانوں سے نمٹنے کا تجربہ ہے ۔اُنھوں نے فوجی جنرلوں کے ساتھ جھگڑے کیے ، مشرف کے شب خون کا جھٹکا سہار کرپھر اقتدار میں آگئے ، اور یہ کوئی معمولی کامیابی نہ تھی۔ تاہم یہ عمران سے پیچھا چھڑانے میں ناکام ہیں۔ اب عمران تمام کشتیاں جلاتے ہوئے اپنی سیاسی زندگی کی سب سے بڑی بازی کھیلنے جارہے ہیں۔ ان کے ارادے نے شریف برادران کو ہلا کررکھ دیا ہے ۔
یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ اگر یہ مارچ ناکام ہوگیا تو اس کا عمران کو بھی سیاسی طورپر سخت نقصان ہوگا، لیکن وہ اس کی قیمت چکانے کے لئے تیارہیں۔ تاہم اُنھوں نے اپنے حامیوں کے دلوں کو غیر معمولی ولولے سے لبریز کردیا ہے ۔ وہ سب آخری معرکے کا انتظار کررہے ہیں۔ جمہوری ڈرائنگ رومز کے مبصرین کا کہنا ہے کہ عمران آگ سے کھیل رہے ہیں۔ اُنھوں نے یہ بات ایوب خان کے خلاف تحریک چلاتے وقت بھٹو کو سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ یقیناً ہر احتجاج آگ سے کھیلنے کے مترادف ہی ہوتا ہے ۔ اشرافیہ کو چیلنج کرنے کی ہر کوشش خطرناک ہوتی ہے ، لیکن یہ انسانوں کا جذبہ ہے جو بے خطر اس آگ میں کود پڑتا ہے ۔ عقل بیچاری محو تماشائے لب بام رہ جاتی ہے۔





.
تازہ ترین