• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے مخصوص حالات ہیں جہاں پارلیمانی جمہوریت ہونے کے باوجود بھی ملک کے اندرونی اور بیرونی معاملات میں فوج کا کردار خاصہ بھر پور ہوتا ہے۔ نوازشریف چونکہ بطور وزیراعظم بہت تجربہ کار ہیں لہذا انہوں نے اس ٹرم کے دوران حتی المقدور کوشش کی کہ دونوں اداروں کے بہترین تعلقات رہیں مگر پھر بھی ان میں کبھی کبھار رخنہ پڑتا رہا جسے کچھ عناصر نے بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوشش کی مگر وہ ایسا کرنے میں بری طرح ناکام ہوئے۔ نوازشریف نے اپنے ماضی سے سبق سیکھتے ہوئےصبرو تحمل سے کام لیا تاکہ جمہوری نظام پٹری سے نہ اترے۔وہ بار بار راحیل شریف سے ملتے رہے اور انہیں ہر اہم مسئلے پرآن بورڈ رکھا۔ شاید ہی کوئی جمہوری دور ہو جس کے دوران وزیراعظم اور آرمی چیف کبھی اتنی بار ملے ہوں جتنا کہ نوازشریف اور راحیل شریف۔ کبھی بھی کسی ون آن ون میٹنگ میں انہوں نے آرمی چیف کو اپنے سامنے نہیں بٹھایا بلکہ اپنے ساتھ برابر بٹھایا جس کا مقصد ان کو بہت اہمیت دینا تھا کہ وہ بھی حکومت کے امور میں برابر کے شریک ہیں۔2014ء کے دھرنوں کے پیچھے کون تھا اور اس کے کیا محرکات تھے وزیراعظم کو اس کا مکمل ادراک تھا مگر پھر بھی انہوں نے اس بارے میں لب کشائی نہیں کی اور بہترین انداز میں اپنی حکمت عملی بنا کر اس احتجاج سے نپٹ لیا۔ ستم ظریفی دیکھیں کہ بعض حضرات بڑے زور شور سے یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ مقتدر ادارہ ہی پاکستان کی بھارت، افغانستان اور امریکہ کے بارے میں پالیسیاں بناتا ہے مگر جب ان محاذوں پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو مورد الزام وزیراعظم کو ٹھہرایا جاتا ہے اور اس سلسلے میں اسٹیبلشمنٹ کا نام نہیںلیا جاتا۔ اگر امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کشیدہ ہیں، اگر بھارت کے ساتھ جنگ کی سی صورتحال پیدا ہو رہی ہے، اگر افغانستان بھی پاکستان کا دشمن بنا ہوا ہے اور ایران کے ساتھ بھی تعلقات بہت اچھے نہیں ہیں تو کیا اس سب کے ذمہ دار صرف وزیراعظم ہیں ؟۔
باوجود اس کے کہ جنرل راحیل شریف کی ٹرم کے دوران کئی مواقع پر حکومت اور فوج کے تعلقات کافی کشیدہ ہوئے۔ اگر وزیراعظم نے دانشمندی سے کام لیا تو آرمی چیف نے بھی انتہائی سمجھداری دکھائی جس کی وجہ سے جمہوریت کا تسلسل جاری رہا۔ راحیل شریف کویہ بھرپور کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے سازشی عناصر کی باتوں پر کان نہیں دھرا۔ اسی وجہ سے ہی جب وہ رخصت ہو رہے ہیں تو ہر کوئی ان کی تعریف کر رہا ہے جس کے وہ حق دار ہیں۔ حکومت بھی انہیں انتہائی عزت و احترام سے رخصت کر رہی ہے جو کہ بہت احسن روایت ہے۔ اگرچہ وہ بڑے بھرپور انداز میں ملک کی اہم اندرونی اور بیرونی پالیسیوں میں فوج کے کردار کو منواتے رہے پھر بھی انہوں نے انتہائی غیر آئینی اقدام نہیں کیا۔ اگر وہ ملازمت میں توسیع لے لیتے تو وہ چند سال مزید چیف تو رہ جاتے مگر ان کی بھی عزت جنرل اشفاق پرویز کیانی کی طرح نہ رہتی۔ راحیل شریف نے شہداء کے خاندان کا سپوت ہونے کا بہترین ثبوت دیا ہے۔ ان کی کامیابیوں میں ہمیشہ سر فہرست ضرب عضب رہے گا جس نے پاکستان سے دہشتگردی کا خاتمہ کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن ان کے آرمی چیف بننے سے دو ماہ قبل ہی شروع ہو چکا تھا جس کے بارے میں انہوں نے بڑی کمٹمنٹ دکھائی اور شہر کی روشنیاں واپس آگئی ہیں۔ کراچی میں جو جن پچھلی تین دہائیوں سے قتل و غارت، لوٹ مار اور بھتہ خوری کے ذریعے اس شہر کو نگل رہا تھا وہ واپس بوتل میں بند کردیا گیا ہے۔ یہ مافیا نہ سمجھے کہ آرمی چیف کی تبدیلی کے بعد کراچی کے بارے میں پالیسی بدل جائے گی کوئی بھی ایسا کرنے کا سوچ نہیں سکتا۔
دنیا کے کسی ملک بھی ایسا نہیں ہے جہاں آرمی چیف یا اس کی تقرری کو اتنی اہمیت دی جاتی ہو جتنی کہ پاکستان میں۔ بیرونی دنیا میں آرمی چیف کا نام تک بھی معلوم نہیں ہوتا۔ ان کی تقرری ایک بالکل معمول کی بات ہوتی ہے نہ کوئی لابنگ ہوتی ہے نہ کوئی بہت بڑا طوفان کھڑا ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی اس بارے میں بہت زیادہ باتیں کی جاتی ہیں کہ ان میں سے کون چیف بنے گا۔ ہمارے ہاں چونکہ فوج ایک لمبے عرصے تک اقتدار میں رہی ہے اور جمہوری دور کے دوران بھی اس کی مختلف معاملات میں بڑی مداخلت رہتی ہے لہذا آرمی چیف کی تقرری ایک بہت بڑا ایونٹ بن جاتا ہے۔ کچھ جنرلز کو بائی پاس کر کے نوازشریف کا پرویزمشرف کو آرمی چیف بنانے کا تجربہ بہت خوفناک ثابت ہوا تاہم راحیل شریف کے بارے میں ایسا ہی تجربہ اچھا رہا۔ اب وزیراعظم کے سامنے چار سینئر جنرلز یعنی زبیر حیات، اشفاق ندیم، جاوید اقبال رمدے اور قمر جاوید باجوہ کے نام موجود ہیں جن میں سے وہ ایک کو آرمی چیف اور کسی دوسرے کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی مقرر کر دیں گے۔ یہ تمام جنرلز ایک ہی کورس کے ہیں۔
یہ وزیراعظم کی مکمل صوابدید ہے کہ وہ جس کو چاہیں جو عہدہ دے دیں۔ تقریباً ہر بار آرمی چیف کی تقرری کے بعد ایسے جنرلز جو اپنے ان ساتھیوں جن کو یہ عہدہ دیا جاتا ہے سے سینئر ہوتے ہیں فوج سے مستعفی ہو جاتے ہیں۔ یقیناً ایسی تقرریاں کرتے ہوئے وزیراعظم کے سامنے بہت سی رپورٹس بھی ہوتی ہیں اور ان جنرلز کی سروس کے دوران کارکردگی بھی۔ ان کے اس اختیار کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ تقریباً تمام ریٹائرڈ جنرل جو کہ مختلف ٹی وی چینلوں پر اپنی آرا کا اظہار کرتے ہیں کا کہنا ہے کہ یہ چاروں جنرلز آرمی چیف بننے کے اہل ہیں کیونکہ جو افسر بھی لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر پہنچتا ہے وہ بہت سے مراحل اور اسکروٹنی سے گزرتا ہے۔ یہ تمام جنرلز 2014ء کے دھرنوں کے دوران مختلف اہم عہدوں پر موجود تھے اس کے علاوہ انہوں نے نوازشریف حکومت کے پچھلے تین سال کو بڑے غور سے دیکھا ہے اور وزیراعظم ان کی کارکردگی سے بھی کسی حد تک آگاہ ہیں۔


.
تازہ ترین