• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پردیس میں رہ کر انسان ہر لمحہ اپنے دیس کی کھیتوں کھلیانوں کو یاد کرتا ہے اور جونہی اپنے وطن جانے کی تاریخ کا پتہ چلتا ہے اور پھر انگلیوں پر دن گنے جاتے ہیں رشتہ داروں دوست احباب کے لیے تحفے تحائف اور دیگر لوازمات شاپنگ اور نہ جانے کیا کیاتیاری کی جاتی ہے۔ فیملی ساتھ ہو تو اس سفر کو بہت زیادہ پلان کرنا پڑتا ہے تاکہ ٹکٹس ذرا سستے مل جائیں اور خرچہ بھی کم سے کم ہو۔ خیر میری بھتیجی کی شادی پچھلے سال پاکستان میں انجام پائی اوروہ بھائی کی بیٹی تھی تو جانا بھی فرض تھا تو ہمیں بھی سستے ٹکٹس اور دیگر ضروری سامان کی فکر لاحق ہوئی۔ نیک بخت ماشاللہ اس معاملہ میں بہت ساتھ دیتی ہے، تو مختلف دکانوں کے بھی بے وجہ چکر لگنے لگے خیر بات کو موضوع کی طرف واپس لاتے ہیں۔ پاسپورٹ وغیرہ چیک کیے تو میرے بیٹے کا پاسپورٹ ابھی نہیں بنا تھا اور ہم ٹکٹ ہولڈ کروا چکے تھے۔ ایمرجنسی پاسپورٹ کے سوا کوئی چارہ نہ تھا تو مرتے کیا نہ کرتے کہ مصداق لیورپول پاسپورٹ آفس کو فون کیا تو انھوں نے ہمیں دو دن بعد کی نشست دے دی۔ ہم نے بھی سوچا کے بچوں کے ساتھ کافی عرصہ ہوئے گھومے نہیں تو کیوں نہ ساتھ ساؤتھ پورٹ بھی گھوم آئیں اور ساتھ یہ کام بھی ہو جائے۔ خیر بچوں کو سکول سے چھٹی کروائی اور ہم گامزن لیورپول ہوئے۔ پاسپورٹ کے دفترکی نہایت ہی شاندار عمارت تھی اور بہترین سہولتوں کا موثر انتظام بھی کیا گیا تھا ہال میں خاصے لوگ موجود تھےجن میں کچھ پاکستانی، انڈین اور دیگر لوگ بھی موجود تھے ۔ ہم نے ٹوکن لیا اور جا کر اپنی باری کا انتظار کرنے لگے ہماری نشست کا جو وقت مقرر تھا وہ تقریباً گیارہ بجے کا تھا اور ہماری باری آتے آتے سوا بارہ بج گئے لیکن ہمارے سمیت تمام لوگ بہت دھیرج کے ساتھ اپنی باری کا انتظار کرتے رہے اور کسی نے بھی اس دقت کی کسی سے کوئی شکایت نہ کی۔ خیر اللہ اللہ کر کے پاسپورٹ آفس والوں نے ہمارے کاغذات کی جانچ پڑتال کی اور ہمیں کل پاسپورٹ ملنے کے وعدے کے ساتھ رخصت کر دیا۔ ہم نے بھی موسم کا بھرپور لطف لیتے ہوئے ساؤتھ پورٹ گھوما اور گھر واپس لوٹے۔ اب اتنی کم مدت میں بیٹے کا اورسیز کارڈ بننا تو ناممکن تھا تو میں نے ویزہ لگوانے کا سوچا۔ اگلے دن حسب وعدہ پاسپورٹ آگیا تو ہم بھی بھاگ کر پاکستانی قونصل خانہ مانچسٹر پہنچ گئے۔ وہاں پر پہلے سے بہت سے لوگ موجود تھے ہم بھی معلومات عامہ والی کھڑکی پر کھڑے انتظار کر رہے تھے کہ ہم سے آگے کھڑے بھائی نہایت ہی نامناسب زبان میں پاکستانی قونصلیٹ کے عملے کو کوس رہے تھے اور شور و غوغےکا ایک طوفان برپا تھا۔
غور سے دیکھا تو یہ صاحب کل لیورپول میں بھی موجود تھے لیکن وہاں بالکل خاموش تھے حالانکہ کل ہمارے ساتھ ان کو بھی انتظار کی زحمت اٹھانا پڑی تھی۔ ہم نے اپنی رگ صحافت کو پھڑپھڑاتے دیکھا تو معلوم کیا کہ ماجرا کیا ہے معلوم ہوا کہ قونصلیٹ نے ویزہ سروسز کو ٹریفورڈ منتقل کر دیا ہے اور قونصل خانہ میں صرف نادرا اور پاسپورٹ کے اجراء کا کام ہوتا ہے ویزہ اور اس سے منسلک تمام عمل کی نگہداشت جیری ویزہ سروس کرتی ہے۔ خیر ہم بھی تھوڑے دلبرداشتہ ہوئے کہ یہ کام تو اب کل ہی ہوگا لیکن وقت کم تھا تو ہمیں بھی ٹریفورڈ جانا پڑا۔ جہاں پہلے ٹوکن پھر فیس جمع کروانے اور دیگر مراحل کے بعد آپ کو ویزہ کی اجراء کے حوالے سے معلومات اور کاغذات کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ وہاں بھی وہ صاحب مجھ سے پہلے موجود تھے اور اپنا غصہ اب جیری سروس والوں پر نکال رہے تھے معلوم ہوا کہ ان صاحب کے کاغذات نامکمل ہیں۔ لیکن وہ بضد تھے کہ انھیں ویزے کا اجراء کیا جائے اور وہ جیری سروس والوں کو اپنے کسی رشتے دار کے حوالے سے ڈرا دھمکا بھی رہے تھے خیر سیکورٹی والوں نے تھوڑی تگ و دو کے بعد انھیں وہاں سے رخصت کیا اور ہمیں بھی اگلے دن آکر اپنے پاسپورٹ وصول کرنے کی رسید دی اورباہر کا رستہ دکھایا۔ یہاں جو دو رویےاور معیار کا تضاد جو ان صاحب نے اختیار کیا وہ مجھے بہت عجیب لگا کہ کسی بھی برطانوی ادارے خواہ وہ پاسپورٹ دفتر ہو ، ہسپتال ہو سرجری ہو یا کوئی بھی کام جس میں ہمیں برطانوی اداروں کے روبرو آنا ہو وہاں ہم انتظار یا کام نہ ہونے پر صدائے احتجاج بھی بلند نہیں کرتے اور اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں ۔ لیکن جونہی ہم پاکستان یا پاکستانی اداروں میں داخل ہوتے ہیں ہماری پاکستانیت جاگ جاتی ہے۔ انتظار بہرحال بہت اذیت ناک چیز ہے لیکن اگر ہم کسی دوسرے ملک کے قانون کا احترام کر سکتے ہیں تو اپنے اداروں میں بھی یہی اصول اپنانے ہونگے۔ ہمیں صرف تنقید نہیں کرنا بلکہ اپنے اندر بھی مثبت تبدیلی لانی ہوگی یہ تاثر غلط ہے کہ پاکستانی ادارے اچھا کام نہیں کر رہے۔پاکستانی اداراے برطانیہ میں بھی بہت اچھا کام کر رہے ہیں اگر ہم باقی کاموں میں دیر سویر برداشت کر لیتے ہیں تو چلیں پاکستانی اداروں کو بھی تھوڑا وقت دیں کیونکہ ادارہ چاہے کسی بھی ملک کا کیوں نہ ہو اس کے قوائد و ضوابط ہوتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ اگر کاغذات مکمل ہوں اور آپ کو تنگ کیا جائے تو پھر شکایت ہی بہترین حل ہے دھونس نامناسب رویہ ہے۔ لیکن اگر بات صرف انتظار کی ہے تو کوئی بات نہیں پاکستانی ادارے ہیں تھوڑا انتظار کا مزہ لیجیے۔



.
تازہ ترین