• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کے لئے بہترین آپشن یہی ہے کہ وہ اپنی ریٹائرڈ لائف میں گالف کھیلیں، کتابیں پڑھیں اور جو نیک نام انہوں نے ملٹری سروس کے دوران کمایا تھا، اس کی یادوں سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔ اگر وہ کوئی بھی حکومتی عہدہ قبول کرتے ہیں تو وہ یقیناً ان کے اس رتبے سے بہت کم اہم ہوگا جو کہ انہوں نے آرمی میں ہوتے ہوئے آخری 3سال سنبھالے رکھا۔ اسی طرح انہیں پاکستان سے جانے کی باتیں بھی جانے دینی چاہئیں کیونکہ اگر وہ سعودی عرب کی سربراہی میں بننے والے 39ممالک کے اسلامی فوجی اتحاد کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں تو بھی ان کی حیثیت میں بہت کمی آئی گی۔ مختلف ممالک کی افواج جو کہ اس اتحاد میں شامل ہوں گی ان کے بارے میں وہ بہت کم جانتے ہیں۔ مزید یہ کہ وہ اس طرح بااختیار بھی نہیں ہوں گے جس طرح کہ وہ پاک فوج میں تھے۔ چاہئے وہ یہ عہدہ قبول کریں یا نہ کریں گزشتہ کچھ دنوں میں اس کے متعلق ہونے والی باتوں نے ان کی پبلک اسٹینڈنگ جو کہ انہوں نے پاک فوج کے آرمی چیف ہونے کی وجہ سے حاصل کی تھی، کافی مجروح ہوئی ہے۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ جب وہ آرمی چیف تھے تو ان کی معمولی سی سرگرمی کو بھی بہت بڑے انداز میں میڈیا کے لئے جاری کیا جاتا تھا اور اس بارے میں ٹویٹس بہت مشہور تھے۔ عجیب سا لگ رہا ہے کہ کئی دن سے ان کے اسلامی فوجی اتحاد کا سربراہ بننے کی باتیں ہو رہی ہیں مگر وہ بالکل خاموش ہیں۔ انہیں تو چاہئے تھا کہ وہ فوراً اس بارے میں کنفیوژن کو دور کرتے کہ وہ یہ عہدہ قبول کر رہے ہیں یا نہیں۔ ان کی خاموشی سے یوں لگ رہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ وہ اس اتحاد کے سربراہ بن جائیں جو کہ یقیناً ان کے لئے مالی طور پر بہت سود مند ہو گا۔
عام طور پراس بارے میں جو عوامی ردعمل آیا ہے وہ کوئی زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے اور عمومی طور پر اس بات کی مخالفت کی گئی ہے کہ راحیل شریف کو یہ عہدہ قبول کرنا چاہئے۔ بلا شبہ جب وہ آرمی چیف رہے تو انہوں نے بڑا نیک نام کمایا جس کے وہ مکمل طور پر حقدار تھے صرف اس وجہ سے کہ انہوں نے پاکستان میں دہشت گردی کے جن کو کرش کر دیا۔ یہ ایسا کام تھا کہ جو ان کے پیش رو کرنے سے کنی کتراتے رہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ سے دہشت گردی ہمارے ملک کی چولیں ہلا رہی تھی اور لوگوں میں بے انتہا خوف و ہراس پایا جاتا تھا۔ ہر ایک کو یہ ڈر رہتا تھا کہ کسی وقت بھی دہشت گرد ان کی جان لے لیں گے۔ راحیل شریف نے اس بلا سے لوگوں کی جان چھڑائی۔ یہ کارکردگی ان کا بہت بڑا اثاثہ ہے جس سے انہیں کوئی حکومتی یا بیرون ملک عہدہ لے کر ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ تاہم جنرل (ر) راحیل شریف نے یہ بہت احسن فیصلہ کیا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور 29نومبر 2016سے لے کے آج تک کسی بھی مسئلے پر ایک سطر کا بیان بھی جاری نہیں کیا۔ ایسے ہی جنرل عبدالوحید کاکڑ نے کیا تھا اور اسی وجہ سے ہی ہمیشہ ان کو بہت اچھے الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے۔ آرمی چیف ہوتے ہوئے بھی کاکڑ صاحب نے کبھی بھی یہ خواہش نہیں کی کہ ان کو ایک بہت بڑے مقبول لیڈر کے طور پر پیش کیا جائے جبکہ راحیل شریف کا تو 3سال کا دور بے مثال شہرت سے بھرا پڑا ہے۔ جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاءالحق اور جنرل پرویز مشرف نے مارشل لا لگا کر اپنے آپ کو بہت بڑے عوامی لیڈر کے طور پر پیش کیا اور یہ خمار ان کے ذہن میں ایک لمبے عرصے تک رہا مگر جوں ہی وہ منظر سے غائب ہوئے، یاد کرنے والا کوئی بھی نہ تھا۔ تاہم راحیل شریف نے بغیر مارشل لا لگائے ہی بڑے بھرپور انداز میں ’’حکمرانی‘‘ کی اور حکومت وقت ہمیشہ ان کے ہائی پروفائل اقدامات سے سہمی رہی۔ بہت سے عناصر جو وزیراعظم نوازشریف کے اقتدار کا ہر صورت خاتمہ چاہتے تھے ہر وقت راحیل شریف کو اکساتے رہے مگر جب راحیل شریف ریٹائر ہوئے تو ان پر ہی تنقید کے گولے برسانے شروع کر دیئے۔ ان میں سے کچھ لوگ تو سابق آرمی چیف کے اسلامی فوجی اتحاد کے سربراہ بننے کی بھی سخت الفاظ میں مخالفت کر رہے ہیں۔
یمن پر حملے کے بعد سعودی عرب نے جس فوجی کولیشن کا اعلان کیا تھا اس میں پاکستان کو بھی شامل کیا گیا تھا اس پر حکومت کو بڑی حیرانی ہوئی تھی کہ اسے اعتماد میں لئے بغیر ہی کیوں ایسا کیا گیا ہے۔ بعد ازاں پارلیمان نے سخت مخالفت کی۔ اس وقت راحیل شریف آرمی چیف تھے اور فیصلے کو ان کی بھی بھر پور حمایت حاصل تھی۔ اس فیصلے کی روشنی میں اگر وہ اب اسلامی فوجی اتحاد کے سربراہ بنتے ہیں تو وہ اپنے پہلے موقف کی نفی کریں گے۔ کہا گیا ہے کہ یہ اتحاد داعش کے خلاف بنایا گیا ہے اور دہشت گردوں کے خلاف لڑنے کے لئے ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی بھی اتحاد چاہئے اس کے مقاصد کتنے ہی سچے ہوں جو سعودی عرب کی سربراہی میں بنے اور ایران اس کی مخالفت نہ کرے۔ بدقسمتی سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان ٹکرائو میں کمی نہیں آ رہی اور نہ ہی ایسا ہونے کا امکان ہے۔ پاکستان میں بھی کچھ عناصر جو ان دونوں ملکوں کی پالیسی اپنے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ یہ حضرات اپنے تعصب سے باہر آنے کو تیار ہی نہیں۔ جہاں تک نواز شریف حکومت کا تعلق ہے وہ تو راحیل شریف کو این او سی دینے کو تیار ہو جائی گی اگر سابق جنرل یہ فیصلہ کریں کہ ان کو اس اتحاد کا سربراہ بننا ہے۔ یقیناً سعودی حکومت، جس سے پاکستان کے ہمیشہ سے بہترین تعلقات ہیں اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ ابھی تک راحیل شریف نے حکومت سے اجازت نہیں مانگی اور جب بھی انہیں کوئی ایسی پیشکش ہو گی تو انہیں طے شدہ طریقہ کار سے گزرنا پڑے گا تاہم ابھی تک راحیل شریف نے اس بارے میں وزارت دفاع، جی ایچ کیو یا حکومت کے کسی دوسرے ادارے سے رابطہ نہیں کیا ہے۔


.
تازہ ترین