• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے اپنے گزشتہ کالم میں لاہور کے ایک کردارمولوی گوتم کے بارے میں لکھنے کا وعدہ کیا تھا، مگر مولوی گوتم کی بجائے مولوی گام شائع ہوگیا۔ قطع نظر اس سہوکے، مولوی گوتم زندہ دلان لاہور کا ایک نمائندہ کردار تھا۔ اس کا اصل نام حامد بشیر تھا مگر فلمساز حسن طارق نے اپنی ایک فلم میں کام دیا تو اس کا فلمی نام گوتم تجویز کیا۔ گوتم کو لوگوں نے مولوی گوتم اس وقت کہنا شروع کیا جب اس نے کچھ عرصے کے لئے داڑھی رکھ لی۔ اس کی وجہ وہ یہ بتاتا تھا کہ پولیس اس کے پیچھے لگی ہوئی ہے اور اس سے بچنے کے لئے اس نے حلیہ بدلا ہے۔ وہ غنڈہ بالکل نہیں تھا، نہایت شریف آدمی تھا مگر اپنا رعب داب ظاہر کرنے کے لئے وہ بازو چوڑے کرکے چلتا تھا۔ مولوی گوتم نے فلموں میں چھوٹے موٹے کردار ادا کئے ، وہ شاعر نہیں تھا مگر اسے کلاسیکی اور عصر حاضر کے شعرا کے بیسیوں اشعار یاد تھے۔ اس کی دوستی اس وقت کے صف اول کے شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں سے تھی بلکہ دوستی بھی بے تکلفی والی تھی۔ وہ امرتسر سے ہجرت کرکے لاہور آیا تھا اور اس کے ادیب دوستوں میں بھی زیادہ تعداد امرتسر سے آئے ہوئے ادیبوں ہی کی تھی۔
مولوی گوتم کی زندہ دلی کا نشانہ بھی زیادہ تر اس کے یہی دوست بنتے تھے۔ مولوی گوتم سے وابستہ درجنوں واقعات ایسے ہیں کہ لگتا ہے اس کی یاد لاہوریوں کے دل سے نہیں جائے گی۔ اس کی معصوم شرارتوں پر ہنسی بھی آتی ہے اور اس کردار سے ایک لگائو سا بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ ایک دفعہ اس نے احمد مشتاق سے شرط لگائی کہ فلم’’سات لاکھ‘‘ کا گانا’’یارو مجھے معاف کرو میں نشے میں ہوں‘‘ سیف الدین سیف کا ہے جبکہ احمد مشتاق کا کہنا تھا کہ یہ میر تقی میر کی غزل ہے۔ دونوں میں سوسورو پے کی شرط لگی اور 1961ءمیں سو روپے ہزاروں روپوں کے برابر تھے۔ اگلے روز احمد مشتاق میر کی کلیات اٹھالائے اور اس میں سے میر کی غزل نکال کر دکھادی۔ مولوی گوتم گیتوں کا ریکارڈ ساتھ لایا تھا جس پر شاعر کا نام سیف الد ین سیف لکھا تھا۔ مولوی گوتم کہتا تھا احمد مشتاق تم کتاب کی بات کررہے ہو میں ’’ریکارڈ‘‘ کی بات کررہا ہوں جب یہ ’’تنازع‘‘ سیف ا لدین سیف تک پہنچا تو انہوں نے کہا کہ ’’مولوی گوتم میرا دوست ہے مگر وہ میری حمایت نہیں کررہا ، مجھے ذلیل کررہا ہے۔ وہ مجھے مل لے میں اس سے نمٹ لوں گا‘‘۔
چشتیہ ہائی اسکول لاہور میں مشاعرہ تھا ایک سے ایک شاعر وہاں موجود تھا شہزاد احمد نے اپنی غزل کا جب یہ شعر پڑھا؎
پھر آج تشنہ لبی کی تھکن سے چور ہوں میں
ذرا سی مجھ کو پلا کر کہیں بھی لے جائو
تو مولوی گاتم اپنی نشست سے اٹھ کھڑا ہوا۔ مولانا چراغ حسن حسرتؔ نے پوچھا’’کہاں جارہے ہیں؟‘‘ بولا’’مطالبہ بہت کم ہےادھارلینے جارہا ہوں‘‘۔ مولوی گوتم نے ایک دفعہ کنگ سرکل ریستوران میں بیٹھے یہ دعویٰ کیا کہ ’’احمد راہی، وارث شاہ سے بڑا شاعر ہے‘‘ احمد راہی کے ایک دوست نے انہیں بتایا کہ’’ مولوی گوتم آپ کا بہت بڑا فین ہے، وہ آپ کو وارث شاہ سے بھی بڑا شاعر کہتا ہے‘‘۔احمد راہی نے ہنستے ہوئے کہا’’میں اس خبیث کو جانتا ہوں یہ اس بیان سے پورے پنجاب سے مجھے جوتیاں پڑوانا چاہتا ہے‘‘۔
تاہم مولوی گوتم کی زندہ دلی کا کلاسیکل واقعہ سیف الدین سیف کے حوالے سے ہے، سیف صاحب کا شعری مجموعہ شائع ہوا تو انہوں نے اپنے دوستوں کو مولوی گوتم کی موجودگی میں اس کا ایک ایک نسخہ پیش کیا مگر مولوی گوتم کو نہیں دیا۔ اس واقعہ کے اگلے روز مولوی گوتم نے سیف سے کہا’’سیف صاحب میں نے اگرچہ یہ شعری مجموعہ بازار سے خرید کر پڑھا ہے، مگر میرا جی چاہتا ہے کہ اس عہد ساز شاعری کی اشاعت پر مبارکباد دوستوں کی ضیافت کی شکل میں دوں، کل میں اپنے گھر پر کھانا رکھ رہا ہوں، آپ ضرور آئیے گا۔ سیف نے اس کی محبت کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ ضرور آئیں گے۔ مولوی گوتم نے اپنے گھر پر پندرہ بیس دوستوں کو مدعو کیا ۔ اس سے پہلے بازار سے سیف صاحب کا شعری مجموعہ خرید کر اس کے صفحات الگ الگ کئے اور گھر کے نیچے واقع پان سگریٹ والی دکان کے مالک بلے کو وہ صفحات تھما کر کہا’’کل میں پان منگوائوں گا، تم نے ان میں باندھ کر بھجوانے ہیں!‘‘۔ کھانا بہت پرتکلف تھا، دوستوں نے اور خصوصاً سیف صاحب نے بہت شکریہ ادا کیا، مولوی گوتم نے پوچھا’’اب چائے چلے گی‘‘ دوستوں نے اثباث میں جواب دیا تو نمکین کشمیری چائے آگئی۔ چائے کے بعد مولوی گوتم نے ایک بچے سے کہا’’دوڑ کر بلے سے پان لے ا ٓئو‘‘ ۔پان آگئے....... سب سے پہلے مولوی گوتم نے پان کی پڑیا کھولی اورحیرت کے انداز میں سیف صاحب کو مخاطب کرکے بآواز بلند کہا’’ہیں!سیف صاحب آپ کا شعری مجموعہ اگلے روز ہی فٹ پاتھ پر آگیا۔ بہت دکھ کی بات ہے‘‘۔ اس پر سیف صاحب نے گوتم کی شان میں بزبان پنجابی جو قصیدے کئے ان کی اشاعت چنداں ضروری نہیں۔
آپ اندازہ لگائیں وہ کیا زمانہ تھا، دوستوں کا کتنا ظرف تھا، مذاق کو مذاق ہی کے طور پر لیتے تھے اور تعلقات میں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ ان دنوں تو ہم پہلے بات کو تولتے ہیں اور تولنے کے بعد خلق خدا کے خوف سے پھر بھی نہیں بولتے، مولوی گوتم تم گریٹ ہو اور تمہارے بلند پایہ دوست تم سے بھی زیادہ گریٹ تھے۔


.
تازہ ترین