• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آئین کے تحت پاکستان میں ہر دس سال بعد مردم شماری کرانا لازمی قرار دیا گیا ہے تا کہ ملک کی درست آبادی کا تعین کیا جا سکے اور صحت و تعلیم سمیت تمام سہولتوں کی فراہمی اور اقتصادی ترقی کیلئے صحیح منصوبہ بندی کے علاوہ عام انتخابات کیلئے ووٹروں کی فہرستوں کی تیاری اور انتخابی حلقہ بندیوں کی تشکیل ممکن بنائی جائے بدقسمتی سے ملک میں 1998ء کے بعد کسی نہ کسی بہانے مردم شماری جیسے انتہائی ناگزیر عمل کو ٹالا جا رہا ہے میڈیا اور عوامی حلقے اس آئین شکنی کی مسلسل نشاندہی کرتے چلے آ رہے ہیں لیکن کسی حکومت نے اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی سپریم کورٹ نے اس غفلت کا بالآخر از خود نوٹس لیا جس کی سماعت جاری ہے حکومت کی جانب سے یہ عذر پیش کیا گیا کہ فوج دوسری مصروفیات کی وجہ سے دستیاب نہیں اس لئے مردم شماری ممکن نہیں جب بھی فوجی اہلکار دستیاب ہوئے مردم شماری کرا دی جائے گی جمعرات کو کیس کی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے دو ٹوک ہدایت دی کہ فوج دستیاب ہو یا نہ ہو مردم شماری 15 مارچ سے 15 مئی تک دو ماہ کے عرصے میں مکمل کرائی جائے اور اس سلسلے میں اگلی سماعت پر جو 7دسمبر کو ہو گی وزیراعظم کے دستخطوں سے باقاعدہ شیڈول عدالت میں پیش کیا جائے ورنہ وزیراعظم کو اپنی وضاحت پیش کرنے کیلئے خود عدالت میں بلایا جائے گا عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی بنچ کے سربراہ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کے ریمارکس تھے کہ حکومت کی مردم شماری کرانے کی نیت ہی نہیں اگر مردم شماری نہیں کرانی تو آئین میں ترمیم کر لیں جمہوری نظام کا دار و مدار مردم شماری پر ہوتا ہے اس کے بغیر انتخابات کا انعقاد عوام کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے کسی کو بھی عوام کی اصل تعداد معلوم نہیں اور حکومتی پالیسیاں ہوا میں بن رہی ہیں چیف جسٹس نے درست کہا کہ 1998ء اور آج کی آبادی میں زمین و آسمان کا فرق ہے مردم شماری نہیں ہو گی تو نئی انتخابی حد بندیاں بھی نہیں ہو سکیں گی مردم شماری کی ضرورت اور اہمیت کے بارے میں فاضل چیف جسٹس اور دوسرے ججوں جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس اعجازالحسن کے ریمارکس اظہر من الشمس ہیں ان کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ اس مسئلے پر کسی سیاسی جماعت نے سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کیا کیونکہ موجودہ صورت حال کا جوں کا توں رہنا سب کے مفاد میں ہے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی کا موقف تھا کہ مردم شماری کیلئے تمام صوبوں کی شمولیت ضروری ہے اس پر جسٹس امیر ہانی مسلم کا کہنا تھا کہ ’’ٹھیک ہے وزیراعظم عدالت میں آ کر کہہ دیں کہ صوبے تعاون نہیں کر رہے‘‘ اٹارنی جنرل کو کہنا پڑا کہ عدالت جو چاہے تاریخ دے ہم مردم شماری کرانے کیلئے تیار ہیں‘‘ اس پر عدالت نے 15 مارچ سے 15 مئی 2017ء کے درمیانی عرصے میں مردم شماری کرانے کے حوالے سے وزیراعظم کے دستخطوں سے باقاعدہ شیڈول پیش کرنے کی ہدایت کر دی ملک میں آخری مردم شماری 1998ء میں ہوئی تھی جس کے مطابق ملکی آبادی 13 کروڑ 8 لاکھ 57 ہزار 717 تھی فرضی تخمینوں کی بنیاد پر کہا جا رہا ہے کہ اس وقت پاکستان کی آبادی 19 کروڑ 17 لاکھ 10 ہزار ہے لیکن عام خیال ہے کہ اصل آبادی 21 کروڑ کے لگ بھگ پہنچ چکی ہے اس کی تصدیق باقاعدہ مردم شماری ہی سے ممکن ہے مارچ 2016ء میں مردم شماری کیلئے 2 لاکھ 7 ہزار فوجی اور سول اہلکار درکار ہیں مردم شماری ہی نہیں کئی دوسرے بڑے کاموں کیلئے فوج کی ضرورت کو ناگزیر قرار دیا جاتا ہے فوج اس کیلئے تیار بھی رہتی ہے مگر اس کا اصل فریضہ ملکی سرحدوں کا دفاع ہے اگر وہ دفاعی مصروفیات کی وجہ سے دستیاب نہیں تو دوسرے کام رک نہیں جانے چاہئیں خاص طور پر مردم شماری کیلئے ایک مستقل طریقہ اختیار کرنا چاہئے تا کہ یہ عمل غیر ضروری تاخیر اور کنفیوژن کا شکار نہ ہو اس کیلئے نادرا سے بھی کام لیا جا سکتا ہے جو ایک بہت بڑے ادارے کی شکل اختیار کر چکا ہے حکومت اور قانون سازوں کو چاہئے کہ وہ اس مسئلے کا مستقل حل تلاش کریں ایسا نہ ہو کہ اس کیلئے بھی عدلیہ کو ہی مداخلت کرنا پڑے۔

.
تازہ ترین