• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاک چین اقتصادی راہداری کو کامیابی کے مراحل سے بتدریج گزرتا دیکھ کر بھارت بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بھارت نے کنٹرول لائن پرمسلسل بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری سے پاکستان کے خلاف غیر اعلانیہ جنگ چھیڑ دی ہے تاہم اس نازک صورتحال میں پاکستان کی سول اور فوجی قیادت نے بڑی حکمت و دانائی کا ثبوت دیا ہے۔ 2003ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جموں و کشمیر کی کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری کے حوالے سے سیز فائر معاہدہ طے پایا تھا۔ اس معاہدے کی بھارت نے بارہا خلاف ورزی کی لیکن 14نومبر کوپیر کی علی الصبح بھمبر سیکٹر پر ہونے والی حالیہ بھارتی جارحیت گزشتہ 13سال میں سنگین ترین کارروائی تھی۔ اس افسوس ناک کارروائی میں پاکستان کے سات فوجی جوان جام شہادت نوش کر گئے۔ پاک فوج نے بھی جوابی کارروائی میں نہ صرف بھارت کی کئی چیک پوسٹوں کو تباہ کیا بلکہ متعدد بھارتی فوجیوں کو بھی ہلاک کردیا گیا۔ بھارت کی یہ پالیسی ہے کہ وہ اپنے فوجیوں کی ہلاکتوں کو مسلسل چھپا رہا ہے اور وہ دنیا کو یہ تاثر دے رہا ہے کہ پاکستان چونکہ مقبوضہ کشمیر میں حالات خراب کر رہا ہے اس لئے انڈیا پاکستان کے خلاف بارڈر پر کارروائیاں کررہا ہے۔ یہ ہندوستان کا جھوٹا اور بے بنیاد پروپیگنڈہ ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی دراصل کشمیریوں کی حق خود ارادیت کی تحریک ہے۔ گزشتہ 132دنوں سے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ ہے۔ بھارتی فوج نے نہتے اور مظلوم کشمیری مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ دیئے ہیں۔ گزشتہ چار ماہ سے جاری تحریک آزادی کے دوران انڈین آرمی نے پیلٹ گنوں کا استعمال کر کے سینکڑوں کشمیریوں کو شہید اور ایک ہزار سے زائد بچوں اورخواتین سمیت نوجوانوں کو بینائی سے محروم کر دیا ہے۔
بھمبر میں بھارتی جارحیت کے حالیہ واقعہ کا بھی وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف راحیل شریف نے سختی سے نوٹس لیا ہے۔ مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز نے بھی پاکستان اور بھارت میں متعین اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھارتی جارحیت کی ہنگامی رپورٹ سلامتی کونسل میں پیش کریں کیونکہ اس سے خطے کا امن خطرے میں پڑ گیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک تیز ہونے کے بعد اکتوبر سے اب تک لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر بھارتی فوج 236بار جارحانہ کارروائیاں کرچکی ہے۔ اگر چہ پاک فوج اور رینجرز نے بھارتی جارحیت کا اب تک منہ توڑ جواب دیا ہے جبکہ جوابی کارروائی کے نتیجے میں بھارت کا تین گنا زیادہ جانی ومالی نقصان ہوا ہے۔ انتہاپسند نریندرمودی کے بعداب ایک اور شدت پسند ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکی صدر بننا پاکستان کے لئے شدید تشویش کا باعث ہے۔ اسی تناظر میں پاکستانی حکومت بھارت کو کوئی بھی ایسا موقع نہیں دے رہی جس کے ذریعے وہ اپنے مذموم اور ناپاک عزائم میں کامیاب ہوسکے۔ گوادر پورٹ سے پہلے سی پیک بحری تجارتی جہاز کی روانگی بھارت کو ہضم نہیں ہو پا رہی۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کہ بھمبر سیکٹر میں انڈین آرمی کی طرف سے آرٹلری کو استعمال کیا گیا اور بھاری توپ خانے سے گولہ باری کی گئی۔ توپ خانے کا استعمال عمومی طور پر روایتی جنگوں میں کیا جاتا ہے۔ بلوچستان میں حالیہ دہشت گردی کے تانے بانے بھی انڈیا سے جاملتے ہیں۔ بھارتی ایجنٹ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور انکشافات سے ساری کہانی کھل کر سامنے ا ٓگئی ہے۔ کوئٹہ میں وکلا برادری، پولیس ٹریننگ سینٹر اور چند روز قبل درگاہ شاہ نورانی پر حملہ ایک سوچی سمجھی سازش دکھائی دے رہی ہے۔ گوادر بندرگاہ سے سی پیک کے پہلے بحری جہاز کی روانگی سے ایک روز قبل درگاہ شاہ نورانی پر حملہ کروایا گیا اور اقتصادی راہداری کے پہلے پائلٹ پروجیکٹ کے افتتاح کے فوری بعد بھمبر سیکٹر پر بلا اشتعال گولہ باری کرکے بھارت نے پاکستان کو واضح پیغام دیا ہے کہ وہ پاکستان کی ترقی کا کھلا دشمن ہے اور وہ کسی بھی قیمت پر جنوبی ایشیا میں ہمیں مرکزی کردار اداکرتے ہوئے دیکھنا نہیں چاہتا۔ گوادر جنوبی ایشیا اور سینٹرل ایشیا کا گیٹ وے ہے۔ مغربی ممالک کے لئے بھی یہ ایک کھلا دروازہ ہے۔ ساری دنیا کی نظریں اس وقت پاک چین اقتصادی راہداری پر لگی ہوئی ہیں۔ امریکہ اور بھارت کے عزائم اس حوالے سے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ اس وقت سعودی عرب اور ترکی سی پیک کے معاملے پر پاکستانی حکومت کو مکمل سپورٹ کررہے ہیں۔ ایران نے بھی سی پیک میں حصہ دار بننے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ اقتصادی راہداری منصوبے کا فائدہ جنوبی ایشیا کے تمام ممالک کو ہو گا۔ ایران کے سی پیک میں شامل ہونے سے اُسے بھی اس کے ثمرات حاصل ہو سکیں گے۔ اسی طرح ترکی، سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے ملکوں کو بھی اس سے خاطر خواہ فائدہ مل سکتا ہے۔ پاکستان اور چین دونوں اس عظیم منصوبے کے مستقبل کے بارے میں پُرامید ہیں کہ ان شاء اللہ یہ پروجیکٹ خطے میں بڑی تبدیلی لائے گا۔ پاکستان میں جب سی پیک کی وجہ سے خوشحالی آئے گی تو پھر ہمیں غیر ملکی قرضوں کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ عالمی طاقتیں اسی لئے سی پیک کے آگے رکاوٹیں کھڑی کررہی ہیں کیونکہ انہیں علم ہے کہ اگر پاکستان ترقی کرتا ہے تو وہ پھر ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کا غلام نہیں رہے گا۔ چونکہ بڑی طاقتیں پاکستان کو معاشی طور پر آزاد نہیں بلکہ غلام دیکھنا چاہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کی کارروائیوں کو تیز کیا گیا ہے۔ خطے میں امن اور بہتری لانے کے لئے پاکستان، چین، ایران اور افغانستان کو ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کو زیادہ بہتر اور مضبوط بنانا ہو گا۔ ہندوستان بھی اگر سی پیک کے فوائد سمیٹنا چاہتا ہے تو پھر اُسے پاکستان میں مداخلت بند کرنا ہو گی اور مسئلہ کشمیر کو بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنا ہو گا۔ اب انڈیا کو بھی اس حقیقت کا ادراک کرلینا چاہئے اُسے افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں ریشہ دوانیوں سے کچھ نہیں ملے گا۔ لائن آف کنٹرول پر غیر اعلانیہ جنگ چھیڑ کر بھی وہ سی پیک کے خوشحالی کے سفر کو نہیں روک سکا۔ پاکستان میں چینی سفیر کابھی کہنا ہے کہ پاکستان اور چین کی شراکت داری پر انہیں فخر ہے۔ ڈیڑھ سال پہلے اس منصوبے کا اعلان کیا گیا اور اب یہ حقیقت کا روپ دھارچکا ہے۔ سی پیک آپریشن کے کامیاب آغاز پر یقیناً پوری پاکستانی قوم مبارکباد کی مستحق ہے۔

.
تازہ ترین