• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی،لاہور میں میٹنگز اور بہت سے دوستوں سے ملاقات کرنے کے بعد آپ سے مخاطب ہوں مگر مخاطب تو مجھے پہلے ان جانے والوں سے ہونا ہے جو چترال سے آتے ہوئے شہید ہوئے۔ جن میں نوجوان، عورتوں اور مردوں کے علاوہ مجھ سےوہ معصوم بچے نہیں بھولتے جنہوں نے ابھی سانس لینا سیکھا تھا اور آگ کی نذر ہوگئے۔ میں بھی بڑی مشکل سے لاہور سے واپس آئی ہوں جیسا کہ پی آئی اے کا اسٹاف بتارہا تھا اس وقت سے لے کر جنوری کے آخر تک دھند کا راج رہے گا اور لوگ پی آئی اے کو برا بھلا کہتے رہیںگے کہ میرے ساتھ جہازمیں ملائیشیا، سعودی عرب اور قطر سے آئے ہوئے لوگ چار گھنٹے تو انتظار کے بعد، چلو انتظار سہی مگر سلامت اسلام آباد پہنچ گئے۔
اب آنکھوں کے سامنے ان سارے منظروں کو لانے کی کوشش کروں گی جو میں نے محسوس کئے، دیکھے اور جذب کئے۔ لوگ جو icon کہلانے کے مستحق ہیں۔ ان میں احمد شاہ، سربراہ کراچی آرٹس کونسل کو میں شامل کروں گی۔ آدمی ہے کہ جن ہزاروں مہمانوں کو ان کے نام سے بلارہا تھا۔ ادیبوں کی اتنی تواضع کررہا تھا، لگتا تھا آج ہی ملا ہے اور پھر صبح سے رات گیارہ بجے تک پرمعنی پروگراموں سے ہم جیسے بوڑھے لوگوں کے اعصاب تھکے ہونے کے باوجود، نہیں چاہتے تھے کہ کوئی بھی پروگرام چھوڑیں۔ بڑی وجہ یہ کہ انڈیا کے معتبر ادیبوں کو ٹیلیفون کے ذریعے، ایسا سنوایا، لگتا تھا شمیم حنفی، ابوالکلام قاسمی، رنجیت اور منیش ہمارے سامنے ہی ہمکلام ہیں۔ قومی زبانوں کے ادب کے فروغ او رنصاب میں شامل کرنے پر سب سننے اور بولنے والے متفق تھے کہ ماں بولی اگر بچوں کو نہ سکھائی جائے تو ان کی ذہنی ایج متاثر ہوتی ہے۔ ہمار ےیہاں بچے کو مائیں بتاتی ہیں بتائو تمہاریEyes کہاں ہیں، بولو Hands کہاں ہیں؟ آخر کو وہ بچہ بڑا ہو کر جب میرے ساتھ سیلفی اتارنے کے لئے آتا ہے تو بتا نہیں سکتا کہ وہ کچھ ادب پڑھنے کے بعد یہاں آیا ہے کہ فیشن میں سیلفی کے جنون میں مبتلا ہے۔ سب سے نہ سمجھنے والا منظر مشاعرے کا ہوتا ہے، جہاں ہر دفعہ چالیس شاعر ہوجاتے ہیں۔ سچی بات ہے مقامی شاعروں کو شوق ہوتا ہے کہ وہ باہر سے آئے ہوئے شاعروں کو اپنا کلام سنائیں اور دوسرے شہروں کے علاوہ غیر ممالک سے آئے شعراء تو کرسیوں پر تن کے بیٹھے ہوتے ہیں۔ اس سارے منظر کو مختصر کرنے کی یہ کوشش کی جاتی ہے کہ بلا تخصیص شاعروں کو نوجوان شاعروں کی طرح کہہ دیا جاتا ہے کہ بس ایک غزل یا پانچ شعر سنائیں۔ ہر چند جگرے والے شاعر اپنی سی کرجاتے ہیں۔ یعنی عرض کیا ہے ایک مطلع، دو شعر، ایک رباعی اور اب ایک غزل، مشاعرہ پڑھنے کے شوق میں اور اپنےآپ کو سینئر جتانے کے لئے رات دو بجے تک صبر کے ساتھ بیٹھے رہتے ہیں۔ یہ رویہ سامعین اور شاعر دونوں کے ساتھ نامناسب ہے۔ اب میرے دوست احمد شاہ نےپروگراموںسےلے کر مشاعرے کی لمبائی کم کرنے کی تجویز پر غور کرنے کے بارے میں سوچا ہے اتنے طویل مشاعرے کے باوجود فہمیدہ ریاض سے لے کر عذرا عباس جیسی سینئر شاعرات گریز کرتی ہیں۔
نصاب کی تبدیلی کے موضوع پر ڈاکٹر نجیبہ عارف اور قومی زبانوں کے فروغ کے بارے میں ڈاکٹر انوار نے ہمیشہ کی طرح بہت واضح اور پرلطف گفتگو کی۔ اتنا اچھا لگا جب نقاہت اور بیماری کے باوجود زہرہ آپا اور مشتاق احمد یوسفی اپنے قبیلے کے لوگوں سے ملاقات کرنے کے لئے ایک دن نہیں دو دن آئے۔ زہرہ آپا تو مذاکروں میں کمال شریک ہوتی رہیں مگر ہم لوگ یوسفی صاحب کو دیکھ کر مطمئن ہی نہیں سرشار ہورہے تھے اور یاد رفتگاں ایسے لمحے بھی آئے کہ یاد کرنے والے کے علاوہ بہت سے دوستوں کا گلا بھرا گیا۔
انور مقصود کے لحن اور قلم، دونوں کو اللہ سلامت رکھے کہ نوجوان بھی لفظوں کی چاشنی سے محظوظ ہوتے ہیں۔ شاید یونہی اردو کے فروغ کا سامان ہوسکے۔
لاہور میں شرکت گاہ نے دو امریکی ماہرین کو بلا کر ہمیں بولنے لکھنے کی آزادی کے طریقے اور انداز سکھانے کے لئے تقریریں بھی کیں۔ دستاویزی فلمیں بھی دکھائیں اور ہم سے کہا گزشتہ چار برس میں اگرصحافیوں، فنکاروں اور ادیبوں کے ساتھ زیادتیاں ہوئی ہوں تو دستاویزی ثبوت کے ساتھ ان کو مطلع کیا جائے۔ میں نے مسکرا کر ہمارے ملک میں ایک سال میں دو ہزار سے زائد بچیوں اور خواتین کے ساتھ زیادتیاں ہوئی ہیں۔ کچھ اخباروں میں پڑھ کر منہ کا ذائقہ کڑوا ہوا۔ پچاس کے قریب وکیلوں، ڈاکٹروں اور صحافیوں کو ایسا مارا گیا کہ ان کو مارنے والوں کا کبھی بھی کوئی نام و نشان نہیں ملا۔ ثبوت ملتے تو ہم لیاقت علی خان سے لے کر بی بی بینظیر اور سینکڑوں صحافیوں کے قاتلوں کو پھانسی نہ دلوا سکتے۔ ہم لوگوں کی کتابیں ممنوع قرار دی گئیں، وہ ثبوت اس لئے نہیں محفوظ رکھے گئے کہ پاکستان میں ان کتابوں پر سے پابندیاں اٹھائی ہی نہیں گئیں۔ میڈیا پر بہت عام ہوگیا ہے کہ جو گفتگو کا حصہ نامناسب لگے، وہاں ہلتے ہونٹ اور آواز بند دکھانے کا رواج عام ہوگیا ہے۔ اس طرح فیس بک پر سیاسی طور پر ناموزوں عبارت پر مقدمے چلانے کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے۔ سفید کپڑوں میں دو اشخاص آکر کسی کو اٹھا لے جائیں۔ یہ بھی عام بات ہے چلو ہمارے بلوچ دوست واحد تو واپس آگئے۔

.
تازہ ترین