• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان اور بھارت پڑوسی ملک ضرور ہیں مگر دونوں کے درمیان شدید نوعیت کی مخاصمت موجود ہے، بھارت کا خیال ہے کہ پاکستان کے وجود کی وجہ سے بھارت ماتا کے ٹکڑے ہوگئے، یہی وجہ ہے کہ اس نے پاکستان کو کبھی دل سے قبول نہیں کیا، سوائے ایک وقت کے جب اٹل بہاری واجپائی کے دور میں مگر اسوقت کارگل کا معاملہ ہوگیا۔ اس لئے بے یقینی بڑھتی چلی گئی، دونوں ممالک نے تین جنگیں لڑی ہیں، پہلی جنگ میں پاکستان نے کشمیر کا ایک بڑا حصہ حاصل کیا اور 1965ء کی جنگ میں ساری دُنیا نے تسلیم کیا کہ پاکستان کو فتح حاصل ہوئی اور پاکستان کو بھارت پر زمینی، بحری اور فضائی جنگ میں برتری حاصل رہی، تاہم 1971ء میں عالمی سازش کی وجہ سے پاکستان کو شکست ہوئی۔ 1965ء کی جنگ میں پاکستان کے طاقتور ملک ہونے کا تاثر ابھرا اور مشرق وسطیٰ کے ممالک نے اپنی سلامتی کیلئے پاکستان کی طرف دیکھنا شروع کیا اور عربوں کی دولت کا سفر پاکستان کا رُخ کرنے لگا، یہ بات امریکہ اور دوسرے ممالک کیلئے قابل قبول نہ تھی، اس لئے پاکستان کو چاروں طرف سے گھیر کر اور تنہا کرکے مشرقی پاکستان علیحدہ کرایا گیا اور اسی وجہ سے بھارت آج پاکستان کو تنہا کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے اور علی الاعلان کہہ رہا ہے کہ وہ ایک اور بنگلہ دیش بنائے گا۔ 1971ء کی جنگ کے بعد ہم سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ بھارت نے 1974ء میں ایٹم بم کا تجربہ کر ڈالا، اِس سے پاکستان سخت دبائو میں آگیا اور اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے تاریخی اعلان کیا کہ وہ ایٹم بم بنائیں گے چاہے پاکستان کے عوام کو گھاس ہی کیوں نہ کھانا پڑے، عالمی طاقتوں نے نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی) کی تشکیل دی کہ وہ کسی اور ملک کو ایٹمی طاقت نہیں بننے دیں گے۔ تاہم 1983ء میں پاکستان نے ایٹم بم بنا ڈالا، اِس کے بعد مغرب نے اس پر قیاس آرائیوں کی بھرمار کردی کہ اسلامی بم بن گیا اور یہ کہ اب پاکستان سارے عالم اسلام کی پشت پناہی کیلئے اٹھ کھڑا ہوگا، پاکستان کے حکمراں اتنے زیرک، مستعد اور دوراندیش نہیں تھے کہ وہ مغرب کی اس سوچ کا ہی ادراک کرلیتے جس کی پیش بندی میں مغرب نے تمام مسلمان ممالک کو تخریب کاری اور عدم استحکام کا شکار کیا ہوا ہے۔
گیارہ مئی 1998ء کو بھارت نے پانچ ایٹمی دھماکے کرکے اپنے آپ کو ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کردیا تو پاکستان نے 28 مئی 1998ء کو چھ ایٹمی دھماکے کرکے ایٹمی قوت کا اظہار کیا۔ اِس کے بعد پاکستان اور بھارت کو مل کر کام کرنا چاہئے تھا اور امن کے ساتھ رہنے کی کوشش کی جانا چاہئے تھی، پاکستان تو امن کا خواہشمند تھا مگر یہ درست ہے کہ بنگلہ دیش میں اس کو جو زخم لگا تھا وہ مندمل نہیں ہوا تھا تاہم بھارت اگر اچھی سفارتکاری کرتا اور فراخدلی کا مظاہرہ کرکے کشمیر کے معاملے کو سلجھا دیتا تو شاید پاکستان کےزخموں پر مرہم رکھا جاسکتا تھا مگر وہ آگے بڑھتا ہی چلا گیا، ایٹمی طاقت بننے کے بعد وہ اسی جستجو میں رہا کہ پاکستان کو کیسے سرنگوں کیا جائے، پاکستان پر کیسے بالادستی قائم کی جائے، چنانچہ اس نے کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن کا سلسلہ شروع کیا کہ پاکستان کو آٹھ ایسے کمزور سرحدی علاقوں سے پوری طاقت کے ساتھ گھس کر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردے۔ اِس کا مطلب یہ تھا کہ آٹھ ایسے فوجی یونٹ بنائے گئے جو کیل کانٹے سے لیس تھے، عموماً فوج کے دستے الگ الگ ہوتے ہیں، ٹینک ڈویژن، اسٹرائیک فورس، میکنائزڈ ڈویژن الگ، توپیں جدا، بھارت نے ان سب کو ایک جگہ جمع کرکے آٹھ خوفناک فوجی فورسز بنائیں تاکہ پاکستان کے آٹھ سرحدی علاقوں میں گھس کر پاکستان سے اپنی مرضی کے فیصلے کرا لے، جواباً پاکستان نے چھوٹے ایٹم بم اور کم فاصلے پر فائر ہونے والے میزائل بنا کر اس منصوبے کو جس پر بھارت کے 20 بلین ڈالرز خرچ ہوئے تھے، بے اثر کردیا۔ یعنی اگر بھارت نے کہیں گھسنے کی کوشش کی تو اُس کے کسی ایک یا آٹھ کے آٹھ یونٹوں کو تباہ کرنے کی صلاحیت حاصل کرلی، اس پر 30 اپریل 2013ء کو ٹائمز آف انڈیا میں بھارت کے ایٹمی بورڈ کے چیئرمین شیام سرن کا ایک بیان چھپا کہ پاکستان نے اگر Tactical War heads یا محدود پیمانے کے ایٹمی ہتھیار استعمال کئے تو بھارت جواباً اسٹرٹیجک ایٹمی حملہ کردے گا۔ اب انڈیا نے اُوڑی حملے کا ڈرامہ اور پھر سرجیکل اسٹرائیک کا تھیٹر سجایا، جس پر کسی کو یقین نہیں ہے، سوائے اس کے کہ وہ جھوٹ کا پلندا ہے اور بھارت اس کا ثبوت بھی نہیں دے سکا۔
سوال یہ ہے کہ آپ ایک ایٹمی ملک کے خلاف کیا کرسکتے ہیں جبکہ دونوں ممالک یہ جانتے ہیں کہ دونوں کے درمیان کوئی جنگ ہوئی تو نہ حملہ آور بچے گا اور نہ دفاع کرنے والے ملک میں کوئی ذی روح باقی بچے گا۔ اِس کے بعد دھمکیاں دینا ایک بچکانہ حرکت تو کہلائی جاسکتی ہے کوئی دانشمندی کی بات نہیں، اسی وجہ سے بھارت کی ایک صحافی تلوین سنگھ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ گجرات کے عام سے آدمی کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ اقتدار پر غاصبانہ قبضہ قائم رکھے جو ایٹمی جنگ کی طرف لے جارہا ہو۔ یہی بات ہم سمجھانا چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک ایٹمی توازن قائم ہوگیا ہے کہ جسے Nash equilibrium ’’ناش توازن‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ جان ناش نے یہ تجزیاتی تھیوری پیش کی کہ دو یا اس سے زیادہ متحارب ممالک جو جنگ کرنا چاہتے ہوں یا اسلحے کی دوڑ میں مصروف ہوں اور ایک دوسرے سے تعاون نہ کرتے ہوں مگر ایک دوسرے کی اسٹرٹیجی سے واقف ہوں تو کوئی کچھ بھی چاہے نتیجہ ایک ہی نکلے گا یعنی مکمل تباہی۔ وہ کسی قسم کی اسٹرٹیجک تیاری کرلیں، امریکہ سے لاجسٹک یا کمیونیکیشن تعاون لے لیں یا فرانس سے رافیل طیارے لے لیں یا روس سے S-400 میزائل سسٹم لے لیں مگر نتیجہآخر میں تباہی ہی ہے۔ دُنیا بھر کے ممالک اور بھارت کے دانشور نریندر مودی کو سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ایٹمی طاقتوں کے درمیان یہ لب و لہجہ نہیں ہونا چاہئے جو مودی یا اُس کی کابینہ کے ارکان استعمال کررہے ہیں۔ ایٹمی طاقتیں بچوں کی طرح ڈرامہ نہیں کیا کرتیں۔ جیسے اُوڑی یا سرجیکل کاڈرامہ، بلکہ سنجیدگی سے مسائل پر بات کرتی ہیں، اسی لئے کشمیر کے مسئلے پر سنجیدہ گفتگو کرنا چاہئے۔ دُنیا کبھی یہ نہیں چاہے گی کہ بھارتی حکومت غیرذمہ داری کا مظاہرہ کرکے دُنیا کو تباہی کی طرف لے جائے، کیونکہ عالمی تحفظ کا انحصار پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات پر ہے، اس لئے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو خوابوں کی دُنیا سے نکل کر عملی اور حقیقی زندگی کی طرف لوٹنا چاہئے اور سچائی و حقیقت پر مبنی طور طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔


.
تازہ ترین