• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب سے پاناما لیکس کا معاملہ چلا ہے اس وقت سے مسئلہ کشمیر اور کشمیر میں ہونے والی خون ریزی اور کھلی دہشت گردی کو پاکستانی حکمرانوں نے پس پشت ڈال دیا ہے انہیں کشمیر سے زیادہ بلکہ وطن عزیز سے زیادہ اپنی فکر کھائے جا رہی ہے اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ وہ ہر قیمت پر اپنے دفاع میں لگے ہوئے ہیں۔ کسی کی ذرا سی توجہ بھی کشمیر کی طرف نہیں ہے امور کشمیر کی وزارت والے بھی صاحب کی صفائی اور حمایت میں لگے ہوئے ہیں کشمیر میں کشمیریوں کے ساتھ جو ظلم و ستم کا بازار بھارتی افواج نے گرما کر رکھا ہے وہ کسی کو نظر نہیں آرہا احتجاج روکنے اور کشمیری جوانوں کو سزا دینے کے لیے بھارتی فوج نا صرف پیلٹ گنوں کے ذریعے نوجوان بچوں بچیوں کو اندھا کر رہے ہیں ان کے چہروں پر فائر کھول کر انہیں اندھا اور زخمی کر رہے ہیں اور اس پر ہی بس نہیں وہ اندھا دھند فائر کر کے نوجوانوں کو خاک و خون میں نہلا رہے ہیں اس کے باوجود نہ ان کا جوش کم ہو رہا ہے نہ ہی جذبہ وہ پر عزم ہیں اور اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں افسوسناک بات یہ ہے کہ وہ اپنے احتجاج میں پاکستان سے وابستگی اور یکجہتی کا برملا اظہار کر رہے ہیں پاکستان زندہ باد کے نعرے ہی نہیں لگا رہے پاکستانی پرچم بھی بلند کر رہے ہیں پاکستان سے الحاق کے نعرے لگا رہے ہیں اس کے جواب میں پاکستانی حکمران صرف چند نپے تلے بیان دے کر اپنی کھال میں مست اپنی ذاتی بقا کی جنگ میں مصروف ہیں جبکہ بھارت کشمیریوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے غیر قانونی طور پر خلاف آئین بھارتی ہندوئوں کی نئی نئی بستیاں آباد کر رہا ہے بھارت بندوق کی نوک پر کشمیر پر اپنا قبضہ مضبوط رکھنا چاہ رہا ہے جبکہ کشمیری اپنی آزادی کی جدوجہد میں جان ہتھیلی پر رکھ چکے ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ دنیا اِدھر کی اُدھر ہوجائے لیکن کشمیر آزاد ہو کر رہے گا کاش کہ پاکستانی اہل سیاست اور حکمران اگر پوری دیانت داری سے چاہیں اور کوشش کریں تو مسئلہ کشمیر حل ہونے میں دیر نہیں لگے گی، کشمیر میں بھارتی اقتدار ڈانوا ڈول ہو رہا ہے اگر آج بھارت کشمیر سے اپنی افواج ہٹالے تو کشمیر از خود آزاد ہوجائے گا بھارتی حکمران بھی اس بات کو خوب اچھی طرح سمجھ رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ مسلسل کشمیر میں فوج کی تعداد میں اضافہ کرتے چلے جا رہے ہیں۔
پاکستانی حکمرانوں کے مطابق کشمیر پاکستان کی شہہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ تمام آبی ذرائع جن پر پاکستان کا انحصار ہے وہ کشمیر سے ہی نکلتے ہیں اگر کشمیر آزاد ہو کر پاکستان میں شامل ہوجاتا ہے تو پانی کی قلت جو بتدریج بڑھتی ہی جا رہی ہے جس کے بارے میں آبی ماہرین کی رائے ہے کہ بہت جلد چند سالوں میں ہی پاکستان میں پانی کا قحط پڑنے والا ہے بھارت کشمیری پانی پر بند پر بند بناتا جا رہا ہے اور پاکستان اپنے موجودہ آبی وسائل کو بھی بروئے کار لانے میں لیت و لعل سے کام لے رہا ہے کوئی بڑا ڈیم بنانا تو دور رہا چھوٹے چھوٹے ڈیم بنانے میں بھی سستی و کاہلی سے کام لیا جا رہا ہے بارشیں ویسے ہی کم سے کم ہوتی جا رہی ہیں بارشوں کے پانی کو بھی محفوظ کرنے کے لیے کوئی گنجائش کوئی ڈیم نہیں بنایا گیا تمام پانی سمندر برد ہو کر ضائع ہو جاتا ہے جبکہ ہمارے مقابلے میں بھارت ایک ایک بوند پانی کی حفاظت کر رہا ہے۔ پنجاب کو پنجاب اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں پانچ دریا بہتے تھے لیکن اب جبکہ پانچ میں سے صرف دو دریا ہی رہ گئے ہیں باقی پر بھارت قابض ہوچکا ہے ان کا پانی پاکستان میں داخل ہونے سے پہلے ہی بھارت اپنے ڈیموں میں محفوظ کرلیتا ہے پاکستان جو ایک خالص زرعی ملک ہے جس کی معیشت کا دار و مدار زراعت اور صنعت پر ہی ہے اسے پانی کی کمی کا سامنا ہے حکمران وقت ہوں یا ماضی کے حکمران سب ایک ہی تھیلی کے چٹے پٹے ہیں جو بھی پاکستان کی مسند اقتدار پر مسند نشین ہوتا ہے وہ دونوں ہاتھوں سے اپنا پیٹ بھرنے میں لگ جاتا ہے اور یہ بھی سچا قول ہے کہ ہوس کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا، اگر ہمارے حکمران مسئلہ کشمیر حل کرنا چاہیں تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کشمیری عوام کی بھرپور حمایت و تائید کے باوجود کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہوسکے مسئلہ کشمیر پر ہمارے حکمرانوں نے کبھی سنجیدگی سے سوچا ہی نہیں فوج نے کارگل مہم کے ذریعے کشمیر تک پہنچنے کی کوشش کی۔ اگر میاں صاحب ذرا برداشت کا مظاہرہ کرتے تو ہوسکتا ہے وہ سر خرو ہوجاتے جس طرح انہوں نے ایٹمی دھماکے کے وقت جرأت و ہمت سے کام لیا تھا کاش اس وقت بھی کارگل کے معاملہ پر جرأت کا مظاہرہ کرتے تو آج مسئلہ کشمیر حل ہوچکا ہوتا آج کشمیر نہ کشمیریوں کا ہے نہ پاکستان کا اور نہ ہی بھارت کا ہے بھارت نے اپنی مذموم قوت سے کشمیر کو زیر کر رکھا ہے اگر آج بھارت اپنی افواج ہٹائے یا کم کرے یا کشمیری جوانوں کو آزادی کے متوالوں کو فوج سے مقابلہ کرنے کے لیے جدید ہتھیار فراہم کردیے جائیں تو معرکہ کشمیری جوان سر کرسکتے ہیں کشمیری جوان آج فوج کا مقابلہ اپنے جوش و جذبے کے ساتھ پتھر اور اینٹوں سے کر رہے ہیں جو آج سینے پر گولیاں کھا رہے ہیں تو پھر وہ بھی جوابی طور پر بھارتی افواج کو خاک چٹا سکتے ہیں جوش و جذبے سے لیس کشمیری نوجوان کسی ہتھیار سے کم نہیں کیونکہ ہتھیار بھی جوش و جذبے کے بغیر ناکارہ ہی رہتے ہیں بھارتی افواج اتنی کثیر تعداد میں ہونے اور جدید ترین اسلحہ سے لیس ہونے کے باوجود کامیاب نہیں ہے کیونکہ ان کے پاس وہ جذبہ وہ جوش نہیں ہے جو کشمیری نوجوانوں کے پاس ہے کشمیری نوجوان آج آزادی کے جوش وجذبے سے آراستہ ہیں ان کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہے پاکستان تو ویسے ہی نہ کچھ کرنے پر بھی کشمیریوں کی حمایت اور سر پرستی اور مدد کے حوالے سے بدنام ہے اگر پاکستان واقعی کشمیریوں کی کھل کر حمایت و مدد کرے تو کون سی قیامت آجائے گی ہمارے حکمرانوں سے تو کہیں بہتر پڑوسی حکمران ہیں جو اپنے لوگوں کی حمایت میں دامے درمے سخنے پیش پیش ہیں اگر سقوط حلب ہوسکتا ہے، دنیا بھر کے ممالک پراکسی وار کی آڑ میں اپنے اپنے گروہوں کو سپورٹ کر سکتے ہیں تو پاکستان کشمیریوںکی مدد سے ہاتھ کیوں کھینچتا ہے۔ اگر پاکستان کشمیریوں کی اخلاقی مدد بھی جاری رکھے تو وہ دن دور نہیں جب واقعی کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ صادق ہوجائے اور پاکستان کو آبی وسائل بھی حاصل ہوجائیں گے اگر کشمیر پاکستان کا حصہ بن جائے تو بھارت کبھی بھول کر بھی پاکستان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھے گا کیونکہ خود بھارت میں سکھ اور دیگر قومیں جو علیحدگی چاہ رہی ہیں انہیں بھی شہہ مل جائے گی۔ بھارت سے اپنے زخم نہیں چاٹے جائیں گے کہ وہ ہمیں کوئی زخم دے سکے بلوچستان کا معاملہ بھی بڑا سنجیدہ اور غور و فکر چاہتا ہے اس کی طرف بھی بھرپور توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ بھارت نے اپنی پوری کوشش کی ہے بلوچوں کو ورغلانے، بہکانے کی جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی ہو رہا تھا اللہ پاکستانی حکمرانوں کو اور پاکستانی عوام کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ کشمیر کی بھرپور حمایت کر کے اسے آزاد کرالیں اور بلوچستان کے زخم خوردہ لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھ کر ان کا درست علاج کرسکیں۔

.
تازہ ترین