• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
محمد نوازشریف 1981میں پنجاب کے وزیر خزانہ بنے اور اس کے بعد کئی بار وزیر اعلیٰ اور وزیراعظم۔ ان 36برسوں میں ان کا کئی بار احتساب ہوا۔ وہ بینظیر بھٹو حکومت کے زیر عتاب رہے اور پرویز مشرف کا دور بھی ان پر بہت بھاری گزراجب ان کے کاروبار کی ہر طرح سے اسکینگ کی گئی مگر کچھ نہ ملا۔ باوجود ان سخت انتقامی کارروائیوں کے ان کے خلاف کرپشن کا کوئی الزام ثابت نہ ہوسکا۔ اس بار ان کا بہت ہی کڑا احتساب ان کے اپنے دور حکومت میں ہی ہو رہا ہے یہ کوئی سرکاری ایجنسی یا ادارہ نہیں بلکہ عدالت عظمیٰ کر رہی ہے۔ سپریم کورٹ یہ کام خود نہیں بلکہ مختلف پٹیشنوں پر سماعت کرتے ہوئے کر رہی ہے۔ یہ احتساب 1970کی دہائی سے شروع کیا گیا ہے جبکہ نوازشریف نہ تو حکومت میں تھے اور نہ ہی سیاست میں۔ اس دور میں ڈاکومنٹیشن پر بھی بہت زیادہ توجہ نہیں دی جاتی تھی اور قوانین بھی مختلف تھے مگر ان سے مکمل حساب کتاب مانگا جارہا ہے۔ اس وقت فیملی بزنس کے سربراہ میاں محمد شریف (مرحوم) تھے۔یہ بات بار بار سامنے آئی ہے کہ کیا بچے اپنے والد کے کاروبار کے ذمہ دار ہیں یا ان سے اس بارے میں سوالات کئے جاسکتے ہیں۔ چاہے وہ دبئی ا سٹیل مل ہو جو کہ میاں محمد شریف نے بنائی تھی یا جدہ ا سٹیل مل جو کہ حسین نواز نے قائم کی تھی یا لندن کے فلیٹس ہوں جو کہ آف شور کمپنیوں کے ذریعے حسین نواز نے خریدے تھے سب کا حساب نوازشریف کو دینا پڑ رہا ہے۔ وزیر اعظم اور ان کے بچوں نے کافی تصدیق شدہ کاغذات عدالت میں جمع کرائے ہیں تاکہ وہ ثابت کر سکیں کہ ان کا سارا کاروبار جائز اور حلال پیسے سے تھا جس میں کوئی کرپشن کی رقم نہیں ہے۔
اس کیس کا نتیجہ جو بھی نکلے اس کے اثرات سیاست پر بہت گہرے ہوں گے۔ وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان بھی ان سے بچ نہیں سکیں گے۔ سب کی نظریں 2018کے عام انتخابات پر لگی ہوئی ہیں۔ جب سے پاناما لیکس 9ماہ قبل سامنے آئی ہیں بھرپور ہنگامہ جاری ہے اور عمران خان نے بار بار کہا ہے کہ وہ اس ایشو کو لوگوں کے ذہنوں سے ہٹنے نہیں دیں گے اور اگر وہ عدالت میں پٹیشن فائل نہ کرتے تو نوازشریف کا احتساب 2سو سال میں بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ اس ساری کمپین کا مقصد سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہے مگر جب زمینی حقائق دیکھیں تو پی ٹی آئی کو ابھی تک کوئی بڑا فائدہ نہیں ہوا بلکہ الٹا اس کا گراف گرا ہی ہے۔ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ 2018میں انہیں پاناما لیکس پر مہم کی وجہ سے کیا ملے گا۔ وزیراعظم چاہے عدالت سے کلین چٹ لینے میں کامیاب ہوں یا ناکام اس بات کا امکان کم ہے کہ انہیں پاناما لیکس کی وجہ سے 2018کے انتخابی معرکے میں کوئی بڑا نقصان ہو گا۔ ابھی تک کے مختلف انڈیکیٹرز یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ نون لیگ ہی اپنی کارکردگی کی بنا پر اگلے انتخابات جیت جائے گی۔ یقیناً عمران خان نے عدالت جا کر نوازشریف کو ہلا کر رکھ دیا ہے تاہم سیاست میں دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ سیاسی فائدہ کیا ہوا ہے۔ انہوں نے تو بس پٹیشن دائر کی اور وزیراعظم کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا۔ ان کے وکیل نے بار بار عدالت میں کہا کہ ان کے پاس نوازشریف کے خلاف الزامات کو ثابت کرنے کے ثبوت نہیں ہیں اور یہ عدالت کا کام ہے کہ وہ خود تحقیقات کرے اور ثبوت تلاش کرے مزید یہ کہ یہ وزیراعظم کا کام ہے کہ وہ اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کریں۔
عمران خان کے وکیل نعیم بخاری کئی دن تک عدالت عظمیٰ میں دلائل دیتے رہے جو کہ سیاسی تقاریر تھیں۔ انہوں نے شاید ہی کبھی آئین، قانون یا مختلف پاکستانی یا بیرون ممالک کی اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کے حوالے دیئے جو کہ کسی بھی وکیل کیلئے اتنے اہم کیسوں میں ضروری ہوتے ہیں۔ کئی بار جج صاحبان نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ دلائل دیں قوم سے خطاب نہ کریں مگر پھر بھی وہ اپنی ڈگر پر ہی چلتے رہے۔ دوسری طرف وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے آئین اور عدالتی فیصلوں کی روشنی میں بہت سے اہم نکات اٹھائے ہیں۔ ان میں سے ایک کا تعلق آئین کے آرٹیکل 66سے ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ پارلیمان میں ممبران کو آزادی رائے کا استحقاق ہے اور وہاں کی گئی تقاریر، ڈالے گئے ووٹ یا کسی کمیٹی کی رپورٹ کے بارے میں کسی بھی عدالت بشمول سپریم کورٹ میں کوئی کارروائی نہیں ہوسکتی اور اسے متعلقہ ممبر کے خلاف بطور شہادت پیش نہیں کیا جاسکتا۔ یہ پوری پارلیمان کا استحقاق ہے نہ کہ وزیراعظم کا جو کہ اس کے ممبران میں سے ایک ہیں۔ لہذا اگر اسے استثنیٰ کا نام دیا جائے تو بھی یہ پوری پارلیمان کا ہے نہ کہ کسی ایک مخصوص ممبر کا۔ تاہم عدالت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ پارلیمان میں کی گئی تقریر کا جائزہ لے سکتی ہے۔ رہی بات دوسروں کے علاوہ وزیراعظم کو جو استثنیٰ آرٹیکل 248میں حاصل ہے تو اس بارے میں مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ وہ یہ نہیں مانگ رہے۔ ویسے بھی شاید اس مسئلے پر یہ استثنیٰ غیر متعلق ہے کیونکہ یہ صرف اس وقت طلب کیا جاسکتا ہے جب وزیراعظم نے کوئی کام اپنے سرکاری فرائض انجام دیتے ہوئے کیا ہو۔
ایک تو عدالت ہے جو کہ قانون کے تحت سنجیدگی سے ان پٹیشنز پر کارروائی کر رہی ہے تاکہ آئین اور قانون کے تقاضوں کے مطابق ان پر فیصلہ کیا جائے۔ ایک دوسری عدالت ہے جو روزانہ سپریم کورٹ کی کارروائی کے دوران بھی پی ٹی آئی اور نون لیگ کے رہنما لگاتے ہیں۔ دونوں اطراف سے بڑے اعتماد سے دعوے کئے جاتے ہیں کہ وہ یہ کیس جیت چکے ہیں اور ان کے وکلا نے دوسری سائیڈ کو عدالت میں چت کر دیا ہے۔ یہ سیاست ہے اور مقاصد سیاسی فوائد ہیں۔ دونوں طرف یہ سمجھا جاتاہے کہ جتنا شدو مد سے پروپیگنڈا کر لیا جائے اتنا ہی سیاسی فائدہ ہوگا۔ دونوں کا مقصد عوام کو یہ یقین دلانا ہے کہ اس کا موقف صحیح ہے اور اس کے مخالف کا غلط۔ ان کے اپنے اپنے انداز سیاست ہیں مگر مقصد ان دونوں کا یہی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح ججز پر بھی اثر انداز ہوں مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ پی ٹی آئی اور نون لیگ کے دعوے ایک طرف مگر عدالت بار بار کہہ چکی ہے کہ دونوں اطراف اپنے اپنے موقف کی تائید میں ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جج صاحبان نے اکثر کہا ہے کہ وہ مناسب ثبوت اور شواہد کی عدم دستیابی کی وجہ سے کسی فیصلے پر نہیں پہنچ پارہے۔ وہ جوڈیشل کمیشن بنانا چاہتے تھے تاکہ معاملے کی بھرپور تحقیقات کی جاسکے مگر وہ ایسا نہ کرسکے کیونکہ پی ٹی آئی نے اس کے بائیکاٹ کی دھمکی دیدی تھی۔ بلاشبہ پاناما لیکس کے بارے میں پٹیشنز بہت تاریخی نوعیت کی حامل ہیں اور ان پر فیصلہ بھی یقیناً تاریخی ہوگا جس میں آئین کے بہت سے آرٹیکلز کی تشریح بھی کی جائے گی۔

.
تازہ ترین