• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم جیسے لوگ بھی کیا ہوتے ہیں؟ ہوئے نہ ہوئے ایک برابر، جئے نہ جئے ایک جیسے۔ چلتے پھرتے سانس لیتے’’زندہ‘‘ شناختی کارڈ نمبروں کے علاوہ ہم کیا ہماری اوقات کیا۔’’اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے‘‘ جیسے مصرع کے علاوہ ہماری حقیقت اور تعریف ہی کیا ہے؟ سچ کہا کسی نے کہ اگر بنی نوع انسان کی تاریخ سے چند انسانوں کے نام خارج یا سنسر کردئیے جائیں تو انسانوں کی کوئی تاریخ ہی باقی نہ رہے۔ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے والی’’مِتھ‘‘ بھی دراصل اک پہیلی ہے جو عموماً سمجھ نہیں آتی اور جنہیں سمجھ آجاتی ہے وہ یہ جان جاتے ہیں کہ انسانوں کے اشرف المخلوقات ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہر آئی ڈی کارڈ یا پاسپورٹ ہولڈر انسان ہوتا ہے بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ انسان وہ واحد، اکلوتی مخلوق ہے جس میں کبھی کبھی کوئی ا شرف، کوئی اعلیٰ بھی پیدا ہوجاتا ہے، ورنہ باقی سب تو مجھ جیسی’’فوٹو کاپیاں‘‘ یعنی انسانوں کی فوٹو کاپیاں ہی ہوتے ہیں جنہیں کوئی چاہئے تو’’زندہ سیلفیاں‘‘ بھی کہہ سکتا ہے۔ ہم میں سے اکثر نے اپنے تئیں حصہ بقدر جثہ دنیا، ملک ، معاشرے یا گھر اپنے ان سینگوں پر اٹھا رکھے ہوتے ہیں جو سرے سے موجود ہی نہیں ہوتے۔ کیا خوب محاورہ ہے کہ دنیا بھر کے قبرستان ’’ناگزیر‘‘ لوگوں سے بھرے پڑے ہیں اور اس سے بھی کہیں بھیانک سچ یہ ہے کہ بہت سے ’’ناگزیر‘‘ لوگوں کو تو قبرستان تک نصیب نہیں ہوتے۔ کئی بار خیال گزرا کہ کبھی اسکندر اعظم، چنگیز خان اور ہنی بال جیسے لوگوں کی قبروں کا اتا پتہ ملے تو وہاں پلاسٹک کے پھولوں کی چادر چڑھا کر پوچھوں......’’اگر یہی تمہارا مقدر تھا تو اتنی بھاگ دوڑ اور مار دھاڑ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ پیدا صرف وہ ہوا جس کے بارے کہا جاسکے’’بلھے شاہ اساں مرنا ناہیںگور پیا کوئی ہور‘‘ورنہ تو’’برمزار ماغریباں‘‘ والا نوحہ ہے۔ پوری پوری زندگی گزار جاتے ہیں لیکن زندگی کی زیر، زبر، پیش کی بھی خبر نہیں ہوتی۔ طبیعت خراب ہو تو مشینیں بتاتی ہیں کہ خان صاحب، میاں صاحب، چودھری صاحب، ملک صاحب، شیخ صاحب، خواجہ صاحب، سردار صاحب، آپ کا جگر، گروہ یا کچھ ا ور جواب دے گیا ہے، پھر سمجھاتا کوئی اور سرجری کوئی اور کرتا ہے۔ یہ تو دور کی بات ہے اچھے خاصے فنکار کا اے سی، فریج یا گاڑی خراب ہوجائے تو محتاجی شروع ہوجاتی ہے اور تو اور بندہ خود اپنے بال نہیں تراش سکتا، مرا پڑا ہو تو نہلانے کا کام بھی کوئی اور کردے تو اس کی مہربانی........اپنے لئے محلات بنانے والوں کو بھی قبریں کسی اور سے بنوانی پڑتی ہیں۔ساری زندگی جہالت، لاعملی، بے خبری کے گھنے جنگلوں میں گزر جاتی ہے۔ ان گنت سوال ایسے ہیں، ان گنت صدیوں سے جن کا کوئی جواب نہیں مل رہا تو ہم جیسوں کا تو ذکر ہی کیا جو یہ بھی نہیں جانتے کہ لوگ’’ہیپی برتھ ڈے‘‘ اور’’ہیپی نیو ائیر‘‘ کیوں کرتے ہیں؟ کس بات کا ’’ہیپی برتھ ڈے‘‘ اور کس کام کا ’’ہیپی نیوائیر‘‘ یقیناً ان سب کے پیچھے کچھ نہ کچھ نہیں........بہت کچھ ہوتا ہوگا لیکن میرے پلے کبھی کچھ نہیں پڑا۔ میرے عزیز و اقارب میں یہ کام بہت اہتمام سے ہوتے ہیں اور میں نے کبھی کسی کے رنگ میں بھنگ نہیں ڈالا بلکہ احمقوں کی طرح ان میں شریک بھی ہوجاتا ہوں لیکن سوچتا ضرور ہوں کہ یہ ہے کیا؟ شاید مغرب نے ہمیں’’مسحور‘‘ کر رکھا ہے۔ ان کی تعمیری تخلیقی سرگرمیوں پر چار حرف بھیج کر ہم نے ان کی مضحکہ خیز باتیں اپنالی ہیں۔ زندگی کے سفر میں ہر سالگرہ پر تو یہ سوچنا چاہئے کہ’’زادراہ‘‘ میں کمی ہوگئی، اک اور سال زندگی سے نکل گیا، موت ا ک اور قدم قریب آگئی تو اسے سیلی بریٹ کرنا چاہئے یا وارننگ سمجھنا چاہئے؟ اس پر غور کرنا چاہئے یا ہلا گلا؟ اس ’’کٹوتی‘‘ پر کٹنا چاہئے یا کیک کاٹنا چاہئے؟اسی طرح کون سا’’ہیپی نیوائیر‘‘ کیا ’’ہیپی ہیپی‘‘ ہڑ بونگ مچانے سے کبھی کوئی سال ہیپی ہوتا نظر آیا ہے؟ پوری دنیا میں اربوں ڈالر خرچ کرکے یہ ڈرامہ رچایا جاتا ہے جبکہ دنیا ہر گزرتے سال کے ساتھ زیادہ اذیتناک ، زیادہ خوفناک، زیادہ بے انصاف، زیادہ خونخوار، زیادہ خطرناک ہوتی چلی جارہی ہے تو یہ اشرف المخلوقات دراصل کس کو دھوکہ دے رہا ہے؟دنیا کے تمام’’عظیم فاتحین‘‘ کی فہرست بنا کر ان کی وجہ سے موت کے گھاٹ اترنے والوں کی تعداد کا تخمینہ لگا کر اسے ایک ہزار سے ضرب دے کر سوچیں کہ اگر صرف دو ملک ایک دوسرے پر ہائیڈرو جن بم گرائیں تو کتنے انسان موت کے گھاٹ اتر جائیں گے اور کتنے عشروں تک ان زمینوں پر گھاس تک نہ اگے گی اور اگر کبھی اس کھیل کا’’چین ری ایکشن‘‘ شروع ہوگیا تو کیا ہوگا؟ یہ دنیا محفوظ اور بہتر کرنی ہے تو نیو ائیر منانے سے نہیں نئے رویے اپنانے سے ہی ممکن ہوگا لیکن شاید ایسا ہوگا کبھی نہیں کیونکہ......’’بے شک انسان خسارے میں ہے‘‘

.
تازہ ترین