• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کا کالم دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ پاکستان کی ہمسائیگی میں دشمنوں سے متعلق ہے اور دوسرا حصہ ہمارے معاشرے کا بھیانک ’’چہرہ‘‘ ہے۔ میری کوشش ہو گی کہ تمام تر مصلحتوں کو ایک طرف رکھ کے لفظوں کی سچائی کو برقرار رکھوں۔ مجھے یہ موضوع مجبوراً اختیار کرنا پڑ رہا ہے ورنہ میں تو ربیع الاول کے حوالے سے کچھ لکھنا چاہتا تھا کیونکہ جب ربیع الاول کے مبارک مہینے کا چاند نظر آیا تو ان ساعتوں میں میرے سامنے صوفی برکت علیؒ کا مزار تھا، صوفی صاحبؒ سچے عاشق رسول ﷺ تھے پھر کسی روز صوفی صاحبؒ کے بارے میں لکھوں گا، آئندہ کالم عشق محمد ﷺ پر ہو گا۔ فی الحال آج کے موضوع پر بات کرتے ہیں۔
وہ پچھلے سال پاکستان آیا تھا، لاہور کے قریب رائیونڈ میں ایک شادی میں شریک ہوا تھا، اس کا وزیراعظم آیا تھا وہ اپنے وزیراعظم کے ساتھ تھا، اس کا نام اجیت کمار دوول ہے، مسٹر دوول بھارت میں قومی سلامتی کا مشیر ہے، اس سے پہلے وہ وزارت داخلہ اور بھارتی خفیہ ایجنسی را میں رہا، وہ کئی برس سے پاکستان مخالف پالیسیاں بنا رہا ہے، کچھ عرصہ پہلے اس نے را کے افسران کو لیکچر دیا، اس لیکچر میں موضوع پاکستان ہی تھا، وہ پاکستان کے خلاف حکمت عملی بیان کر رہا تھا، وہ کہہ رہا تھا۔۔۔ ’’ہمارے سامنے یہ سوال ہے کہ پاکستان کا مقابلہ کیسے کریں، یہ درست ہے کہ وہ ایک ایٹمی قوت ہے، اس کے پاس ایٹمی ٹیکنیکل ہتھیار ہیں، میزائل ہیں، چین، پاکستان کا دفاعی اتحادی ہے، پاکستان اور چین کی دوستی بہت گہری ہے، یہ بھی یاد رہے کہ بھارت کا چین اور پاکستان کے ساتھ بہت لمبا بارڈر ہے۔ ہم اس صورتحال میں تین طریقوں سے اپنے دشمن کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اس کے لئے نمبر ایک دفاعی طریقہ ہے جیسے اس ہال کے باہر چوکیدار کھڑے ہیں اگر کوئی باہر سے آئے تو اسے کیسے روکیں گے؟ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے دفاع کے لئے وہاں جائیں جہاں سے خطرہ ہے۔ تیسرا طریقہ جارحانہ ہے جس میں ہم سب کو آگے جانا ہو گا۔ آپ کو پتہ ہونا چاہئے کہ ایٹمی حدود جارحانہ طریقے میں مسئلہ پیدا کرتی ہیں لیکن جارحانہ دفاع میں نہیں، جب ہم جارحانہ دفاع سے کام لیتے ہیں تو ہم پاکستان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مثلاً یہ پاکستان کی اکانومی بھی ہو سکتی ہے، یہ پاکستان کی اندرونی سیکورٹی بھی ہو سکتی ہے، اس جارحانہ دفاع کی حکمت عملی میں، پاکستان کی سیاست بھی ہو سکتی ہے، اس میں پاکستان کی بین الاقوامی تنہائی بھی ہو سکتی ہے، میری نظر میں پاکستان کی کمزوری بھارت سے کہیں زیادہ ہے۔ جب پاکستانیوں کو یہ پتہ چلے گا کہ ہندوستان نے جارحانہ دفاع شروع کر دیا ہے تو ان کے لئے مہنگا ہو گا
کیونکہ اس میں پیغام ہو گا کہ اگر تم ممبئی کرو گے تو بلوچستان ہاتھ سے کھو بیٹھو گے۔ دوسری چیز یہ اہم ہے کہ دہشت گردوں کو کس طرح روکیں، کس طرح ان کی بندش ہو، اس کے لئے میں تین چیزوں کو ان کی آکسیجن سمجھتا ہوں، ان تین چیزوں کو روکنا ہو گا، ان کا اسلحہ روک دو، ان کے فنڈز روک دو، ان کی نفری روک دو۔ میرے خیال میں دہشت گردوں کی فنڈنگ روکی جا سکتی ہے، مثلاً ان کی فنڈنگ کو ڈیڑھ گنا کر دیا جائے۔ اگر انہیں بارہ سو کروڑ کی فنڈنگ ہو رہی ہے تو اسے اٹھارہ کروڑ کر دو تو یہ سب ہماری سائیڈ پر ہو جائیں گے پھر یہ ہمارے خلاف کچھ نہیں کریں گے، سوچو یہ کس لئے لڑ رہے ہیں، صرف اس لئے کہ ان کے پاس کوئی نوکری نہیں، انہیں گمراہ کیا گیا ہے، آپ نے یہ سب کچھ خفیہ طریقے سے کرنا ہے۔۔۔‘‘
مجھے اجیت کمار دوول کا یہ لیکچر اس لئے یاد آ گیا ہے کہ افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان کیخلاف زہر اگلا ہے، امرتسر میں اس زہریلی گفتگو کے پس پردہ اجیت کمار دوول کی حکمت عملی ہی تھی، پاکستانی خارجہ مشیر کی بے حرمتی کی گئی، بھارت سفارتی آداب بھی بھول گیا،یہ تو اللہ بھلا کرے پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کا، جس نے بھارتی افسروں کو جھاڑ پلا دی ۔
اتوار کے روز جب یہ کانفرنس ہو رہی تھی تو دوپہر کو مجھے دفاعی امور کی ماہر، قومی اسمبلی کی رکن ڈاکٹر شیریں مزاری کا پیغام ملا کہ سرتاج عزیز کا مودی کے عشایئے میں شریک ہونا انتہائی شرمناک ہے،یہ بات بھی بہت شرمناک ہے کہ مودی نے ایرانی اور افغانی وزرائے خارجہ کو اپنے ساتھ جبکہ سرتاج عزیز کو ایک صحافی کے ساتھ بٹھا دیا، کیا سرتاج عزیز رپورٹنگ کرنے گئے تھے‘‘
ڈاکٹر شیریں مزاری نے وقت سے پہلے خطرات سے آگاہ کیا، وہی ہوا کہ بھارتیوں نے کانفرنس کے روز بھی سرتاج عزیز کے ساتھ توہین آمیز رویہ اختیار کیا، انہیں ہوٹل کے ایک کمرے تک محدود کر دیا جبکہ دوسرے لوگوں کو گولڈن ٹیمپل لے جایا گیا۔ بھارت خطے میں اجیت کمار دوول کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے اس نے افغانستان کو اپنا ہمنوا بنایا ہوا ہے، بنگلہ دیش میں ’’قاتل حسینہ‘‘ مودی کی دوست بنی ہوئی ہے۔
اجیت کمار دوول نے پاکستان کے اندر جو جال بنایا تھا، اسے جنرل راحیل شریف نے توڑ دیا اور خوشی کی بات یہ ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ بھی اسی راستے پر چل رہے ہیں، دہشت گردوں کے خلاف ان کی بھی وہی سوچ ہے جو ان کے پیشرو کی تھی۔جہاں تک سفارتی محاذ پر ناکامیوں کا سوال ہے تو اس سلسلے میں ہمارے سیاسی حکمت کاروں کو سوچنا ہو گا کہ آخر وہ کیوں ناکام ہو رہے ہیں؟ یہ مانا کہ ہم ہمسائے تبدیل نہیں کر سکتے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دشمن ہمیشہ آپ کے دائیں بائیں ہی ہوتے ہیں مسئلہ صرف اتنا ہے کہ دشمن کی حکمت عملی کو کیسے زیر کیا جائے، بھارت کے ساتھ دوستی کے گیت گانے سے پہلے سوچ لینا چاہئے کہ آخر بھارت ہمارا دشمن ہے، اسے سبق سکھانا چاہئے جیسا ہمارے خفیہ اداروں نے کلبھوشن نیٹ ورک پکڑ کر کیا، جیسا ہماری بہادر فوج نے آپریشن ضرب عضب کے ذریعے کیا، یہی کچھ سفارتی محاذ پر نظر آنا چاہئے۔
وطن عزیز کے اندر جرائم کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حقیقت حال سے پردہ اٹھایا جائے تو جرائم پیشہ افراد کے پس پردہ اہل سیاست کے کئی چہرے ہیں، ملک میں پڑھے لکھے افراد کے لئے روزگار کے دروازے بند ہیں، مہنگائی بہت ہے، شہروں کا انتظام چلانے والے یہ سوچ ہی نہیں رہے کہ پنجاب کے بڑے شہر لاہور میں چوری، ڈکیتی اور راہزنی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، پچھلے دنوں ایک حکومتی ایم پی اے انعام اللہ نیازی کو وزیر اعلیٰ ہائوس کے سامنے لوٹ لیا گیا، لوگوں کا نہ مال محفوظ ہے اور نہ ہی عزت وتکریم باقی رہی ہے اسپتالوں کی بری صورتحال ہے، اسکولوں کالجوں کی صورتحال بھی تسلی بخش نہیں ہے، ہر شہر میں چھوٹے چھوٹے ’’چھوٹو گینگ‘‘ ہیں بلکہ حد تک تو یہ ہے کہ جھنگ شہر سے حال ہی میں ایک کالعدم تنظیم کا رہنما صوبائی اسمبلی کا ممبر منتخب ہوا ہے، یہ سیاسی مشینری کے منہ پر طمانچے کے مترادف میرے ایک کلاس فیلو ارفع مجید شیخ بھی اس الیکشن میں حصہ لے رہے تھے مگر ایک شریف آدمی کسی دہشت گرد کالعدم تنظیم کے سامنے کیا کر سکتا ہے، یہاں عجیب صورتحال ہے یہاں تو بھولے اور کیپری کا راج ہے، قاتل کھلے عام پھر رہے ہیں، انہیں کنٹرول کرنا حکومت کی ذمہ داری نہیں تو کس کی ہے؟ شرمناک بات تو یہ ہے کہ لاہور میں ایک اداکارہ قسمت بیگ کے قاتل یہ کہہ رہے ہیں کہ ’’ہم قسمت بیگ کو سبق سکھانا چاہتے تھے۔۔۔‘‘ ان سبق سکھانے والوں کے لئے کوئی سبق ہے؟ بقول رخشندہ نوید؎
اندر بھی اک حبس کا موسم
باہر بھی برسات نہیں تھی


.
تازہ ترین