• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ سال کے اوائل میں ڈاکٹر عابد لغاری جو سندھ کی ایک معروف علمی، ادبی شخصیت، شاعر اور محقق ہیں، وہ اپنی فیملی کے ہمراہ بطورِ خاص مجھے ملنے آئے اور اِس زریں عہد کی یادیں تازہ کر گئے جب اُردو ڈائجسٹ اور رہبر ڈائجسٹ کے ذریعے ہم دونوں پاکستان میں گمراہی پھیلائے جانے والے نظریات کے خلاف قلمی جہاد کر رہے تھے۔ اُنہوں نے اپنی کتاب ’تحریک ِ آزادی میں سندھ کا کردار‘ بھی پیش کی جو شاہ ولی اللہ اکیڈمی سندھ نے شائع کی ہے۔ میں نے اِسے پڑھنا شروع کیا اور سرزمینِ سندھ کی عظمتوں میں کھو گیا۔ فاضل مرتب نے برصغیر میں سندھی مسلمانوں کی عظیم الشان جدوجہد آزادی کے تابناک واقعات رقم کیے ہیں۔ ڈاکٹر عابد لغاری کا نسبی تعلق سردار نواب ولی محمد خاں لغاری سے ہے جن کی کاوشوں سے سندھ کی موجودہ جغرافیائی حدود وجود میں آئیں۔ ان سے پہلے کراچی کا علاقہ امیرانِ قلات کی ملکیت تھا اور عمر کوٹ، مٹھی، چھاچھرو اور نگرپارکر مہاراجہ جودھیو کی حکومت میں شامل تھے۔
’تحریک ِآزادی میں سندھ کا کردار‘ ایک مستند تاریخی دستاویز ہے جو قومی یکجہتی کے فروغ اور مستقبل کی صورت گری میں ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ تحریک ریشمی رومال کی جو ہوشربا تفصیلات اِس کتاب میں بیان کی گئی ہیں، وہ ہماری تاریخ کی کتابوں میں ناپید ہیں جبکہ پیر پگارو کے آبا و ٔاجداد کی مجاہدانہ کاوشیں ہمیں اُن کی عظمت کا احساس دلاتی ہیں۔ سندھ کا یہ اعزاز تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جا چکا ہے کہ سندھ مسلم لیگ نے 1940ء کی قرارداد سے پہلے 1938ء میں ایک آزاد مسلم وطن کے لیے قرارداد منظور کی تھی۔ ڈاکٹر عابد لغاری نے تحقیق کا حق ادا کر دیا ہے اور حوالہ جات کا خاص اہتمام کیا ہے۔ تمام سیاسی اور علمی حلقوں میں اِس بلند پایہ کتاب کی پذیرائی ازبس ضروری ہے اور ڈاکٹر لغاری کی صلاحیتوں سے اربابِ اقتدار کو زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانا چاہئے۔
انہی دنوں جناب سلمان عابد کی تازہ تصنیف ’دہشت گردی۔ ایک فکری مطالعہ‘ نظر سے گزری۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی ہمارے معاشرے کے لیے گھناؤنے خطرے کی حیثیت رکھتے ہیں اور عفریت بن کر انسانی زندگی کو تہہ و بالا کیے دے رہے ہیں۔ فاضل مصنف نے غیر جذباتی انداز میں اِس پیچیدہ اور خطرناک مسئلے کا ہمہ پہلو جائزہ لیا ہے۔ ان کے تجزیے کے مطابق مذہبی عدم رواداری، معاشی اور معاشرتی ناہمواریاں، بری حکمرانی، سول اور فوجی تعلقات میں کشمکش اور قانون اور استحقاق کی سنگین خلاف ورزیاں، انتہا پسندی کے رجحانات کو تقویت پہنچا رہی ہیں۔ اُن کی جچی تُلی رائے میں دہشت گردی کو صرف طاقت کے ذریعے جڑ سے اُکھاڑا نہیں جا سکے گا جس کے لیے ذہن سازی کی اشد ضرورت ہے کہ قومی ایکشن پلان پر اِس کی روح کے مطابق عمل درآمد اور میرٹ قائم رکھنا نہایت ضروری ہے۔ سلمان عابد اِس گراں قدر تصنیف اور بے پایاں تحقیقی کاوش پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔
ہمارے عہد کے عظیم المرتبت صحافی جو اپنی جرأت و بے باکی کی بدولت صحافتی حلقوں میں ’جرنیل‘ کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں، انہوں نے تحریک ِختمِ نبوت کی مستند تاریخ مرتب کر دی ہے جس میں 1953ء اور 1974ء کے مشکل مقامات پوری صحت کے ساتھ قلم بند ہوئے ہیں۔ قادیانیوں کے طرزِ عمل کے خلاف 1952ء میں جو تحریک اُٹھی، وہ لاہور میں مارشل لا پر منتج ہوئی اور فوجی عدالت نے سید ابوالاعلیٰ مودودی اور مولانا عبدالستار خاں نیازی کو موت کی سزا سنا دی۔ فسادات کی تحقیقات کے لیے چیف جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں جو کمیشن بنا، اس نے علمائے دین کا مذاق اُڑایا اور قائداعظمؒ کے نام پر ایک انٹرویو تراش لیا جس میں سیکولر نظریے کی تائید کی گئی تھی۔ قادیانیوں کے خلاف دوبارہ 1974ء میں تحریک اُٹھی جب نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلبہ ربوہ ریلوے اسٹیشن پر بری طرح زودکوب کیے گئے جس پر عوام بھڑک اُٹھے۔ وزیراعظم بھٹو نے اس انتہائی حساس قضیے کو حل کرنے کے لیے آئینی اور جمہوری راستہ اختیار کیا۔ قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی قرارداد پیش کی جس پر قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی اور قادیانیوں کے خلیفہ ناصر محمود کو اپنے عقائد کی وضاحت کا پورا پورا موقع دیا گیا۔ اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار نے جرح کا فریضہ ادا کیا۔ سوالات کے جواب میں قادیانیوں کے خلیفۂ وقت نے جو وضاحتیں کیں، اُن کی تمام تر تفصیلات جناب سعود ساحر نے بڑی محنت سے جمع کر کے شائع کر دی ہیں۔ اِن میں عبرت کے بڑے پہلو سامنے آئے ہیں۔ 7ستمبر 1974ء کو پوری قومی اسمبلی میں کامل اتفاقِ رائے سے احمدی اور لاہوری غیر مسلم اقلیت قرار دے دیے گئے۔ اِس موقع پر جناب وزیراعظم نے جو تقریر کی، وہ مسلمانوں کے حقیقی جذبات کی عکاس تھی۔ ہم اپنے عظیم دوست کو ان کی منفرد کاوش پر مبارک باد پیش کرتے ہیں۔
’معاملاتِ عمر فاروقؓ‘ بھی ایک خاصے کی چیز ہے جسے ہمارے عہد کی ایک علمی اور سیاسی شخصیت جناب قیوم نظامی نے ترتیب دیا ہے۔ اِس سے قبل اُن کی قابلِ قدر تصنیف ’معاملاتِ رسولؐ ‘ منظر عام پر آ چکی ہے اور بے حد مقبول ہوئی ہے۔دراصل بیسویں صدی کے آغاز میں علامہ شبلی نعمانی کی ’الفاروق‘ شائع ہوئی جو اِس عہد کی ایک انقلاب آفریں کتاب تھی۔ اِس میں اُن اقدامات کا صراحت کے ساتھ ذکر کیا گیا تھا جن کا تعلق معاشرے کی فلاح و بہبود سے تھا۔ جناب قیوم نظامی کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اس بے مثال اسلامی فلاحی ریاست کے خدوخال آج کی اصطلاح اور نہایت سلیس انداز میں بیان کیے ہیں اور مثالوں سے واضح کیا ہے کہ حضرت عمرؓ بہت سادہ زندگی بسر کرتے اور عوام کی بنیادی ضروریات کا غیر معمولی خیال رکھتے تھے۔ اِس وقت اسلامی ریاست تین براعظموں پر محیط تھی اور اِس قدر تنوع اور وسعت کے باوجود حضرت عمرؓ نے ساتویں صدی عیسوی میں ایک مثالی فلاحی ریاست قائم کی جس کے معیار تک مغربی اقوام ابھی تک نہیں پہنچ پائی ہیں۔فاضل مؤلف کا ’’معاملات‘‘ کے عنوان سے یہ عظیم سلسلہ بہت فکر انگیز بھی ہے اور نئی نسل کی شخصیت سازی کے لیے نہایت کارآمد بھی ہے۔
بریگیڈئیر (ر) صولت رضا کے ’غیر فوجی کالم ‘ بڑا لطف دے گئے کہ ان میں ہمارے معاشرتی رویوں پر طنز بھی ہے اور کئی مقامات پر مزاح کی چاشنی بھی، اُن کا تعلق مسلح افواج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر سے رہا ہے، اِ س لیے وہ باتوں باتوں میں فوجی زندگی کے راز فاش بھی کر گئے اور فوجی نظم و نسق کی کڑی جھلکیاں بھی دکھاتے رہے ہیں۔ اپنے استاد جناب وارث میر کا ایک اچھوتے انداز میں تذکرہ کیا اور بریگیڈیئر صدیق سالک (شہید) کی صلاحیتیںنہایت لطیف پیرائے میں اُجاگر کی ہیں۔ اِس سے قبل اُن کی ہنستی اور مسکراتی تحریریں ’کاکولیات‘ کے نام سے شائع ہو کر ہزاروں قارئین کو اپنا گرویدہ بنا چکی ہیں۔ ان کے ہاں سادگی میں بلا کی پُرکاری اور اُن کی متانت میں غضب کی شگفتگی پائی جاتی ہے۔


.
تازہ ترین