• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان بھارت تنائو
پورے ایشیا میں امن کو خطرہ،بھارت کے گزشتہ نصف صدی سے انتہاپسندانہ رویوں کے باعث بڑھتا جارہا ہے اور اس کے نتیجے میں ذہنی دبائو تنائو میں مسلسل اضافہ خطے کو مردِ بیمار بنا رہا ہے۔ بھارت کی ہٹ دھرمی اور پاکستان د شمنی عروج پر ہے۔ مگر پاکستان کی جانب سے برداشت اور مدافعانہ انداز نے ایک بڑے خطرے کو تنہا روکا ہوا ہے، بھارت کی بدقسمتی کہ وہاں انتہاپسند ہندو ذہنیت کو پروموٹ کرنے والی حکومت قائم ہے۔ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں بھارت اپنے بغل بچے اشرف غنی کو لے کر بے نقاب ہوچکا ہے جیساکہ وزیراعظم پاکستان محمد نوازشریف نے کہا ہے:بھارت اپنا مکرو چہرہ بے نقاب ہونے پر اوچھی حرکتوں پر اتر آیا ہے جبکہ پاکستان پورے خطے میں امن قائم کرنا چاہتا ہے۔ کانفرنس میں پاکستان پر مودی غنی کی تنقید کو روس نے مستردکردیا کیونکہ روس بھارت کے اصل چہرے کو اچھی طرح جانتا ہے اور اسے یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ بھارت کسی کا دوست نہیں۔ صرف اپنی توسیع پسندانہ پالیسی پرعمل پیرا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ہمسایوں سے جارحانہ برتائو کرتا ہے۔ پاکستان کے وجود کو بھارت میں مخصوص جارحیت پسند طبقہ کے سیاستدان تسلیم نہیں کرتے۔ یہ سیاستدان کسی بھی بھارتی سیاسی جماعت میں موجود رہتے ہیں۔ کانگریس نے اپنے ادوارِ حکومت میں کچھ کم تعصب نہیںبرتا۔ پاکستان کے لئے امن پسندانہ اور غیرجارحانہ رویہ ہی مفید ہے۔ وقت کی ضرورت پاکستان کو اندر سےمضبوط بنانا اور ترقی دینا ہے۔ موجودہ حکومت کی بھارت سے متعلق پالیسی غیرجذباتی ہے جس کے باعث بعض لوگ سیاسی مفاد اٹھانے کےلئے حکومت کو بزدلانہ اور بھارت نواز طرز ِ عمل پر ہدف ِ تنقید بھی بناتے ہیں اگر پاکستان بھی اپنی سیاست بھارت دشمنی کی بنیاد پر چلائے تو پاکستان بھارت میں کیا فرق رہ جائے گا۔ وہاںبھی پاکستان مخالف نعرے لگاتے ہوئے بھارت کولوٹنےوالے حکومت ہتھیا لیتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
بلاول بچہ ہے نہ کچا ہے جی!
بلاول کا ٹویٹ:مرسوںمرسوں سندھ نہ ڈیسوں، ہماری بلاول کے اتالیقوں سے درخواست ہے کہ وہ ’’اُدھر تم اِدھر ہم‘‘ کی تعلیم ابن زرداری کو نہ دیں کہ جس سے بلاول کے خواب بکھر جائیں۔ یہ ٹویٹ پیپلزپارٹی کو علاقائی جماعت بنانے کی سازش ہے اور پاکستان کے عوام اس سے منفی تاثر لیں گے جو کہ پی پی کے لئے ایسی حالت میں مزیدنقصان کا باعث ثابت ہوگا جبکہ وہ پہلے ہی کمرخمیدہ ہوچکی ہے۔ سیاست میں ہمہ گیر فکر ہی غالب رہتاہے۔ کوزہ بند سیاست سے بلاول وزیراعظم تو کیا وزیراعلیٰ بھی نہ بن پائیں گے۔ سیدھی بات کڑوی ہوتی ہے لیکن زرداری صاحب شاید ہماری بات کو سمجھ جائیں اور پی پی کو ملک گیر سیاست کرنے کی تلقین کریں۔ ’’اگلی باری پھر زداری‘‘ جیسا نعرہ لگانا کیا یہ ثابت نہیں کرتاکہ باریاںمقرر ہیں۔ کوئی جمہوریت نہیں محض ایک ڈھونگ ہے اور مقصد صرف اقتدار ہے۔ مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں کی تکرار سے خدانخواستہ اکسی سانحے کی بو آ تی ہے۔ بلاول پورے پاکستان کی بات ہی کریں اور اس مرکزی نکتے سے ہرگز اِدھر اُدھر نہ ہوں۔ کیا بھٹو مرحوم کے زمانے میں ایسا نعرہ لگایا گیا؟ ہم یہاں یہ بھی عرض کرتے چلیں کہ ہمارے تمام پارٹیوں کے رہنما یہ بات دہرانا چھوڑ دیں کہ بلاول تو ابھی بچہ ہے جی کچھ کچا ہے جی، اس طرح تو وہ بڑے ہی نہ ہوپائیں گے۔ بلاول زرداری اپنے اندر وسعت ِ نظر پیدا کریں سیاست کو گھڑا نہ بنائیں اور نہ ہی خود کو گھڑے کی مچھلی۔
٭٭٭٭٭
امریکیوں کی عقل پرحجاب کیوں پڑ گیا؟
نیویارک میں تین امریکی گوروں کا ٹرین میں مسلم طالبہ پر حملہ، حجاب نوچنے کی کوشش۔ ٹرمپ نے سوری کرنے سےپہلے مسلمانوں کے خلاف جو زہر اگلا تھا اس کے اثرات اب ظاہر ہونے لگے ہیں۔ ٹرین میں مسلم طالبہ کا حجاب نوچنا دراصل امریکی آزادیوں کا منہ نوچنے کے مترادف ہے۔ نوچنے کا اتنا ہی شوق ہے تو کھمبا نوچیں۔ امریکہ میں 40لاکھ مسلمان رہتے ہیں۔ کچھ پڑھتے ہیںاور اکثریت امریکہ کی تعمیر و ترقی میں مصروف ہے۔ ڈونلڈٹرمپ اگر صدر بن ہی گئے ہیںتو اپنا امیج بھی بہتر بنائیں اور اپنے ملک کی اس خصوصیت کو برقرار رکھیں کہ وہاں ہر فردکو آزادی حاصل کہ جو چاہے پہنے، کھائے، پیئے، حجاب اوڑھنا قانون کی خلاف ورزی نہیں۔ انسان کی ذاتی آزادی کا معاملہ ہے۔ نسلی مذہبی تعصب امریکہ کو تنہا کردے گا۔ اگر امریکی دوسری قوموں کے افرادکا احترام نہیں کریں گے تو جہاں جائیں گے ا ٓنکھیں ان کونوچیں گی۔ یہ مادرپدر آزادی تو خود کو غلامی میں دھکیلنا ہے۔ اگر ہمارے وزیراعظم امریکہ کے دورے پر جائیں تو کیا وہ ٹرمپ سے کہیں گے کہ مسلمان خواتین کے حجاب کو نوچا نہ جائے مسلم تارکین وطن نے کبھی امریکی بےحجابی پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ آخر مسلمان امریکہ کی اجازت ہی سے امریکہ میں داخل ہوتے ہیں پھر ان کے ساتھ گزشتہ چندبرسوں سے امتیازی رویہ کیوں؟
٭٭٭٭٭
کاغذی ہے پیرہن
٭شیریں مزاری:نوازشریف کی بھارت سے ذاتی دوستی مہنگی پڑ رہی ہے۔
کیا نواز مودی جپھے سے پہلے سستی پڑ رہی تھی؟
٭رحمٰن ملک:افغان صدر اپنے ملک و قوم کا سوچیں مودی کا ترجمان نہ بنیں۔
افغان صدر اپنے ملک و قوم کے صدر کب سے بن گئے جو مودی کے ترجمان نہ بنیں۔
٭ایاز صادق:افغانستان بھارتی زبان نہ بولے،
افغانستان بھارتی زبان نہیں بولتا، صرف اشرف غنی بولتے ہیں۔ویسے انہوں نے مودی سے پشتو نہیں بولی۔
٭بلاول:جاگ پنجاب جاگ، پاکستان جل رہا ہے۔
کیا سندھ جاگ رہا ہےجو پنجاب کو جگا رہے ہیں پاکستان جل رہا ہے یا پی پی کا دل جل رہا ہے۔
٭عمران خان:پی پی کا احتساب بل، وزیراعظم کو بچانے کی کوشش۔
کیا اس ملک میں صرف وزیراعظم رہتے ہیں اب پرنالہ کسی اور جانب بھی پھیر لیں۔ وزیراعظم کی تسبیح گردانی سے کیا حاصل۔ آپکے ہاتھ میں بقول ’’وسان‘‘ وزیراعظم کی لکیر ہی نہیں جسکے آپ ایک زمانے سے فقیر بنے بیٹھے ہیں۔

.
تازہ ترین