• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے حوالے سے چین کے دارالحکومت بیجنگ میں منعقد ہونے والا مشترکہ تعاون کمیٹی (جے سی سی) کا چھٹا اجلاس کئی حوالوں سے خوش آئند رہا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کے چھوٹے صوبوں کے سی پیک کے منصوبوں سے متعلق تحفظات کو کسی حد تک دور کرنے میں مدد ملی اور پنجاب کے علاوہ سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخوا، آزاد جموں وکشمیر، گلگت بلتستان، فاٹا اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے کئی منصوبوں کو سی پیک کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ تحفظات اگرچہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے لیکن چھوٹے صوبوں، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور فاٹا کے علاقوں میں کچھ منصوبے شروع ہونے سے وہ عوامل کسی حد تک کم ہوجائیں گےجن کی وجہ سے سی پیک متنازع بنا تھا کیونکہ پنجاب کے سوا باقی پورے ملک کو شکایت تھی کہ سی پیک کے تمام بڑے منصوبے صرف پنجاب میں ہیں۔ چھوٹے صوبوں، ریاستوں اور شمالی علاقہ جات کے تحفظات مکمل طور پر دور کرنے کیلئے مزید بڑے اقدامات کرنا پڑیں گے۔
اس حوالے سے سندھ کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا ہے کیونکہ سندھ کے 3 بڑے منصوبوں کراچی سرکلر ریلوے (کے سی آر)، کیٹی بندر اور دھابے جی اکنامک زون کے منصوبوں کو سی پیک میں شامل کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تھرکول میں بجلی پیدا کرنے کے تین منصوبوں کوبھی سی پیک کا حصہ بنایا گیا ہے۔ کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے کا سب سے بڑا منصوبہ تھر کے بلاک 6 میں ہوگا، جسے اوریکل نامی کمپنی مکمل کرے گی۔ اس منصوبے سے 1320 میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی جبکہ 300 میگاواٹ اور اور 330 میگاواٹ کے دیگر دو منصوبے بھی شامل ہیں۔ اسی طرح چاروں صوبوں، فاٹا، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور وفاقی دارالحکومت میں 8 انڈسٹریل زون قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں سڑکوں کے منصوبوں کو مکمل کرنے کے لئے بھی اجلاس میں فیصلہ ہوا ہے۔ اس میں خضدار تا باسیما اور ڈیرہ اسماعیل خان تا ژوب سڑکوں کی تعمیر کی جائیگی،چاروں صوبوں میں ماس ٹرانزٹ ریلوے کے منصوبوں کی تکمیل میں بھی مدد کرے گا۔ اسی طرح بجلی کی ٹرانسمیشن لائنز کے منصوبوں پر بھی کام کیا جائے گا۔ ان منصوبوں سے چھوٹے صوبوں کو کچھ یہ احساس ہونے لگا ہے کہ سی پیک میں انکا بھی حصہ ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کا یہ کہنا درست ہے کہ وہ سی پیک کے معمار ہیں۔ انہوں نے ہی پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بحیثیت صدر مملکت چین کے ریکارڈ دورے کئے۔ آصف علی زرداری چین سے تعلقات کو عالمی سیاست اور مشرق کی ابھرتی ہوئی معیشت کے تناظر میں دیکھ رہے تھے۔ قبل ازیں ذوالفقا علی بھٹو نے پاک چین دوستی کی ابتداء کی تھی۔ بھٹو بھی بہت آگے دیکھ رہے تھے۔ آصف علی زرداری صرف سی پیک ہی نہیں بلکہ پاک ایران گیس پائپ لائن اور گوادر پورٹ کے منصوبوں کے بھی معمار ہیں۔ ان کا وژن یہ تھا کہ پاکستان کی اسٹریٹجک پوزیشن کو نہ صرف پاکستان بلکہ اس خطے کی ترقی کیلئے استعمال کیا جائے اور خاص طور پر پاکستان کے انتہائی پسماندہ غربی علاقوں کو ترقی دے کر پاکستان کی اسٹریٹجک اہمیت میں مزید اضافہ کیا جائے اور ان غربی علاقوں میں عالمی طاقتوں کی سازشوں کا قلع قمع کیا جائے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے سی پیک پر 15 جنوری 2016ء کو اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) بلائی تھی۔ اس اے پی سی کا وژن بھی یہی تھا کہ پاکستان کے مغربی علاقوں کو ترقی دی جائے اور اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ سی پیک کے مغربی روٹ پر سب سے پہلے عمل درآمد کیا جائے اور اسی روٹ کو جولائی 2018ء تک مکمل کیا جائے۔ سی پیک کے 2 روٹس اور بھی ہیں۔ ایک وسطی روٹ ہے اور دوسرا شرقی روٹ ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے چار مطالبات میں سے ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ سی پیک کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس کی قراردادوں پر عمل کیا جائے۔ کیونکہ اس وقت مسلم لیگ (ن) کی حکومت سی پیک کے جن منصوبوں پر عمل درآمد کررہی ہے، وہ آل پارٹیز کانفرنس کی قراردادوں کی روح کے منافی ہے۔ سب سے اہم اور تشویشناک بات یہ ہے کہ سی پیک کو جلدی مکمل کرنے کا نظریہ دے کر غربی روٹ کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ شرقی روٹ پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے او ربقول آصف علی زرداری سی پیک صرف پنجاب میں ہے۔ اس کے علاوہ نیشنل سیکورٹی کے نام پر سی پیک کے معاملا ت سیاسی قوتوں کے ہاتھ سے نکلتے جارہے ہیں اور اس خطے کا مقدر تبدیل کرنیوالا سی پیک منصوبہ متنازع ہوگیا ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں نے اس حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے۔ 9جنوری 2016ء کو بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل کے زیر اہتمام سی پیک پر ہونیوالی آل پارٹیز کانفرنس میں سیاسی جماعتوں نے کھل کر اپنے تحفظات بیان کردیئے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت ان تحفظات پر عمل درآمد نہیں کررہی۔ بیجنگ میں ہونیوالے جے سی سی کے اجلاس میں اگرچہ کچھ منصوبے دیکر چھوٹے صوبوں، فاٹا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ سی پیک صرف پاکستان کی معاشی ترقی کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ پاکستان کی سلامتی کے لئے بھی بہت اہم ہے۔ پاکستان کے مغربی علاقوں کو شعوری یا لاشعوری طور پر انتہائی پسماندہ رکھا گیا ہے۔
یہ علاقے تیل، گیس اور دیگر قدرتی ومعدنی وسائل سے مالامال ہیں۔ عالمی طاقتوں کی نظریں ان علاقوں پر لگی ہوئی ہیں۔ پاکستان کے یہ علاقے طویل عرصے سے بدامنی اور انتشار کا شکار ہیں اور اس کا بنیادی سبب عالمی طاقتوں کی سازشیں ہیں۔ خیبرپختونخوا، فاٹا اور بلوچستان میں آگ لگی ہوئی ہے۔ عالمی طاقتیں یہ چاہتی ہیں کہ وسائل سے مالامال ان علاقوں کو پاکستان سے الگ کیا جائے یا کم از کم پاکستان کی ان علاقوں پر گرفت کمزور کی جائے تاکہ ان علاقوں میں زیر زمین قدرتی اور معدنی وسائل پر بالآخر ان عالمی طاقتوں کا قبضہ ہوجائے اور دوسری طرف تیل اور گیس سے مالامال ایران اور وسطی ایشیائی ریاستوں سے جنوب مشرقی ایشیاء کو پائپ لائنز کے ذریعے تیل وگیس کی ترسیل نہ ہوسکے۔ یہ علاقے اس قدر پسماندہ ہیں کہ پاکستان اپنے وسائل سے آئندہ 50 سال تک بھی یہاں ترقیاتی کام کرتا رہے تو بھی ان کی پسماندگی دور نہیں ہوگی۔ سی پیک کے منصوبوں سے یہ پسماندگی دور کرنے کا تاریخ نے سنہری موقع فراہم کیا ہے۔ اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔
سی پیک کے مغربی روٹ پر عمل درآمد کرنے سے نہ صرف پاکستان کے مغربی علاقوں کی پسماندگی دور کرنے میں مدد ملے گی بلکہ ان علاقوں میں پاکستان کی سلامتی کو درپیش خطرات سے بھی نمٹنا آسان ہوجائے گا۔ یہ علاقے پاکستان کا اٹوٹ انگ بن جائیں گے۔ سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ بہت متحرک اور بڑے وژن والے سیاستدان ہیں۔ انہوں نے سندھ کے بڑے منصوبوں کو سی پیک کا حصہ بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے لیکن اس میں ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ سی پیک کو جلد مکمل کرنے کا جو نظریہ پاکستان کے حکمرانوں نے چین کو دیا ہے، چین اس سے متفق نظر آتا ہے اور وہ مغربی روٹ کے بجائے مشرقی روٹ کو ترجیح دے رہا ہے۔ اس لئے وہ کراچی پورٹ، پورٹ قاسم کے ساتھ ساتھ کیٹی بندر کو بھی ترقی دینا چاہتا ہے، لیکن جلد مکمل کرنے کا نظریہ بہت سے حقائق کو نظر انداز کررہا ہے۔ مشرقی روٹ پر تعمیر ہونے والی موٹر ویز خصوصاً لاہور تا کراچی موٹروے سی پیک کے ٹریفک کیلئے ناکافی ہے۔ سی پیک کی شاہراہوں کی تعمیر ان تصریحات کے مطابق کرنی ہوگی، جو سی پیک کی بنیادی دستاویزات میں موجود ہیں۔ ہمیں اس بات پر بھی توجہ دینا ہوگی کہ اگر مغربی روٹ پر عمل درآمد نہ ہوا اور خاص طور پر گوادر پورٹ مکمل طور پر فعال نہ ہوا تو مغربی علاقوں کی نہ صرف پسماندگی ختم نہیں ہوگی بلکہ یہاں قومی سلامتی کے مسائل بھی رہیں گے۔




.
تازہ ترین