• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لاحول ولا قوۃ!
وزیراعظم محمد نواز شریف:مہنگائی کم، معیشت بہتر سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے۔ چینی صدر شی چن پنگ: تجارتی جنگ تباہ کن، کوئی نہیں جیتے گا۔
ایک وزیراعظم اور ایک صدر کا بیان آپ کے سامنے ہے، دونوں بیانات کیا کھلا تضاد نہیں؟ خیر ہمیں عالمی معاشی جنگ سے کیا ہم کب عالمی قوت بنتے جا رہے ہیں یا بھارت کی طرح کوئی جھوٹا دعویٰ کر رہے ہیں ہم تو اپنی چلو بھر معیشت کو ہی بس اچھا دیکھنے کے متمنی ہیں، اور ہمارا مطالبہ بھی بس چھوٹا سا ہے کہ اتنا ہو جائے کہ مہنگائی چبھے نہیں، معیشت ابتر نہ ہو اور سرمایہ کاری فقط فنکاری نہ ہو، جب غریب آدمی کے حالات اچھے ہوں گے تو وہ خود ہی بتا دے گا کہ حکومت کی کیا بات ہے لو جی ’’پیا گھر آیا ہن آپ ای کرے گا نہال نی‘‘ ہمارے آج ہی کے نہیں ہر دور کے حکمرانوں نے جب بھی ملکی معیشت کا حال بیان کیا تو یوں لگا کوئی ماضی کا ایسا رومان بیان کر دیا جس میں محبت کرنے والوں کو وصل نصیب ہوا، ورنہ اکثریت تو نامراد ہی رہی، اور یار لوگوں نے ان میں سے تصوف کے مضامین نکال مارے، بہرحال اگر ہمارے وزیراعظم ڈیووس میں جا کر کہتے ہیں کہ پاکستان میں اب کوئی معاشی مسئلہ نہیں مہنگائی اتنی کم ہو گئی کہ گدھے کا گوشت ٹکے سیر بکنے لگا ہے تو سچ ہی کہا ہو گا، مگر چینی صدر نے تو سیدھی بات کر دی کہ معاشی ترقی کی جنگ کوئی بھی نہیں جیتے گا اور یہ دنیا یعنی تیسری دنیا بھوکی کی بھوکی ہی رہے گی، البتہ خوشحالی کی جگہ تباہی کے امکانات مزید روشن ہوں گے، شیطان کی دیکھیں کہ اس نے بھی ترقی یافتہ دنیا کے بجائے ترقی پذیر یعنی ترقی کو ترسنے والی دنیا میں مستقل قیام کر رکھا ہے لاحول ولا قوۃ۔
٭٭٭٭
فقیر سیاست
شیخ رشید مائل بہ گفتار ہیں:نواز شریف اسمبلی میں کہتے ہیں تلاشی لے لو، عدالت سے استثنیٰ مانگتے ہیں، اگرچہ شیخ سیاست کی باتیں مضحکہ خیز لگتی ہیں مگر ہوتی نہیں، یہ الگ بات کہ ایک زمانہ ہو گیا ان کی دال نہیں گل رہی، نواز شریف اپنی واسکٹ کی خالی جیبوں میں ہاتھ ڈالے 24گھنٹے تلاشی دینے کو تیار رہتے ہیں، وہ سادہ دل فقیر منش امیر وزیر اعظم ہیں تو کیا ہوا، قوم سے تو مخلص ہیں، اور مریم کی ہرگز کفالت نہیں کرتے وہ مکمل طور پر خود کفیل ہیں اور اپنے صاحب کے ساتھ امرا جاتی میں جاتی ہیں رہتی نہیں، آخر بابل کا گھرتو بابل کا گھر ہوتا ہے اب وہاں جا کر کیا وہ ان کے کچن سے کھانا بھی نہ کھائیں، شیخ رشید آج کل صرف نواز شریف کے نہیں کبھی کبھی ’’خیالی وزیراعظم‘‘ کا بھی تعاقب شروع کر دیتے ہیں ان کا پرابلم یہ ہے کہ سب کو چھیڑو کوئی تو بقول غالب؎
چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد
اور یہ کہ چل نکلتے جو پیئے ہوتے
کوئی تو چھڑے گا اور اس جنوں کے کنوارے کے دوارے بھی کچھ ڈال جائے گا، ہم پہلے بھی شیخ رشید کی بابت لکھ چکے ہیں کہ وہ ہمارے دیرانہ سیاست کی رونق بھی ہیں اور مجنوں بھی کیوں کہ ان کو دیکھ کر گھر یاد آ جاتا ہے، وہ سیاسی عبرت بھی ہیں سر تا پائوں مگر سیاستدان ہیں کہ عبرت ہی نہیں پکڑتے تاآنکہ وہ نشان عبرت بن جائیں گے، وہ امیر سیاست نہ سہی فقیر سیاست تو ہیں، اگر امرا جاتی والے بھی کبھی ان کو غور سے سنیں تو ان کو فائدہ نہیں تو نقصان بھی نہ ہو گا۔
٭٭٭٭
کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے!
ہمارے بعض بہت زیادہ جہاں دیدہ عمر رسیدہ کمر خمیدہ کالمسٹ یہ گلہ کرتے ہیں کہ فلاں نے یہ بات تاریخ کا چہرہ بگاڑ کے لکھ ماری، فلاں کے ہاں معنی مطلب ندارد، فلاں کو روز مرلے کا پتہ نہیں، اور فلاں نے فلاں فلاں غلطی کی، وہ اسکول ٹیچر زیادہ اور کالم نویس تو بہت زیادہ دکھائی دیتے ہیں اس لئے کہ زود نویس بلکہ بلا نوش کی طرح بلا نویس بھی ہوتے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ نے قلم کی قسم کھائی ہے تو یہ نہیں کہ پارکر، بال پوائنٹ یا کانے کے قلم کی سوگند اٹھائی ہے، بلکہ قلم کی قسم سے مراد قلم کا لکھا ہے، اور اس لکھے کو ہر ممکن صاف شفاف رکھنا چاہئے، مگر قلم میں سیاہی بھی تو بھرنا پڑتی ہے، اس لئے اگر قلم لائق قسم نہ رہے تو کوئی گناہ کبیرہ نہیں، بعض اوقات قلم کی کلکاریاں بڑا مزا دیتی ہیں، اور ہم عرض کرتے چلیں کہ کالم اور مضمون میں بڑا فرق ہوتا ہے، کالم ایک ہلکا پھلکا ذاتی سا رائٹ اپ یا نیریٹو ہوتا ہے جو کبھی کبھی اس گلی جاتا ہوا اچھا لگتا ہے جس کے بارے غالبؔ نے کہا تھا؎
کہاں میخانہ کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
بڑے بڑے لکھنے والوں سے ہی بڑی بڑی غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں اور روبوٹ کالم نگار ان کو ٹانگ سے پکڑ لیتے ہیں، ایسا کرنا شریعت کالم نگاری تو کیا اس کی طریقت میں ’’بسط‘‘ نہیں ’’قبض‘‘ ہے، واضح رہے کہ قبض اور بسط کو یوں سمجھ لیں کہ یہ آمدو آورد ہیں، تحریر کا معنی آزاد کرنا ہے تو قلم کو کبھی کبھی آزادی بھی دینا چاہئے۔
٭٭٭٭
طبع آزمائیاں
....Oچینی صدر:تجارتی جنگ تمام فریقوں کیلئے بدترین ہم کہتے ہیں کہ بندہ تجارت کرے یا سیاست، اور بس!
....Oبرطانوی ہائی کمشنر:سی پیک کا حصہ بننے کو تیار ہیں،
جی آیاں نوں! حکومت کا یہ آئٹم چل نکلا ہے کہ مارکیٹ میں اس کی دھوم ہے،
....Oپرویز الٰہی:سیاسی سرگرمیاں تیز کرنے کا فیصلہ،
یہ فیصلہ تو کب کا کر چکے اب تیزی کب دکھائی دے گی،
....Oشیخ رشید:قبر تک پیچھا کروں گا،
یہ وضاحت نہیں فرمائی کہ کس کی قبر تک۔
....Oکائرہ:اب حکومت نہیں چلنے دیں گے،
آپ بھی طبع آزمائی کر دیکھیں ابتک تو کوئی کامیاب نہ ہوا۔


.
تازہ ترین