• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اپنی طرف سے کوئی اور کتاب شیلف سے نکالی لیکن لحاف میں گھس کر نیم دراز ہو کے جب کھولی تو یہ ’’ارتھ شاستر‘‘ تھی۔ جہاں بانی کے جینیئس معلم کی ارتھ شاستر، کو تلیہ چانکیہ کی مشہور زمانہ ارتھ شاستر جسے بدنام زمانہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ چند منٹ کا دلچسپ مخمصہ کہ واپس جا کر کتاب تبدیل کر لوں یا سالوں بعد ایک بار پھر اس کا مطالعہ کر لوں۔ گرم بستر سے نکلنے کو جی نہ چاہا تو فیصلہ اس کے حق میں دیدیا کہ کچھ فیصلے میرٹ کی بجائے معروضی حالات کے تابع ہوتے ہیں۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے بھی چند صدیاں قبل کے اس بدصورت ٹیڑھے میڑھے غریب برہمن زادے کے بارے میں کچھ کا کہنا ہے کہ ٹیکسلا میں پیدا ہوا جسے تب ٹیکساشالا کہتے تھے اور کچھ کا خیال ہے کہ اس کا تعلق کیرالہ سے تھا۔ اسے میکیاولی سے بھی ملایا جاتا ہے جو زیادتی ہے کیونکہ اول یہ کہ میکیاولی کئی صدیوں بعد کی بات ہے اور دوسری بات یہ کہ گہرائی گیرائی اور وسعت کے حوالہ سے میکیاولی چانکیہ کے قدموں کی دھول بھی نہیں بلکہ کبھی کبھی تو میکیاولی پر اس کا چربہ اور خلاصہ ہونے کا گمان گزرتا ہے جو یقیناً درست نہیں کیونکہ عالی دماغ لوگ صدیوں اور ہزاروں میلوں کے فاصلوں پر ہونے کے باوجود بھی ایک ہی طرح سوچ رہے ہوتے ہیں اورایسے ’’حسین اتفاقات‘‘ سو فیصد سائنسی علوم میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔اکثریت کا اتفاق ہے کہ ارتھ شاستر 300سے 311 قبل مسیح کے درمیان لکھی گئی۔ 1904ء میں اصل متن سنسکرت میں دریافت ہوا۔ 1905ء میں اسے پہلی مرتبہ جدید کتابی شکل دی گئی جس کے بعد سے اب تک نجانے کتنی بار کن کن زبانوں میں شائع ہو چکی ہے۔اس کتاب کو سمیٹنا یا اس کی سمری اور وہ بھی ایک کالم میں، ناممکن ہے کیونکہ چانکیہ نے جہاں بانی سے متعلق کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا اورکمال یہ کہ تقریباً 2 ہزار سال پہلے کہ اس شخص کی باتوں کو تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ عہد حاضر میں بھی اپلائی کیا جاسکتا ہے کیونکہ نہ ہیومن نیچر تبدیل ہوئی ہے نہ اس کے تقاضے۔ وہی زندگی اور اس کیلئے جدوجہد، زندگی کے بعد والے معاملات، وہی زر، زن، زمین، ہوس، ہوس اقتدار، غصہ،غلبہ کی خواہش، لالچ، انا، تکبر، بزدلی، بہادری، حسد، سازش، خوف، غیر یقینی پن، تعصب وغیرہ جو پہلے تھا سو اب بھی ہے۔ صرف شکلیں، ہیئتیں اور ساختیں تبدیل ہوئیں۔ غاروں سے لیکر محلات تک پناہ گاہیں بھی قائم ہیں، کچے گوشت سے ’’کو بے بیف‘‘ تک بھی کیا بدل کیا؟ اقتدار کے حربے بھی وہی حرب و ضرب کا تصور بھی قائم اور توسیع پسندی کے نئے انداز۔چانکیہ کی چند باتیں سنیئے’’کان، جلد، نظر، ناک اور زبان کے ذریعے سماعت، لمس، رنگ، بو اور ذائقے کے احساس سے آزاد ہو جانا، حواس پر قابو پانا کہلاتا ہے کیونکہ تمام علوم کا مقصد یہی ہے کہ حواس پر قابو رکھا جائے‘‘۔’’تنظیم دو طرح کی ہوتی ہے۔ اکتسابی اور فطری، تربیت صرف قابل اور اہل لوگوں کو ہی ضابطے میں رہنا سکھاتی ہے۔ علوم کا مطالعہ صرف ان لوگوں کو ضابطہ وتنظیم عطا کرتا ہے جن میں طبعاً طلب علم، توجہ، فہم، ادراک، غور و فکر، تمیز و تفریق اور استدلال کی خصوصیات پائی جاتی ہوں‘‘۔’’اپنے فرائض کی ادائیگی انسان سو رگ (جنت) میں لے جاتی ہے اور لاانتہا روحانی مسرت سے ہم کنار ہوتی ہے۔ بے ضرر ہوتا، سچائی، صفائی، بغض اور دشمنی سے یکسر لاتعلقی، ظلم سے احتراز، برداشت، عفوودرگزر کرنا ہر ایک پر واجب ہے۔ جو کوئی اپنے فرائض ادا کرے گا وہ اس زندگی کے ساتھ ساتھ مرنے کے بعد بھی شاد کام رہے گا‘‘۔علم سیاست اور حکمرانوں کی ذمہ داریوں کی تفصیل میں تو جایا ہی نہیں جاسکتا، چند چیدہ چیدہ چانکیہ ٹپس پر غور کرتے ہوئے آج کل کے حکمرانوں کی کارکردگی پر نظر ڈالیں۔’’ضبط حواس وزیروں کا تقرر، خفیہ ذرائع سے وزرا کے کردار کی آزمائش، مخبروں کا تقرر اور ان کیلئے قوانین، شہزادوں کی نگرانی، موضع بندی، غیر زرعی اراضی کی تقسیم، مالیہ میں گڑبڑ اوراس کی برآمد، سرکاری ملازمین کے کام کا معائینہ، خزانہ میں داخل کی جانے والی قیمتی اشیا کی پرکھ، کان کنی اور صنعتوں کا اجرا، صرافہ میں سونے کا نگران، مال خانے کا نگران، منتظم تجارت، ناظم جنگلات، اوزان و پیمانہ جات کے معیار کا تعین، زمانی و مکانی پیمائش، پارچہ بافی کا نگران، آب پاشی، مذبح خانوں کی نگرانی، قحبہ خانوں کا نگران، ناظم جہاز رانی، نگہبان مویشیاں، نگران اسپاں، ہاتھیوں کا منتظم، رتھوں کا نگران، سپہ سالار، راہداریوں کا ناظم‘‘۔’’معاہدات کا تعین، تسوید مقدمات، ازدواجی تعلقات کے بارے میں، تقسیم وراثت، غیر منقولہ جائیداد کے متعلق، عدم تعمیل معاہدات، قرضوں کی عدم ادائیگی، امانتوں کے بارے میں، ڈاکہ زنی، عزت نفس مجروح کرنا، جسمانی تکلیف پہنچانا، جوا کھیلنا، شرط لگانا‘‘۔کاریگروں پر نظر رکھنا، تاجروں کی نگرانی، قدرتی آفات سے لوگوں کو بچانا، خفیہ کارندوں کے ذریعہ جرائم پیشگان کی سراغ رسانی، مجرموں کو رنگے ہاتھوں یا شبیہہ میں پکڑنا، مرگ ناگہاں کی تفتیش، اقرار جرم کیلئے ایذا رسانی، اعضائے جسمانی کاٹنا، سزائے موت، نابالغ کے ساتھ زیادتی‘‘۔ قارئین!یہ سوچ کر کھوپڑی میں مغز ابلنے لگتا ہے کہ ہزاروں سال پہلے ’’گورننس‘‘ کے حوالہ سے کیا لکھا گیا حالانکہ جو پیش کیا وہ اصل کا ہزارواں حصہ بھی نہیں۔ صرف چند نکات کو سامنے رکھ کر اپنی موجودہ گورننس کے ساتھ موازنہ کیجئے اور بتایئے آپ کس نتیجہ پر پہنچے۔

.
تازہ ترین