• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں حکومتیں بدل جاتی ہیں حالات نہیں بدلتے۔ چہرے بدل جاتے ہیں نظام نہیں بدلتا۔ غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے مزید غلطیوں کا ارتکاب کیا جاتا ہے جس کا خمیازہ ایک فرد، جماعت یا ادارہ نہیں بلکہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کا کوئی موازنہ نہیں لیکن آج کل نواز شریف اپنا اقتدار بچانے کے لئے وہی کچھ کر رہے ہیں جو بھٹو صاحب نے کیا تھا۔ بھٹو نے جیل میں دو کتابیں اور اپنی بیٹی کے نام ایک طویل خط تحریر کیا تھا۔ ان کی ایک کتاب ’’اگر مجھے قتل کیا گیا‘‘ اور طویل خط ’’میری پیاری بیٹی‘‘ کے نام سے شائع ہوا اور یہ دونوں تصانیف مارکیٹ میں آج تک موجود ہیں۔ جیل میں لکھی گئی ان کی ایک اور کتاب ’’افواہ اور حقیقت‘‘ کئی سال تک محترمہ بے نظیر بھٹو کے پاس محفوظ رہی۔ انہوں نے یہ کتاب پاکستان میں 1993ء میں شائع کرائی۔ کتاب کا آغاز قرآن مجید کی اس آیت سے کیا گیا۔۔۔ ’’اور مت پردہ پوشی کرو سچ کی جھوٹ سے، نہ چھپائو سچائی کو، جب تم جانتے ہو۔۔۔‘‘ یہ کتاب شائع ہونے کے کچھ عرصے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو دوسری مرتبہ وزیراعظم بن گئیں اور انہیں یہ پیغام دیا گیا کہ اس کتاب کو دوبارہ شائع نہ کیا جائے۔ یہ کتاب دوبارہ شائع نہ کی گئی لیکن اس کے باوجود محترمہ بے نظیر بھٹو دوسری مرتبہ بھی اپنی آئینی مدت پوری نہ کر سکیں اور انہیں 1996ء میں حکومت سے نکال دیا گیا۔ اس کتاب کا میں پہلے بھی ایک کالم میں ذکر کر چکا ہوں لیکن موجودہ حالات کے تناظر میں اس کتاب سے ایک حوالہ آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ کتاب کے تیرہویں باب میں پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم نے بتایا کہ انہوں نے اپنی کابینہ کے دو وزیروں جے اے رحیم اور معراج محمد خان کو وزارت سے کیوں فارغ کیا؟
جے اے رحیم ایک ریٹائرڈ بیورو کریٹ تھے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے پہلے سیکرٹری جنرل تھے۔ بنگالی ہونے کے باوجود انہوں نے 1971ء کے بعد پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کیا اور بھٹو حکومت میں وزیر دفاعی پیداوار بنائے گئے۔ معراج محمد خان پارٹی کے نائب صدر تھے۔ انہیں محنت و افرادی قوت کی وزارت دی گئی۔ دونوں وزراء کا تعلق مڈل کلاس سے تھا اور دونوں سوشلسٹ نظریات رکھتے تھے۔ بھٹو صاحب نے لکھا ہے کہ کچھ فوجی جرنیل جے اے رحیم اور معراج محمد خان کے بہت خلاف تھے۔ جے اے رحیم کو کابینہ سے نکال کر فرانس میں پاکستان کا سفیر بنا دیا گیا۔ جنرل گل حسن اور جنرل رحیم الدین نے معراج محمد خان کو بھی کابینہ سے نکالنے کا مطالبہ کیا۔ جب وزیراعظم نے انکار کر دیا تو پھر آئی ایس آئی نے معراج محمد خان کے بارے میں ایسی رپورٹیں وزیراعظم کو بھجوانی شروع کر دیں جن سے غلط فہمیاں پیدا ہو سکیں۔ بھٹو صاحب کا دعویٰ ہے کہ معراج محمد خان کو اشتعال دلایا گیا اور انہوں نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔ 1976ء میں جنرل ضیاء الحق اور جنرل ارباب جہاں زیب نے وزیراعظم سے مطالبہ کیا کہ معراج محمد خان کو حیدر آباد سازش کیس میں گرفتار کیا جائے اور پھر معراج محمد خان کو گرفتار کر لیا گیا۔ جن دنوں پاکستان قومی اتحاد نے بھٹو حکومت کے خلاف تحریک چلا رکھی تھی تو جنرل ضیاء الحق نے وزیراعظم کو آ کر بتایا کہ معراج محمد خان آپ کو جیل میں گالیاں بکتا ہے۔ بھٹو صاحب نے جنرل ضیاء الحق کے یہ الفاظ نقل کئے۔ ’’حق بات تو یہ ہے کہ جو شخص میرے وزیراعظم کو گالیاں بکتا ہے وہ حرامزادہ ہے۔‘‘ فوجی جرنیلوں کے دبائو پر بھٹو صاحب نے دو وزراء کو فارغ کیا۔ ایک کو بیرون ملک بھیج دیا دوسرے کو جیل بھیج دیا لیکن نہ اپنی حکومت بچا سکے نہ جان بچا سکے اور پاکستانی عدالتوں کے ذریعہ انہیں پھانسی پر لٹکا دیا گیا جسے آج بھی جوڈیشل مرڈر کہا جاتا ہے۔
1977ء اور 2016ء میں بہت فرق ہے۔ بھٹو اور نواز شریف میں بھی بہت فرق ہے لیکن نواز شریف نے بھی بھٹو کی طرح اپنے دو وزراء کو کابینہ سے فارغ کر دیا۔ نواز شریف حکومت نے کچھ عرصہ قبل وزیر ماحولیات سینیٹر مشاہد اللہ خان کو 2014ء کے دھرنے میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے بارے میں کچھ متنازع باتیں کہنے پر فارغ کر دیا اور اب سینیٹر پرویز رشید کو انگریزی اخبار ’’ڈان‘‘ میں شائع ہونے والی ایک خبر کے بارے میں کوتاہی برتنے پر فارغ کیا گیا ہے۔ یہ خبر 6؍ اکتوبر کو شائع ہوئی۔ حکومت تین ہفتوں میں اس خبر کا سورس تلاش نہیں کر پائی۔ پرویز رشید کی کوتاہی یہ ہے کہ جب خبر لکھنے والے صحافی سرل المیڈا نے 5؍ اکتوبر کو ان سے رابطہ کر کے خبر کی تصدیق کرنا چاہی تو انہوں نے خبر کی تردید کر دی لیکن خبر رکوانے کے لئے کچھ نہیں کیا۔ اب اس سارے معاملے کی نئے سرے سے تحقیقات ہوں گی اور سرل المیڈا کا سورس تلاش کیا جائے گا۔ معاملہ ختم نہیں ہوا بلکہ نئے سرے سے دوبارہ شروع ہو گیا ہے۔ پرویز رشید کے فارغ ہونے پر عمران خان فتح کے شادیانے بجا رہے ہیں۔ نواز شریف نے پرویز رشید کو نہیں بلکہ اپنے آپ کوفارغ کر دیا ہے۔ پرویز رشید ان کی حکومت اور پارٹی دونوں کے ترجمان تھے۔ شاید پرویز رشید سے بھی زیادہ اہم کسی شخصیت کو بچانے کے لئے یہ قربانی دی گئی ہے لیکن بات ایک قربانی پر نہیں رکے گی۔ جس طرح معراج محمد خان کو غداری کے ایک مقدمے میں ملوث کیا گیا اسی طرح کچھ اہم حکومتی شخصیات کو بھی کسی ایسے ہی مقدمے میں ملوث کرنے کی کوشش ہو گی لیکن یاد رکھئے گا۔ بھولئے گا نہیں۔ حیدر آباد سازش کیس جن جرنیلوں نے بنوایا تھا انہوں نے بھٹو کی حکومت ختم کرنے کے بعد اسے انجام تک نہیں پہنچایا بلکہ اسے خود ہی ختم کر دیا۔
ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس ملک میں سیاستدانوں سے بڑی غلطیاں فوجی ڈکٹیٹروں نے کی ہیں جنہوں نے اپنے فوجی اڈے غیر ملکی طاقتوں کے حوالے کر کے قومی سلامتی کا سودا کیا لیکن جمہوریت کے نام پر سیاستدانوں کی غلطیوں اور جرائم کا دفاع کرنا بھی غلط ہے۔ آج پاکستان کو جس افراتفری اور انتشار کا سامنا ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ نواز شریف نے سات ماہ سے پاناما پیپرز کے معاملے کو لٹکا رکھا ہے۔ عمران خان کی طرف سے اسلام آباد کو بند کرنے کا اعلان غلط تھا تو حکومت کی طرف سے اسلام آباد کے راستے بند کرنا بھی غلط ہے۔ یہ راستے بند کرنے کی وجہ سے ایک فوجی افسر کی جان چلی گئی۔ تحریک انصاف نے پشاور میں دفعہ 144لگا رکھی ہے اور مسلم لیگ (ن) نے اسلام آباد میں دفعہ 144لگا دی۔ وجوہات مختلف ہیں لیکن دونوں جماعتیں برطانوی سامراج کے بنائے گئے ظالمانہ قوانین کا سہارا لے رہی ہیں۔ نواز شریف اور عمران خان کی غلطیوں پر تنقید کی آڑ میں پاکستان کو آمریت کی طرف دھکیلنا ملک دشمنی کے مترادف ہے۔ نواز شریف جمہوریت کے لئے نہیں بلکہ اپنے اقتدار کے لئے لڑ رہے ہیں۔ اگر وہ جمہوریت پسند ہوتے تو میمو گیٹ کے معاملے میں بھی جمہوریت کا خیال رکھتے۔ آج ان پر وہی الزام لگایا جا رہا ہے جو میمو گیٹ میں پیپلز پارٹی کی حکومت پر لگایا گیا اور پیپلز پارٹی نے حسین حقانی کو فارغ کیا تھا۔ یہ معاملہ حسین حقانی پر ختم نہیں ہوا تھا بلکہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھی فارغ ہو گئے۔ اب یہ نیا معاملہ پرویز رشید پر ختم نہیں ہو گا بلکہ اور آگے بڑھے گا۔




.
تازہ ترین