• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اپنے کمرے کا دروازہ بند کر لیں، موبائل فون آف کر دیں، روشنی گل کر دیں، بستر پر لیٹ جائیں، آنکھیں موند لیں، جسم کو ڈھیلا چھوڑ دیں، لمبے لمبے گہرے سانس لیں اور پھر ذہن میں ایک ایسے ملک کا تصور لائیں جہاں اربوں بلکہ کھربوں روپوں کی کرپشن معمولی بات ہو، جس کے ممبران اسمبلی پر اغوا، قتل، دھوکہ دہی، ریپ اور مذہبی منافرت کی بنیاد پر فسادات کروانے جیسے سنگین مقدمات قائم ہوں، جہاں ملاوٹ سے بنی اشیاء کھلے عام فروخت ہوتی ہوں، جہاں جعلی ادویات بکتی ہوں، جہاں نچلی ذات کے لوگوں کے گاؤں کے گاؤں جلا دیئے جاتے ہوں، جہاں کی نصف آبادی بغیر ٹوائلٹ کے زندگی گزارنے پر مجبور ہو، جہاں کے سب سے بڑے شہر میں ایک مربع میل کے علاقے میں ایشیا کی سب سے بڑی کچی آبادی ہو جس میں دس لاکھ افراد زندگی بسر کرتے ہوں اور جن کی ایک نسل سے دوسری نسل فٹ پاتھ پر پیدا ہو کر فٹ پاتھ پر ہی مر جاتی ہو، جہاں کی عورتیں اس لئے حاملہ ہوتی ہوں کہ بچہ پیدا کرکے بیچ دیں گی تاکہ اپنے کھانے کے لئے پیسے اکٹھے کر سکیں، جہاں پانی کی بالٹی بھرنے کے لئے عورتوں اور بچوں کو روزانہ کئی میل کا سفر طے کرنا پڑتا ہو، جہاں پندرہ لاکھ بچے پانچ برس سے کم عمر میں علاج معالجے کی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے مر جاتے ہوں، جہاں بچوں کی اڑتالیس فیصد آبادی غذائی کمی کا شکار ہو، جس ملک میں بیسیوں مسلح بغاوتوں کی تحریکیں چل رہی ہوں اور جہاں موروثی سیاست کا یہ حال ہو کہ ایک میم کے ہاتھ میں ملک کی سب سے بڑی پارٹی کی باگ دوڑ اس لئے تھما دی جائے کہ اس کے نام کے ساتھ گاندھی لگا ہے۔۔۔اِس کے باوجود اُس ملک کے دانشور اور تجزیہ نگار جمہوریت میں یقین رکھتے ہوں، اپنی تحریرو ں میں پر کشش مثالوں کے ذریعے کسی طالع آزما کے لئے راہ ہموار نہ کرتے ہوں، اپنی کسی ذاتی خواہش کی تکمیل نہ ہونے کی وجہ سے نظام اُلٹانے کی تراکیب نہ بتاتے ہوں اور ان تمام خرابیوں کا ذمہ دار جمہوریت کو گردان کر اسے غلیظ اور بدبو دار جمہوریت کا لقب دینے کی بجائے اسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہنے میں فخر محسوس کرتے ہوں ۔۔۔تو ایسے ملک کے دانشوروں کے بارے میں آپ کیا رائے دیں گے؟؟؟
جس ملک کی ہم نے مثال لی ہے وہ بھارت ہے جہاں دنیا کے کسی بھی نظام حکومت کی ممکنہ تمام تر خرابیوں کے باوجود ایک مرتبہ بھی آمرانہ نظام نہیں آیا اور نہ ہی وہاں کوئی تجزیہ نگار بین ڈال کر ڈکٹیٹر شپ کی دہائی دیتا ہے۔ جمہوریت کے خلاف میسر آئیڈیل ماحول میں بھی یہ بھارتی لکھاری عوام کو اپنی لچھے دار گفتگو کے ذریعے اس بات پر قائل کرنے کی کوشش نہیں کرتے کہ جمہوریت کی آڑ میں یہ ڈریکولائی نظام تمہارا خون چوس رہا ہے لہٰذا اس کی جگہ ڈکٹیٹر شپ کو آزما لیا جائے! اب یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ ہندوستانی تجزیہ نگار اور لکھاری بالکل بودے ہیں کہ انہیں اصلی اور جعلی جمہوریت کا فرق ہی معلوم نہیں کیونکہ بہرحال بھارت وہ ملک ہے جہاں ایک انگریزی اخبار کی اشاعت پاکستان میں شائع ہونے والے تمام روزناموں کی اشاعت سے زیادہ ہے سو ایسے اخبارات میں لکھنے والے بہرحال جاہل نہیں ہو سکتے۔ لیکن ہمارا ٹیلنٹ بھی کم نہیں، یہ ہمارا ہی چند لکھاریوں کا خاصہ ہے جو جمہوریت کے خلاف کونوں کھدروں سے مثالیں ڈھونڈ کر لاتے ہیں اور اسے پاکستان پر منطبق کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ایسا کرتے ہوئے ہمارے یہ بزرجمہر تاریخ اور جغرافیہ بھی بھول جاتے ہیں، دلیل سے انہیں حکیم نے پرہیز بتایا ہے جبکہ حقائق سے ان کے منہ کا ذائقہ کڑوا ہو جاتا ہے اس لئے یہ اپنے آپ کو صرف جملے بازی تک محدود رکھتے ہیں۔ خلاصہ ان کے مقدمے کا یہ ہے کہ ’’تمہارا کتا، کتا ہے اور میرا کتا ٹامی!‘‘جو شخص ملک میں جمہوریت کے حق میں لکھے وہ اِن کے نزدیک بکاؤ ہے البتہ یہ اگر آمریت کے حق میں لکھیں تو وہ حق گوئی کہلائے گی، یہ عوام کے بھلے کے لئے ایسا نظام ملک میں چاہتے ہیں جس میں فرد واحد بندوق کی نوک پر اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو قید کر دیتا ہے، اِن کے نزدیک ملک میں جمہوریت کی آڑ میں بادشاہت قائم ہے جبکہ یہ جس نظام کے لئے ’’جدوجہد‘‘ کر رہے ہیں وہ براہ راست بادشاہت ہے۔ اِن کی منطق کی رو سے ملک میں آئین، پارلیمنٹ، عدلیہ اور دیگر تمام ادارے جعلی اور نظر کا دھوکہ ہیں اور اصل اختیار چند خاندانوں اور ان کے سرکردہ افراد کے پاس ہے جبکہ جس نظام کی یہ راہ ہموار کرنے میں لگے ہیں اِس میں تو کل اختیار فرد واحد کے پاس ہوتا ہے گویا چند خاندانوں کے مقابلے میں ایک شخص کی بادشاہت انہیں منظور ہے! وہی بات ’’تمہارا کتا، کتا ہے اور میرا کتا ٹامی!‘‘مزید لطیفہ یہ ہے کہ ملک میں رائج جمہوری نظام سے مکمل بیزاری کے باوجود یہ اسی نظام میں اپنے پسندیدہ لیڈر کو حکمران دیکھنا چاہتے ہیں لیکن یہی خواہش اگر کوئی دوسرا اپنے کسی پسندیدہ لیڈر کے بارے میں کرے تو اسے لڑاکا عورتوں کی طرح وہ تمام طعنے دیتے ہیں جو درحقیقت خود اِن پر فِٹ بیٹھتے ہیں۔ وہی بات:’’تمہارا کتا، کتا ہے اور میرا کتا ٹامی!‘‘ لطیفے تو اس ضمن میں بہت سے ہیں، آخری پیش ہے۔ ایک ’’دلیل‘‘ عوام کے غم میں گھلنے والوں کی یہ ہے کہ آمریت کے دور میں ملک میں بہت ترقی ہوئی یقین نہیں آتا تو اعداد و شمار اٹھا کے دیکھ لیں۔ اگر یہ دلیل درست مان لی جائے تو اس منطق کی رو سے جو ترقی انگریز کے دور میں ہوئی اس کا عشر عشیر بھی پاکستان میں آمریتوں میں نہیں ہوا تو کیوں نہ ملکہ برطانیہ کو ہی براہ راست درخواست ڈالی جائے کہ ملک میں دوبارہ یونین جیک لہرا دیا جائے! ترقی کے اعداد و شمار پر بات تو تب ہو جب مشرقی پاکستان جو ایک ڈکٹیٹر کے دور میں ہم سے جدا ہوا کسی طور واپس آجائے، کارگل اور سیاچن ۔۔۔خیر جانے دیں۔ وہی ٹامی والی بات!
جمہوریت کے خلاف جو چارج شیٹ لگا کر چند لکھاری اس نظام کو رد کرتے ہیں اسی سانس میں یہ اِس جمہوریت سے بھی کہیں زیادہ مکروہ نظام کی غیر محسوس انداز میں اور ایسی مہارت اور چابکدستی کے ساتھ حمایت کرتے ہیں کہ کوئی انہیں غیر جمہوری ہونے کا طعنہ بھی نہیں دے سکتا اور اس پر زعم یہ کہ حق گوئی کی سند بھی انہیں دی جائے۔ چلئے یہ کام آج میں کئے دیتا ہوں اور مطالبہ کرتا ہوں کہ جمہوریت کو ٹھاپیں لگانے والے اور عوام کی فلاح و بہبود کی خاطر آمریت اور فرعون کے دور کا نظام واپس لانے کی انتھک کاوش کرنے والے لکھاریوں اور اینکر پرسنز کو آزاد، غیر جانبدار اور حق پرست دانشور ہونے کی سند جاری کی جائے جسے یہ صاحبان مستقبل کے لئے سنبھال رکھیں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں یہ جان سکیں کہ جس وقت دنیا کو جمہوریت پر متفق ہوئے سینکڑوں برس ہو چکے تھے اُس وقت بھی کچھ دور اندیش فلسفی ہمارے لیے ڈکٹیٹر شپ کا تریاق لئے بیٹھے تھے۔





.
تازہ ترین