• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک صاحب حج کرکے آئے اور سیدھے اپنے بزنس پارٹنر کے پاس پہنچے۔ وہ انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوا کہ موصوف ان کے ساتھ جو فراڈ کرتے رہے ہیں اس کی معافی تلافی کے لئے آئے ہیں۔اس نے موصوف کا پرجوش تپاک کیا، حج کی مبارکباد دی، جس پر موصوف نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا’’میری طرف آپ کی جو رقم بنتی ہے وہ کھاتہ مجھے دکھائو‘‘اس نے کھاتہ کھول کر ان کے سامنے رکھ دیا، موصوف نے کھاتے میں اپنے نام پر انگلی رکھی اور اپنے بزنس پارٹنر سے کہا’’میرے نام سے پہلے حاجی لکھ دو‘‘ اور خدا حافظ کہہ کر چلے گئے۔
ان دنوں ہمارے ہاں کچھ اسی قماش کے حاجی آرہے ہیں، لاہور میں ایک اسی طرح کے حاجی صاحب تھے، وہ گوالمنڈی میں سینما کے باہر نان چھولے بیچا کرتے تھے اور بہت بڑے بڑے لوگ ان کے پاس صرف ان کی نئی نئی ایجاد کردہ گالیاں اور ان کے برجستہ جملے سننے کے لئے ان کے پاس آتے تھے۔ ان کی اس’’شاندار‘‘ شخصیت کی وجہ سے لوگ ان کو حاجی .......کہتے تھے۔ یہ ڈیش میں نے اس لئے ڈالی ہیں کہ جو انہیں کہا جاتا تھا اور جسے وہ پوری خوشدلی سے قبول کرتے تھے، وہ میں لکھ نہیں سکتا اور اگر لکھ بھی دوں تو وہ چھپ نہیں سکتا چنانچہ آپ یہ سمجھیں کہ لوگ انہیں حاجی حلالی کہتے تھے، ان کا وہ نام جو میں نے آپ کو نہیں بتایا، صرف حلالی کہہ کر اشارہ دے دیا ہے کہ انہیں کیا کہا جاتا تھا۔ ان کا یہ نام اس قدر عام اور اتنا مستعمل تھا کہ خود انہیں اپنا اصلی نام یاد نہیں رہا تھا۔ ان کی ’’حلال زدگیوں‘‘ کا یہ عالم تھا کہ ایک دن ممتاز شاعر شہزاد احمدمرحوم ان کے پاس گئے اور ایک پلیٹ چنے اور ایک نان کھانے کے بعد پوچھا’’حاجی کتنے پیسے؟‘‘حاجی نے کہا’’نہیں یار کوئی پیسہ نہیں‘‘ شہزاد نے اسے سمجھایا کہ ’’یاری دوستی اپنی جگہ مگر دکانداری میں اس طرح کی مروت نہیں چلتی، تم مجھے پیسے بتائو‘‘ حاجی نے جواب دیا’’تم جو چاہو کہو مگر میں نے پیسے نہیں لینے‘‘ شہزاد نے جب بہت اصرار کیا تو حاجی نے کہا’’دیکھ یار شہزاد شام کا وقت ہے اب گاہک کوئی نہیں آنا تم نہ آتے تو میں نے ویسے بھی یہ سب کچھ کتوں کے آگے ہی ڈال دینا تھا‘‘۔
جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا کہ حاجی کے دوستوں میں مختلف شعبوں کے صف اول کے افراد شامل تھے۔ ایک دفعہ ماضی کے ممتاز فلمساز حسن طارق اس کے پاس آئے اور کہا ’’یار حاجی ،میں نے سنا ہے تم مجھ سے ناراض ہو‘‘ حاجی نے جواب دیا’’نہیں، میں تم سے ناراض نہیں ہوں‘‘ حسن طارق نے کہا،’’ مجھے بہت سے دوستوں نے بتایا ہے کہ حاجی تم سے ناراض ہے‘‘ حاجی ’’حلالی‘‘ بولا’’ یار میری تمہاری ناراضی بنتی ہی نہیں، تم اتنے بڑے فلمساز میں ایک غریب چھولے بیچنے والا، میری تمہاری کیا ناراضی ہے؟ ہاں ان دنوں تم جو فلم بنارہے ہو، وہ جب مکمل ہوگی سینمائوں میں لگے گی، بری طرح فلاپ ہوگی اور اس کے بعد تم میرے سامنے چھولے لگائو گے اس وقت میری تمہاری’’لگ ‘‘ سکتی ہے، اس سے پہلے ناراضی کا کوئی جواز ہی نہیں ہے۔‘‘
حاجی’’حلالی‘‘ کی ایک بیہودگی بھی بہت مشہور ہے، اس کے ایک دوست کے والد کا انتقال ہوگیا، بے شمار لوگ تعزیت کے لئے اس کے گھر موجود تھے۔ حاجی بھی مغموم چہرے کے ساتھ ان تعزیت کنندگان میں شامل تھا، جنازہ اٹھنے سے کچھ دیر پہلے حاجی اس دوست کے پاس گیا اور تعزیت کرنے کے بعد کہا’’اولاد کے سر پر صرف والدہ ہی نہیں، والد کا سایہ بھی بہت ضروری ہوتا ہے، اللہ نے بہت پہلے تمہیں والد کے سایہ سے محروم کردیا ہے‘‘،دوست نے جواب دیا’’اللہ کے کاموں میں کسے دخل ہے، بس تم دعا کرو‘‘ حاجی نے شفقت سے اس کے کاندھوں پر ہاتھ رکھا اور بولا’’اس کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے، میں جوان ہوں، خوش شکل ہوں، برسرروزگار ہوں، والدہ عدت کی مدت گزارلیں تو میری پیشکش پر سنجیدگی سے غور کرنا‘‘۔ اس روز دوست نے اور اس کے رشتہ داروں نے حاجی کی خاطر خواہ’’عزت افزائی‘‘ کی اور پرانی دوستی دشمنی میں بدل گئی۔
لاہور میں اسی قسم کا ایک کردار اور بھی تھا، اس کا نام مولوی گام تھا، یہ مولوی شولوی کوئی نہیں تھا، بس اسے ایسے ہی مولوی کہتے تھے، جیسے ہمارے عزیر احمد کو خواہ مخواہ ’’حافظ‘‘عزیر احمد کہا جاتا ہے، مولوی گام فلموں میں چھوٹے موٹے کردار کرتا تھا ، لکھنے پڑھنے سے شغف تھا، چنانچہ اپنے وقت کے صف اول کے ادیبوں سے اس کے تعلقات تھے اور ان تعلقات کی وجہ اس کی دلچسپ شخصیت اور حرکتیں تھیں لیکن اس کا ذکر آج نہیں پھر کبھی سہی۔

.
تازہ ترین