• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی صدارتی الیکشن ہوگیا اور اکثریت کی توقعات کے برخلاف ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ الیکشن اچھی بھلی اکثریت سے جیت لیا۔ اور ہیلری کلنٹن کو زندگی کا سب سے بڑا ناخوشگوار دھچکہ لگا۔ اب امریکہ کے کئی شہروں میں ٹرمپ کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں۔ وہاں کے لوگ بھی جمہوریت کی دھجیاں اُڑارہے ہیں۔ ہٹلر بھی اسی طرح پاپولر ووٹ کی مدد سے جرمنی کا چانسلر بنا تھا اور تباہی پھیلا دی تھی۔ دوسری جنگ عظیم میں تقریباً چھ کروڑ لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ آج میں سیاست و الیکشن پر نہیں دو اعلیٰ کتب (نوادرات) پر تبصرہ کرنا چاہتا ہوں۔
(1) پہلی کتاب’’ خاموش فلاح کار‘‘ (محمود الحق علوی کی داستانِ ایثار) ہے۔ اس کے مصنف یا کمپائلر پروفیسر ایئرکموڈور اسلم بزمی ہیں۔ اور اس کو بہت ہی خوبصورت پیرایہ میں شائع کیا گیاہے۔مرحوم جناب محمود الحق علوی ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ جب ہم نےا پنا پروگرام شروع کیا تو تعمیر کا کام علوی صاحب کی کمپنی اور چند چھوٹے ٹھیکیداروں کو دیدیا۔ یہ حکمت عملی بہت کارآمد رہی اور سب نے وقت مقررہ سے پہلے اپنے پروجیکٹس مکمل کردیئے۔ اسی دوران میرا قریبی رابطہ علوی صاحب اور راجہ ارشد محمود سے رہا۔ دونوں نہایت شریف النفس، ایماندار، محنتی اور کام کی تکمیل کی تاریخ پر قائم رہتے تھے۔ کام کی تکمیل کے بعد بھی میرا اُن سے قریبی رابطہ رہا۔ دونوں نہایت نرم دل اور مخیر طبع انسان تھے۔ راجہ صاحب ماشاء اللہ ابھی حیات ہیں نوجوان ہیں اور اکثر ملتے رہتے ہیں اور فلاحی کاموں میں حصّہ ڈالنے کو ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ علوی صاحب کا بھی یہی حال تھا جب کوئی ضرورت مند آیا اور میں نے ان کے پاس بھیجا تو وہ کبھی خالی ہاتھ یا ناکام نہیں گیا۔ لاکھوں روپیہ کی مدد کردیا کرتے تھے۔ آج یہ کالم ان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ہے۔
محمود الحق علوی آج کے دور میں ایک عدیم المثال انسان تھے جنہوں نے کئی دہائیوں سے اپنی صلاحیتوں‘ توانائیوں اور مالی وسائل کا ایک کثیر حِصّہ خدمتِ خلق کے لئے وقف کر رکھا تھا۔ وہ اپنے مخصوص درویشانہ انداز میں خاموشی کے ساتھ بلا امتیازِ مذہب، رنگ و نسل بھلائی کے نت نئے کاموں میں متحرک اور سرگرم رہنے کے عادی تھی۔ علوی صاحب تمام عمر ’’نیکی کر دریا میں ڈال‘‘ کے فلسفے پر کاربند رہے۔ وہ علامہ اقبالؒ کے اس شعر کی کامل تصویر تھے:
شرابِ روح پرور ہے محبت نوعِ انساں کی
سکھایا اس نے مجھ کو مستِ بے جام و سبُو رہنا
تعریف و تحسین کی خواہش انسانی فطرت کا خاصہ ہے مگر علوی صاحب خودستائی تو کجا دوسروں کی زبان سے بھی اپنے بارے میں حرفِ تعریف سننے کے روادار نہ تھے۔ اگرچہ ان کے جذبۂ خدمت سے فیض یاب ہونے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے مگر وہ اپنی سخاوت اور مہربانیوں کو گمنامی کی حد تک عوام الناس سے اوجھل رکھنے میں بدرجہ کمال کامیاب رہے۔ ان کا یہی وصف اُنہیں دوسری مخیّر اور انسان دوست شخصیات سے ممتاز کرتا ہے۔
کوئی دس سال قبل محمود الحق علوی صاحب نے مجھے لہتڑاڑ روڈ کھنہ پُل کے قریب ایک جگہ کے معائنے کے لئےدعوت دی۔ یہ خالی جگہ ٹرک مالکان اور ٹرانسپورٹروں کے زیرتصرف تھی۔ اس موقع پر علوی صاحب نے یہ جگہ خرید کر پاکستان کے پسماندہ علاقوں کے غریب ہونہار طلبہ کے لئے ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے کے قیام کا تصور پیش کیا۔ 13 جون 2012 کو جب مجھے علوی صاحب کی دعوت پر یہاں دوبارہ آنے کا موقع ملا تو کیڈٹ کالج کی طرز پر تعمیر شدہ ایک جدید کالج بشمول معیاری لیبارٹریز، کلاس رومز، آڈیٹوریم، مسجد، لائبریری اور کینٹین دیکھ کر مجھے خوشگوار حیرت ہوئی۔ صاف ستھری وردی میں ملبوس طلبہ کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ لیبارٹریوں کے معائنے کے دوران میں نے طلبہ کو بڑے انہماک کے ساتھ تجربات کرتے ہوئے پایا۔ میں ان کی علمی سطح سے خاصا متاثر ہوا۔ آڈیٹوریم میں ایک شاندار تقریب منعقد کی گئی جس میں طلبہ کو انعامات اور تعریفی اسناد سے نوازا گیا۔ طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے میں نے اُنہیں تعلیم پر توجہ مرکوز کرنے، دستیاب سہولتوں سے بھرپور استفادہ کرنے، اپنے متعلقہ مضامین میں جذبہ مسابقت کے ساتھ محنت کرنے اور پاکستان کے باشعور شہری بننے کی تلقین کی۔
ان کےٹرسٹ کو اوکاڑہ شہر میں جدید سہولتوں سے آراستہ اعلیٰ معیار کا ایک فری آئی اسپتال قائم کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ ادارہ (برٹش رائل آپتھلمالوجیکل کونسل) سے منظور شدہ ہے۔ یہاں روزانہ 600 بیرونی مریضوں کو علاج و معالجہ کی سہولت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ یومیہ 50 سے زائد آپریشن کئے جاتے ہیں۔
اس وقت اس ٹرسٹ کے زیرکفالت راولپنڈی، اسلام آباد، اوکاڑہ، پاکپتن اور چکوال میں مختلف درجوں کے دس تعلیمی ادارے کام کررہے ہیں۔ ان اداروں کے ذریعے مجموعی طور پر 5000طلبہ و طالبات کو مفت معیاری تعلیم فراہم کی جارہی ہے۔ پاکپتن میں ایک ٹی بی کلینک مفت طبی سہو لتیں مہیا کررہا ہے۔ اسی طرح راولپنڈی میں ایک فری ڈسپنسری اور اسلام آباد کے مضافات کے لئے سفری ڈسپنسری کے انتظامات بھی انتہائی قابلِ تحسین ہیں۔ صرف یہی نہیں اس کو راولپنڈی، پاکپتن اور اوکاڑہ میں انڈسٹریل اسکولز قائم کرنے اور اُنہیں خوش اسلوبی سے چلانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
ان تمام منصوبوں کی کفالت یہ ٹرسٹ کلی طور پر اپنے وسائل سے کررہا ہے۔ محمود الحق علوی صاحب نے کبھی عطیات اور چندوں کا سہارا نہیں لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ میں نے مرحوم علوی صاحب جیسا عجز و انکسار کم ہی لوگوں میں دیکھا ہے۔ وہ سراپا محبت اور پیکرِ ایثار تھے۔ان کی بے پناہ نیکیاں اور بھلائیاں قابلِ صد ستائش ہیں۔ پروفیسر اسلم بزمی کی تصنیف ’’خاموش فلاح کار‘‘ محمود الحق علوی مرحوم کی گراں قدر سماجی خدمات اور ان کی درویشانہ سیرت کو اُجاگر کرنے کی قابلِ قدر کاوش ہے جس کے لئے میں انہیں دِلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
بزمی صاحب نہ صرف علوی صاحب اور ان کے اہلِ خانہ کے دیرینہ شناسائوں میں شامل ہیں بلکہ وہ محمود الحق علوی صاحب کی بعض سربستہ نیکیوں کے عینی شاہد بھی ہیں۔ میں پُر امید ہوں کہ ’’خاموش فلاح کار‘‘ کی کہانی قارئین کے لئے خصوصی دلچسپی کا باعث ہوگی۔آپ کو محمود الحق علوی مرحوم کی فرشتہ خصلت کا اندازہ اس بات سے ہوگا کہ ان کی تعریف میں جنرل فیض علی چشتی، جناب احسن اقبال، جناب ایس ایم ظفر، سید خورشید احمد شاہ، جنرل ندیم احمد، راجہ شاہد ظفر، جنرل فرخ جاوید، پروفیسر ڈاکٹر مختار احمد، حامد میر، پروفیسر عبدالقیوم قریشی، عبدالرزاق سومرو، سردار محمد فواد خان سدّوزئی، رضوان بیگ نے اس کتاب میں مضامین لکھے ہیں۔ اللہ پاک علوی صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور اہل خانہ کو خوش و خرم رکھے۔ آمین
(2) دوسری کتاب ’’اَفکارِ تازہ‘‘ ہمارے نوجوان ڈاکٹر عارف محمود کِسانہ کی ہے۔ اس کو نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کشمیر اسٹڈیز، کشمیر نے شائع کیا ہے۔ ڈاکٹر کِسانہ اس وقت سوئیڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم کے مشہور کلینک کیرولنسکامیں کام کررہے ہیں۔ میں 1964 میں دو ہفتہ کے لئے ڈیلفٹ یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس کے ساتھ سوئیڈن گیا تھا اور اس وقت بھی یہ اسپتال بہت جدید اور مشہور تھا۔ وہ دورہ میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ سوئیڈن بے حد خوبصورت، مالدار اور صاف ترین ملک تھا۔ ڈاکٹر کِسانہ ایک اچھے ڈاکٹر کے علاوہ ایک اچھے صحافی بھی ہیںاور ان کی تحریر یں بہت دلچسپ اور معلومات سے پُر ہوتی ہیں۔
افکار تازہ مختلف موضوعات پر ڈاکٹر کِسانہ کی طبع آزمائی کا شاہکار ہے۔ آپ نے مذہب و سیاست سے لے کر مزاحیہ موضوعات پر اعلیٰ کالم لکھے ہیں۔ آپ کی دوسری کتاب’ سبق آموز کہانیاں‘ اسلامی معلومات پر مبنی بچوں کے لئے دلچسپ و انوکھی کہانیوں پر مبنی ہے۔ افکار تازہ پر ملک کے اچھے صحافیوں (بمعہ ڈاکٹر صفدر محمود صاحب) نے تبصرہ کیا ہے۔ میری نیک دعائیں ڈاکٹر کسانہ کے ساتھ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو اور اہل و عیال کو حفظ و امان میں رکھے، عمر دراز کرے اور خوش رکھے۔ آمین
خط ان کا بہت خوب، عبارت بھی ہے اچھی
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ



.
تازہ ترین