• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کل رات سپر چاند کو دیکھتے ہوئے اور بہت سے اجلے اور روشن چہروں کے ساتھ اپنے محبوب شاعر احمد مشتاق اور ان کا یہ شعر بھی یاد آیا؎چاند اس گھر کے دریچوں کے برابر آیادل مشتاق ٹھہر پھر وہی منظر آیامعلوم نہیں یہ منظر کتنی مرتبہ اس شعر کے ساتھ نظر آچکا ہے۔ پھر بھی ہر مرتبہ نئے منظر کی صورت نظر آتا ہے اور نظر آتا رہے گا۔ جن دو اجلے اور روشن چہروں نے یہ سپر چاند نہیں دیکھا ہوگا کیونکہ سپر چاند کے منظر عام پر آنے سے پہلے وہ منوں مٹی کے نیچے دفن ہو چکے تھے یاورحیات خان اور جہانگیر بدر ہیں جو اب ہمیں بھی دکھائی نہیں دے سکیں گے اور یہ دونوں مجھے منو بھائی کی بجائے ’’منوجی‘‘ کے طور پر مخاطب یا یاد کیا کرتے تھے۔بہت سال پہلے اسلام آباد کے گریڈوں کے قبرستان میں سید عابد علی شاہ کی تدفین کے بعد سید بابر علی شاہ کے ہمراہ قبرستان کی قبروں میں سے گزرتے ہوئے بہت سارے دوستوں کی قبریں دیکھ کر میں نے سید بابر علی شاہ سے کہا کہ ہمارے زیادہ تر دوست تو اس نئے شہر میں آچکے ہیں۔ ہم کہاں جارہے ہیں یہ بابر علی شاہ نے کہا کہ ہم بھی ادھر ہی جارہے ہیں جدھر وہ سارے جا چکے ہیں۔سید بابر علی شاہ کے اس بیان کے حوالے سے سید عابد علی شاہ، یاور حیات خاں اور جہانگیر بدر جیسے لوگوں کو کچھ زیادہ عرصہ تنہا نہیں رہنا پڑے گا اور ہم سب انہیں جا ملیں گے لیکن اس سے پہلے اپنے دوستوں اور عزیزوں کی طرف سے چھوڑ جانے والی جگہوں پر اپنے دنیاوی فرائض کی انجام دہی پر توجہ دینی پڑے گی۔ اپنے دوستوں اور عزیزوں کی طرف سے چھوڑ جانے والی دنیا پر توجہ دیں تو دنیا کی اکلوتی سپر پاور امریکہ کے صدارتی انتخابات کے نتائج کے مطابق مسٹر ٹرمپ کے صدر امریکہ بن جانے سے کرہ ارض کے عرض بلد اور طول بلد میں تھوڑی بہت ہل چل دکھائی دینے لگی ہے اور گزشتہ ستر سالوں سے ہم اس نوعیت کی ہل چل میں عملی طور پر حصہ دار رہے ہیں اور امید کی جاسکتی ہے کہ آئندہ کے دنوں میں حصہ دار رہیں گے۔آنے والے دنوں میں ہم پاکستانیوں نے جن حالات میں سانس لینے کی کوشش کرنا ہے وہ چین، پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ پر عمل درآمد کی صورت حال سے پیدا ہونے والے حالات ہوں گے اور ان حالات کی مخالفت ہندوستان اپنے آنے والے فرائض میں شمار کرتا ہے مگر کچھ اندازہ لگانے کی پوزیشن میں نہیں ہوسکتا کہ عالمی سطح پر کس نوعیت کے حالات امریکہ بہادر کو درپیش ہوسکتے ہیں اور مسٹر ٹرمپ ان حالات کا مقابلہ کس انداز میں کرسکتے ہیں اور اپنے مستقبل قریب کے انداز کے پیش نظر امریکہ کو کس طرف لے جاسکتے ہیں۔ کسی طرف لے جا بھی سکتے ہیں یا نہیں؟ سوچا جاسکتا ہے کہ اگر امریکہ کے موجودہ صدر اپنی کالی رنگت کے بل بوتے پر کوئی مثبت اور دور رس تبدیلی لانے میں کچھ زیادہ کامیاب نہیں ہوسکے تو مسٹر ٹرمپ کس حد تک کامیاب ہوسکتے ہیں۔ آنے والے حالات میں چین کی اہمیت سے انکار کرنا مشکل ہی ناممکن بھی ہوگا اور اس اہمیت کو چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبے کے ذریعے دیکھنے کی ضرورت ہوگی اور دکھائی دے رہا ہے کہ آنے والے حالات میں ایشیا کی تمام طاقتیں اس راہداری میں برابر کی حصہ دار بننے کی کوشش کریں گی۔ وسط ایشیا کی ریاستیں اور ایران بھی ان طاقتوں سے باہر نہیں ہوگا اور اگر اس منصوبے کو اس کا عملی تعاون بھی حاصل ہوگیا تو پھر یہ منصوبہ دنیا کے بڑے منصوبوں میں شامل ہو جائے گا اور اس کے اثرات سے امریکی مفادات بھی لاتعلق نہیں رہ سکیں گے۔



.
تازہ ترین