• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماضی میں بھی کئی پلی بارگین کیسز ہوئے، کئی میں رقم ہی ادا نہ ہوسکی

کراچی (اسد ابن حسن) قومی احتساب بیورو نے جس طرح سابق سیکرٹری خزانہ بلوچستان مشتاق رئیسانی سے 2 ارب روپے کی پلی بار گین کی ہے جبکہ ان پر 40 ارب روپے کی کرپشن کا الزام تھا اسی طرح ماضی میں بھی نیب سرکاری افسران اور سیاستدان جن پر اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات تھے ان سے بھی بہت کم رقم میں پلی بارگین کیں۔ بہت سے کیسز میں تو طے شدہ ادائیگی کی رقم بھی پوری وصول نہ ہوسکی۔  دوسری جانب نیب کے ترجمان نوازش علی عاصم کا کہنا تھا کہ پلی بارگین نیب نہیں عدالت کے ذریعے کی جاتی ہے۔  نیب کی دستاویزات سے چند چیدہ چیدہ بڑی پلی بارگین کی تفصیلات کچھ یوں ہیں: واپڈا لاہور کے سابق چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) زاہد علی خان پر کرپشن کا الزام 19 کروڑ 99 لاکھ 79 ہزار 273 روپے جوکہ پورے ادا کردیئے گئے۔ سکھر کے اسپیشل برانچ کے چھوٹے رینک کے اہلکار محمد رفیق پر 2 کروڑ روپے کا الزام، رقم پوری ادا کردی گئی۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر واپڈا محمد عارف خان 93 لاکھ 43 ہزار 428 روپے کا الزام جوکہ اس نے ادا کرنے کی ہامی بھری مگر صرف 62 لاکھ 60 ہزار 97 روپے ہی ادا کیے۔ ٹانک کے سابق سپرنٹنڈنٹ ایف سی پر ایک کروڑ 97 لاکھ 17 ہزار 256 روپے کا الزام، رقم دینے کی ہامی بھری پھر 67 لاکھ 4 ہزار روپے ادا کیے۔ سابق ڈی ڈی پیپرا ناصر اعظم پر ایک کروڑ 87 لاکھ 45 ہزار کا الزام، پوری رقم ادا کردی گئی۔ سابق ڈائریکٹر مینٹی نینس نیشنل ہائی وے اتھارٹی پر 25 کروڑ 87 لاکھ 50 ہزار روپے کا الزام، ادا کرنے کی ہامی بھری مگر 21 کروڑ 10 روپے ادا کیے۔ سابق ڈپٹی ڈائریکٹر توانائی پاکستان پروجیکٹ شازیہ مغیث پر الزام دو کروڑ روپے، ہامی 36 لاکھ روپے کی بھری مگر صرف 18 لاکھ روپے ادا کیے۔ اسی طرح ایک اور حیرت انگیز پلی بارگین ہوئی جوکہ سکھر ٹیوب ویل ڈویژن کے سابق ایکس ای این خلیل احمد شیخ کے ساتھ ہوئی ان پر صرف 27 ہزار روپے کی کرپشن کا الزام لگایا گیا اور اُنہوں نے الزام لگائی گئی رقم پوری ادا کردی۔ نیب ہی کی دستاویزات میں 473 والنٹیری ریٹرن (رضاکارانہ رقم کی واپسی) کی تفصیلات بھی بتائی گئی ہیں ان میں سے چند چیدہ چیدہ ادائیگیوں کی تفصیلات کچھ یوں ہیں، ایگزیکٹو انجینئر لیسکو محمداعظم پر کرپشن کا الزام 99 لاکھ 61 ہزار 576 روپے جن کو ادا کرنے کی ہامی بھری مگر ادائیگی 63 لاکھ 61 ہزار 576 روپے کی گئی، سابق ایم پی اے قاسم ضیاء پر الزام تقریباً 10 کروڑ روپے کا، ثابت 2 کروڑ 45 لاکھ 64 ہزار 307ر وپے اور یہ پوری رقم ادا کردی گئی۔ ان کے ساتھ ایک پرائیویٹ پرسن رضا زاہد پر بھی اتنی ہی رقم کا الزام تھا اور اس نے بھی اتنی ہی رقم ادا کردی۔ اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایجوکیشن آفیسر حیدرآباد شریف الدین پر 40 لاکھ روپے کا الزام جو ثابت بھی ہوگیا اور اس نے بعد میں مذکورہ پوری رقم کی ادائیگی کردی۔ کراچی کے لینڈ ایکیوزیشن آفیسر سہیل ادیب بچانی پر دو کروڑ 56 لاکھ 25 ہزار 500 روپے کا الزام، ادا کرنے کی ہامی بھری مگر صرف 87 لاکھ 21ہزار روپے ادا کیے۔ کراچی کے ٹی ایم او رحمت اللہ میمن پر ایک کروڑ 50 لاکھ روپے کا الزام جو ادا کرنے کی ہامی بھری، ادائیگی ایک کروڑ 10 لاکھ کی کی گئی۔ کراچی کے ٹی او فنانس ظہور احمد شاہانی پر 2 کروڑ 10 لاکھ 5 ہزار روپے کا الزام جو ادا کرنے کی ہامی بھری مگر ایک کروڑ 40 لاکھ 73 ہزار 682 روپے ادا کی گئی۔ کراچی کے ہی ایک سرکاری افسر عبدالقادر شاہ پر 7 کروڑ 44 لاکھ 14 ہزار 610 روپے کا الزام جو پوری ادا کردی گئی۔ میرپور ساکرو کے ٹی ایم اے منیر حسین منگی پر ایک کروڑ 69 لاکھ 72 ہزار 422 روپے، اتنی ہی رقم دینے کی ہامی بھری مگر ادائیگی ایک کروڑ 13 لاکھ 71 ہزار 523 روپے کی گئی۔ سیاستدان ارباب سعداللہ پر 84 لاکھ 71 ہزار 780 روپے کا الزام، رقم پوری ادا کردی گئی۔ سابق سی ای او کنٹونمنٹ بورڈ بنوں حسین اللہ خان پر دو کروڑ 8 لاکھ 50 ہزار روپے کا الزام، ادا کرنے کی ہامی بھری مگر صرف ایک کروڑ روپے ادا کیے گئے۔ ڈائریکٹر پی ڈی اے پشاور پر دو کروڑ 14 لاکھ 80 ہزار 876 روپے کا الزام، مذکورہ پوری رقم ادا کردی گئی۔ سابق ڈائریکٹر نادرا عنایت اللہ خان پر 40 لاکھ 22 ہزار 216 روپے کا الزام جو پورے ادا کردیئے گئے۔ چیف ایگزیکٹو پیسکو محمد ولی خان پر الزام 3 کروڑ 15 لاکھ 38 ہزار 214 روپے جو پورے ادا کردیئے گئے۔ ایک پرائیویٹ آدمی محمد اسحاق خٹک پر ایک کروڑ 33 لاکھ 10 ہزار 500 روپے کا الزام جسے ادا کرنے کی ہامی بھری مگر 55 لاکھ روپے جمع کروائے گئے۔ ایک اور پرائیویٹ آدمی ندیم پر 13 کروڑ 55 لاکھ روپے کا الزام جو ثابت بھی ہوگیا مگر ʼʼباہمی رضامندیʼʼ سے 6 لاکھ 80 ہزار روپے طے پائے جو ادا کردیئے گئے۔ دستاویزات کے مطابق بے نظیر انکم سپورٹ اسکیم پشاور کے 4 پوسٹ ماسٹرز عبدالمالک، رحیم بخش، شاہ یار اور محمد اسحاق کی ایک کروڑ ایک لاکھ 70 ہزار روپے کی خرد برد، مذکورہ رقم اُنہوں نے پوری ادا کردی۔  اس سلسلے میں نیب کے ترجمان نوازش علی عاصم کا کہنا تھا کہ پلی بارگین نیب نہیں کرتی، یہ کورٹ کے ذریعے ہوتی ہے، اس میں پہلی قسط 34 فیصد اور باقی دو اقساط 33/33 فیصد کی ہوتی ہے اور پوری رقم کی ادائیگی 6 ماہ میں کرنی ہوتی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس کی پلی بارگین منسوخ کردی جاتی ہے اور ان کے خلاف مقدمہ احتساب عدالت میں چلتا ہے یا اگر عدالت کہتی ہے تو رقم لینڈ ریونیو ایکٹ کے تحت وصول کی جاتی ہے۔
تازہ ترین