• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ نہ سکول میں میرے ساتھ تھا نہ کالج میں نہ یونیورسٹی میں اور نہ عملی زندگی میں جسے پیشہ ورانہ زندگی بھی کہا جاسکتا ہے۔ روزنامہ’’جنگ‘‘ سے میری وابستگی برسوں پر محیط ہے لیکن صرف کالم نگاری تک محدود اس لئے آفس جانا نہ جانے کے برابر بھی نہیں۔ اول تو گھر سے نکلنا ہی ناگوار بلکہ گھر کے اندر بھی بیڈ روم اور سٹڈی تک محدود۔ جس دن چند منٹ ٹیرس میں گزار لوں یوں محسوس ہوتا ہے آوارہ گردی کے ریکارڈ توڑ دئیے۔ سوائے ہفتہ میں ایک دن ’’میرے مطابق‘‘ کے باقی ہر ریکارڈنگ بھی سٹڈی میں۔ کالم لکھ کر مخصوص جگہ پر رکھ دیتا ہوں، میرا اسسٹنٹ فیکس کردیتا ہے۔ کبھی کوئی پرابلم ہو تو برادربزرگ انو ر قدوائی صاحب بات کرلیتے ہیں یاشفیق مرزا بات کرلیا کرتے تھے۔ وہی شفیق مرزا جن سے دوستی تو کیا، شناسائی بھی محدود تھی لیکن ان کی حادثاتی موت کا سن کر لامحدود دکھ محسوس ہوا۔ میرے وہم و گمان تک میں نہ تھا کہ اس اجنبی کی موت مجھے اتنا زخمی کردے گی۔ گزشتہ پندرہ بیس برس میں گنتی کی چند ملاقاتیں لیکن یوں محسوس ہوا موت میرے جسم و جان کا اک بڑا حصہ چرالے گئی۔ میں ڈیڑھ دن کے لئے ملک سے باہر تھا۔ واپسی پر تھکن سے چور یہ منحوس خبر ملی تو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ تعزیت کس سے کروں، کس کے گلے لگ کے روئوں۔ خستگی و شکستگی کے عالم میں جواد نظیر کو فون کیا کہ ہم دونوں کے علاوہ شاید ہی کچھ لوگ اس راز سے واقف ہوں کہ شفیق مرزا کتنا قابل، عالم و فاضل اور فقیر صفت آدمی تھا۔ صحیح معنوں میں نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا۔ وہ شرافت و نجابت، معصومیت اور علمیت کا جیتا جاگتا شاہکار تھا۔ میری زندگی میں بہت ہی کم لوگ ایسے ہیں جن کے بھولپن اور بانکپن ، سادگی اور سلاست، درویشی اور بے نیازی، گہرائی اور گیرائی نے مجھے اتنا متاثر کیا ہو جتنا شفیق مرزا نے۔ وہ ادارتی صفحہ کے پردے میں چھپا نور تھا اور خوشبو بھی۔ اردو، فارسی، عربی، انگریزی، تاریخ پر کمال دسترس۔یہاں سے گزرا تھا ملک سخن کا شہزادہکوئی نہ جان سکا، ساز و رخت ایسا تھاسطحیت کے مارے ہوئے، تخلیقی سوچ سے عاری، سیلف پروجیکشن کے سفلس میں مبتلا، طمع و ہوس کی زد میں لرزاں اس ماحول میں وہ اپنی قسم کا اکلوتا آدمی تھا۔’’عجیب مانوس اجنبی تھاکہاں سے آیا کدھر گیا وہ‘‘نہ دوستی نہ یاری نہ تعلق نہ واسطہ، نہ میل نہ ملاقات لیکن گھائو اتنا گہرا کہ میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اس شخص کے جدا ہونے پر میرے اندر ایسا خلاء پیدا ہوجائے گا۔ میرے بس میں ہوتا تو میں ’’جنگ‘‘ کے چھوٹے سے ایڈیٹوریل روم میں اس بڑے سے آدمی کی چھوٹی سی تصویر آویزاں کردیتا کہ عالم ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے آنے کی خبر ملتی ہے نہ جانے کی......گمنام شہیدوں کی قبروں جیسے لوگ، آسماں اس کی لحد پر شبنم افشانی کرے۔آج کا باقی کا لم شفیق مرزا مرحوم کے نامیہ ٹریجڈی ہے یا کامیڈی ؟ ندامت محسوس کریں یا نخوت؟ خبر یہ ہے کہ ترک صدر طیب ایردوان کے بیٹے بلال ایردوان کے خلاف اٹلی میں منی لانڈرنگ کے الزام کی تحقیقات شروع ہوگئی ہیں۔ بلال ایردوان پر زیادہ نہیں صرف ایک ارب یورو کاالزام ہے۔ ایک یورو کتنے روپے کے برابر ہوتا ہے؟ کسی منی چینجزسے معلوم کرکے ایک ارب سے ضرب دے لیں لیکن پرابلم یہ ہے کہ عام آدمی تو اتنا بھی نہیں جانتا کہ ایک ارب میں کتنے کروڑ یورو ہوتے ہیں۔ اس سونے پر سہاگہ یہ کہ خود پاکستان کے اندر اس کی اعلیٰ ترین عدالت میں پاکستانی وزیر اعظم کے بچوں کا پاناما بھی زیر سماعت ہے تو میں سوچتا ہوں کہ وہ کون لوگ ہیں جو عالم اسلام کی پسپائی اور پسماندگی کے اسباب اغیار کی سازشوں میں تلاش کرنے سے پہلے اپنے اجتماعی گریبان کی سلائیاں ادھیڑنا بھول جاتے ہیں۔ ابھی تو سابق شاہ ایران رضا شاہ پہلوی، عیدی امین، صدام حسین، زین العابدین، حسنی مبارک اور معمرقذافی وغیرہ وغیرہ کا ذکر باقی ہے اور جو باقی ہیں ان کے کرتوت بھی تب سامنے آئیں گے جب وہ باقی نہیں رہیں گے۔ پچھلے دنوں اک اور برادر اسلامی ملک کے کسی شہزادے کے متعلق مقامی اخباروں میں یہ خبر بھی شائع ہوئی تھی کہ اس نے فرانس میں چھٹیاں مناتے ہوئے سمندر میں کھڑا جہاز پسند کیا اور کھڑے کھلوتے 50کروڑ یورو میں خرید لیا۔ اسے کہتے ہیں حکمرانی اور کہانی سناتے ہیں خلفائے راشدین کی جن کی حکمرانی دیکھ کر انسان حکمرانی کے لفظ سے پناہ مانگے کہ انسانی کمر اتنا بوجھ سہارنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔بادشاہو! تمہیں بادشاہوں نے کہیں کا نہ رکھا اور بادشاہ جمہوری بھی ہوتے ہیں ورنہ سپریم کورٹ مردم شماری کے متعلق رپورٹ مسترد کرتے ہوئے یہ کبھی نہ کہتی کہ حکومت نے فیصلوں پر عمل نہیں کرنا تو سپریم کورٹ کو بند کردے اور لاہور ہائی کورٹ میں یہ جملہ سنائی نہ دیتا کہ’’ملک میں بادشاہت ہے، ادارے ماورائے آئین اقدامات کررہے ہیں‘‘۔




.
تازہ ترین