• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس دفعہ کرسمس پر مجھے ایک تحفہ ’’چرخے دی کوک ‘‘ کتاب کا ملا۔ یہ کتاب نیویارک کے علاقے برانکس کے مشہور چرچ اور یہاں آباد پاکستانی مسیحی کمیونٹی کے مبلغ فادر فرانسس تنویر جو کہ پنجابی کے سجل شاعر بھی ہیں کی پنجابی شاعری کا مجموعہ ہے۔ اب کی بار کرسمس پر پھر پاکستانی مسیح عورتوں ، بچوں، مردوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو نیویارک کے ایک چرچ میں کرسمس کی شب اپنی عبادات پنجابی زبان میں کرتے ، ٹھیٹھ پنجابی میں کیرول اور دائودی نغمے پڑھتے سنا بہت اچھا لگا کہ لوگوں نے کسطرح اپنی زبان اور کلچر کو زندہ رکھا ہے۔ انہی شمع دانوں کی طرح جو ان موعود گھروں میں روشن تھے اس رات کرسمس والی رات ۔ مجھے ایسے میں فادر فرانسس کی شاعری کی کتاب چرخے دی کوک پڑھتےمندرجہ ذیل سطریں یاد آئیں۔
چرخے چت نا لگدا
میں کیویں آت آواں سئںیاں
جیسے شاہ حسین نے کہا ’’ گھوم چرخڑا سائیاں دا تیڈی کتوالی جیوے، کت والی جيوے لڑیاں وٹ والی جیوے‘‘ فادر فرانسس تنویر کی کتاب ’’چرخے دی کوک‘‘ اس طرح لے گئی جس طرح کپاس کو دھن کر سوت کات کر چرخے پر دھاگہ بنا جاتا ہے۔ جسے خود یہاں فادر فرانسس تنویر نے کہا ہے:
سوہنی جئی کوئی چیز بنا دے گا ہون اے جولایا
کھڈیاں اتے تان لیا اے اینے اپنا تانا۔
دوستو! سارا کھیل اس تانے بانے کا ہے ۔
شاہ حسین نے کہا تھا :’’ عشق سوئی دا نکہ تاگہ بنڑیں تے جاویں‘‘ پتہ نہیں کیوں صوفیوں کے نزدیک کپاس، دھاگہ ، چرخہ ، کاتنا اور کت واليوں کے بڑی معنی ہیں۔ سندھ کے عظیم ترین صوفی اور شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی نے بھی کہا :
کہ نہ کوئی درختوں پر کپاس ہے نہ کوئی کاتنے والیاں رہیں، ایسی ویراں بازاروں کو تکتے میرا من نمک بن گیا ہوا ہے-
فادر فرانسس کیونکہ بنیادی طور پر ایک صوفی کی روح ہیں اور انہوں نے اپنی شاعری کی کتاب کا عنوان بھی چرخہ چنا ۔’’ چرخے دی کوک۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ بچپن میں انکے گائوں میں انکی ماں چرخے پر کاتتی تھی اور ماں کا وہ چرخا کاتنا اور ماں کے ٹپے ماہیے سب آج تک اسکی روح میں رچے بسے ہوئے ہیں اسکا پیچھا کرتے رہتے ہیں اور اسی لئے انہوں نے اپنی شاعری کا عنوان ’’چرخے دی کوک ‘‘ رکھا ہے۔ قطع نظر اسکے کہ اب نہ فقط چرخا جلا ، گائوں جلے، انسان بھی جلادئیے گئے۔ چرخے کی کوک کوئی نہیں جلا سکا۔ ماں کے ٹپے اور لڑکیوں کے ماہیے کوئی آگ نہیں جلا سکی ۔
بہت دن ہوئے کہ اک شام میں نے سری لنکا کے شہر کینڈی کی سڑکوں پر گھومتے ہوئے ایک ہی جگہ مندر سے سنکھ، چرچ سے گھنٹیاں، مسجد سے اذان، اور پگوڈا سے عظیم بدھا کا گیت ساتھ آتے سنے تھے۔ اسوقت بھی جب سری لنکا میں بدترین خانہ جنگی تھی۔ لیکن مجھے اس شام مقدس عبادتگاہوں سے آتی ہوئی یہ آوازیں بالکل چرخے کی کوک جیسی لگی تھیں اور آج تک میرے کانوں اور دل سے نہیں گئیں۔
لیکن ہم لوگ جنہوں نے بحیثیت من الحیث القوم چرخے کی جگہ چاند تارا اور سبز حلالی لیرا یا کپڑے کا ٹکڑا لیا تھا وہ چرخے چت نا لگدا، میں کیویں آت آوان سئیاں‘‘ بن گئے ہوئے ہیں۔ ہم تو صوفیوں کی زبانوں ماں بولیوں (سندھی، پنجابی، پشتو، بلوچی ، سرائیکی، پوٹھوہاری، کشمیری) سے بھی دور رہے۔ بلکہ انہیں اوڑھنے بچھونے اور ورتنے پر شرمسار رہے ۔ ہمیں تو ٹیگور کی جگہ حفیظ جالندھری ملا۔ باقی ماں بولی زبانوں میں سوچنا بھی کفر بن گیا۔
ویسے تو ماں بولیاں سب کی ساجھی ہوتی ہیں لیکن میں بہت خوش ہوں کہ فادر فرانسس نے اپنی ماں بولی میں شاعری کی ہے۔
حالانکہ جیسے امر جیت نے کہا:
ماں بولی وچ
مرزے ہیرآں الکھ جگاون
ماں بولی وچ شبد گراں دے پریاں گاون
سبھ کچھ سرجے بنسے ماں بولی ہی
(امر جیت چندن)
وگرنہ یہ تو ہماری ریت تھی کہ ہمارا گرو نانک کعبے کے اندر سویا ملتا تھا۔
سندھ کے ایک اور بڑے صوفی روحل فقیر نے کہا تھا : کہ ہم نے جو محبوب کے بھنور میں اتر کر دیکھا تو رب سب میں ایک طرح کا بستا ہے ۔ میرے کئی دوستوں کے بچوں کے نام روحل کے نام پر ہیں۔
یہ سب کے سب چرخے کے کوک کے اسیر تھے، عشق سوئی کے نکے میں دھاگے بنے ہوئے تھے۔ دل کے کعبے میں سوئے ہوئے تھے لیکن چرخا چلتا رہتا تھا۔ جیسے یہاں فادر فرانسس تنویر نے کہا ہے:
میرا سوہنا چرخا مینوں کت کت کپڑے پاوے
ہر پل میرے ننگے تن دا ننگ اوہ آپ لکاوے
مینوں اپنے سارے دل توں گوہڑا پیار اے کردا
اپنی جان تلی تے دھر کے میری نگری آووے
دنیا اتے دھکے ٹھیڈے کھانداں ساں میں در در
مینوں پیار دے نال او لا کے اپنے سینے لاوے
فادر فرانسس تنویر کے اس مجموعے ’’چرخے دی کوک‘‘ میں سے کچھ اشعار قارئین کی نظر
توں سوہنا توں سب توں سوہنا ہر دم تینوں تکاں
تو ویں میرے دل دا جانی تینوں سانبھ کے رکھاں
ساری دنیا پھر کے ویکھی پر اے سانول یار
تیرے نالوں ودہ کے کوئی ناں جنہوں منہہ متھاں ٹیکاں
________
ڈیرا اپنے گھر دا بھلا
ڈیرا باہر نہ لائیں سجناں
تیرے مکھ دے نال بہاراں
توں ناں مکھ لکائيں سجناں
________
ویلا کھنجیا تے پھر اینے مڑ کے ہتھ ناں آنا
اگے اگے نسناں اینے پچھے توں رہ جانا
ویلے اتے کیتی گل دا اپنا ہوندا بھار
چنگا نیئوں لگدا سجناں بے موقعے دا گانا
نکیاں نکیاں گلاں اتے وڈے رس کے بہندے
پچھلی عمرے آکے بندا بن جاندا اے یا نہ
(نویاں لوکاں دے وچ جاکے سانوں بھل نہ جاویں
اوتھے جاکے چھیتی چھیتی سانوں چٹھیاں پانا
________
اپنے گھر تاں عزت کوئی ناں
جگ تے منیاں جاناں واں میں
جتھوں جتھوں لنگھناں واں میں
چانن کردا جاناں واں میں
________
شاعری دی وچ اپنے دل دا
ہر پل حال سنانا واں میں
سولی اتے مرشد وانگوں
سچ لئی ٹنگیاں جاناں واں میں
اک بھل ہوئی سی وڈیاں کولوں
ہون تک مل چکاناں واں میں
________
سچ کی راہ میں سولی پر لٹکائے جانااور بڑوں سے غلطیوں کا آج تک چکانا یہی چرخے کی کوک ہے۔ یہ ہم سب ہیں۔ ہم سب وہ ہیں جو اپنے ہونے یا نہ ہونے کی وجہ سے سولی پر لٹکائے گئے ۔ ہم جو پتھروں کے دیس سے آئے ہیں:
پتھر ویکھ کے بندے سوچن
ایہہ زندہ یا موئے
اسیں تے لیکھ دی سولی ٹنگے
اے کیوں پتھر ہوئے
(شفیع عقیل)


.
تازہ ترین