• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیاسی پنڈت کہہ رہے ہیں کہ جنوری کے دوسرے اورتیسرے ہفتے میں ’’چھومنتر‘‘ ہوگا اور سیاسی منظر نامہ بدل کر رہ جائے گا۔ دوسری جانب کاروبارجمہوریت سے وابستہ فلمساز، تقسیم کار اورنمائش کار ایک ہی ڈائیلاگ دُہرا رہے ہیںکہ 2018میں بھی جمہوریت کی یہی ’’مغل اعظم ‘‘ باکس آفس پر ہٹ رہے گی۔ یہ بھی کہاجارہاہے کہ فلم تو یہی ہوگی مگر اس کے ہیرواور سائیڈ ہیروز بدل جائیں گے ۔یعنی کھیل جاری رکھنے کیلئے نئے بلے بازوں کو گرائونڈ میں اتارنا ہوگا۔ اقبالؒ نے کہاتھاکہ ’ثبات اک تغیر کوہے زمانے میں ‘یعنی تبدیلی ہی مستقل عمل کانام ہے اورہرعروج کو زوال ہے۔احاطہ ِعدالت میں خواجہ سعد رفیق کے ڈائیلاگ نے تو مظہر شاہ ،مصطفی قریشی اور شفقت چیمہ کوبھی مات دے دی۔خواجہ صاحب کو ان کی صرف ایک پرفارمنس پر ہی لائف ٹائم اچیو منٹ ایوارڈ سے نوازا جاسکتاہے۔اگرچہ مذکورہ ایوارڈ تو ان سے ہی منسوب ہے لیکن اس ایوارڈ کیٹیگری کے لئے دانیال عزیز ،عابدشیرعلی اور رانا ثنااللہ کی نامزدگی کی جاتی تو وہ بھی میرٹ پر ہی ہوتی ۔ اس کارِسیاست میں خواجہ محمد آصف کی کارکردگی ویسی ہی ہے جیسی عوامی اداکار علائوالدین کی ہوا کرتی تھی۔کبھی وہ زمانہ تھا کہ کوئی فلمساز علائوالدین کے بغیر فلم بنانے کا تصور بھی نہیں کیاکرتاتھا آج یہ وقت ہے کہ کسی کو اس عظیم کریکٹر ایکٹر کی سلور اور گولڈن جوبلیاں یاد تک نہیں۔کرگس اور شاہینوں میں اٹھنے بیٹھنے والے ایک باخبر شکرے کا کہنا ہے کہ پاکستانی سیاست کے شوبزنس کا’’ کپورخاندان ‘‘ بھی پس منظر میں چلا جائیگا۔ نون لیگ کی میڈیا الیون کا کہناہے کہ دشنام طرازی کی اس طویل ٹیسٹ سیریز کا آغاز کپتان عمران خان اور ان کی ٹیم نے ہی کیاتھا۔لہذا اب ان کی باری ہے۔غیر شائستگی اور گالم گلوچ کی سنیما اسکوپ فلم کا ہاف ٹائم ہوچکا لیکن کہانی اورا سکرین پلے سے جڑے کرداروں کی روش میں کوئی تبدیلی رونما نہیںہورہی۔شائقین فلم یقینا منیر نیازی کی طرح یوں بیزار ہوں گے کہ
اک اور دریا کاسامنا تھامنیر مجھ کو
میں اک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا
بلاول کی سربراہی میں لاہورسے فیصل آباد تک ریلی اور جلسہ منعقد ہوا ۔یہ اس روٹ پر بلاول کا پہلاسیاسی سفر تھاجسے بلاک بسٹر کامیابی قرارنہیں دیا جارہا۔کاروبارسیاست سے وابستہ کیری پیکروں کو چاہئے کہ بلاول کی پہلی سیاسی جدوجہد کاموازنہ عامر خان کی فلم دنگل سے نہ کرائیں۔سیاست کے بالی وڈ میں آج میگا اسٹارز کہلانے والے کبھی نامور سیاستدانوں اور فنکاروں کے ساتھ تصاویر بنوا کر ڈرائنگ روم میں آویزاں کیاکرتے تھے ۔سابق وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الہٰی بتاتے ہیںکہ 77ء کے عام انتخابات میں لاہور کے معروف صنعت کار برادران ہمارے ہاں آئے اور اپنے اباجی کا پیغام دیا۔ برادران اور والد گرامی کی خواہش تھی کہ چوہدری ظہورالہٰی کے انتخابات کے لئے بینرز،پوسٹرز ،وال چاکنگ اور ایسے ہی دیگر کاموں کے لئے کیش کی صورت میں چندہ مہیاکرسکیں۔چوہدری پرویز الہٰی نے اس جوڑی کا شکریہ ادا کرکے انہیں الوداع کیالیکن یہی ان کے عظیم منفعت بخش سیاسی سفر کا نقطہ آغاز ٹھہرا۔چوہدری ظہور الٰہی قومی اتحاد کے اُمیدوار ہونے کے ساتھ بھٹو کے شدید سیاسی مخالف سمجھے جاتے تھے ۔بھٹو صاحب نے اپنے دور ِحکومت میں بڑی صنعتوں کو نیشنلائیز کرکے صنعتی انقلاب برپاکرنے کے ساتھ ساتھ اس ملک کے محنت کش کی تقدیربدلنا چاہی اورپھانسی چڑھ گئے۔نیشنلائیزیشن اور ایٹم بم کے حصول سمیت ایسے دیگر ’’جرائم ‘‘ کی پاداش میں انہیں پھانسی پر چڑھایاگیا۔ذاتی طور پر بھٹو صاحب کا تعلق بھی جاگیردار طبقے سے تھا کامریڈ انہیں انقلابی لیڈر تسلیم نہیں کرتے مگر تاریخ کا سچ یہی ہے کہ بھٹو کی غریب نواز پالیسیوں سے خوفزدہ ہوکر مراعات یافتہ طبقات نے اتحاد کرکے انہیں اپنے رستے سے ہٹا یا تھا۔یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے بہت سے جمہوری چیمپئنز کی سیاسی انسپائریشن اور سیاست میں انٹری کی وجہ اس بھٹو کی مخالفت تھی جو غریبو ں کا سچا اورہمدرد لیڈر تھا۔
میڈیا او ر سوشل میڈیا میں وزیر اعظم نوازشریف اور ان کے چھوٹے بھائی وزیر اعلیٰ شہبازشریف کے درمیان تعلقات کے حوالے سے افواہیں پھیلائی جارہی ہیں۔سینئر صحافی جو ایک مدت سے شریف خاندان کے قریب ہیں انہوں نے اپنے ٹی وی شو میں شہباز شریف کے حوالے سے یہ فقرہ کوٹ کیاہے کہ ’’ وزارت اعلیٰ ایک طرف بڑے میاں صاحب کیلئے میری جان بھی حاضر ہے ‘‘۔شریف فیملی اسٹرکچر کو سمجھنے والے بزرگ صحافیوں کاکہنا ہے کہ شریف خاندان میں نوازشریف کے پاس ہی ویٹو پاور ہے لہذا دانہ ڈالنے والوں کو کامیابی نہیں ہوگی۔میاں برادران میں تو مثالی محبت کی فلم جاری ہے بلاول اور زرداری صاحب کی سیاست پرگڈ اور بیڈ کا لیبل چسپاں کرنے والے کمنٹیٹرز کوبھی اپنی کمنٹری بدلنا ہوگی۔اباجی ہوں یا ڈیڈی ،والد صاحب ہوں یاوالدگرامی باپ ہرکسی کے لئے قابل احترام ہوتاہے۔پنجابی کی ایک کہاوت ہے’’ماں نالوں ہیچلی پھپپھے کٹنی‘‘یعنی جو ماں سے زیادہ محبت جتائے وہ عورت عیار اور مکار ہوتی ہے۔بلاول بھٹو اپنے والد زرداری صاحب کی اکلوتی نرینہ اولاد ہے یقینا انہیں اس کا سیاسی مستقبل عزیز ہے لہذا یہ کہناکہ زرداری صاحب کے زیر سایہ بلاول کی سیاست پھلے پھولے گی نہیںدرست نہیں ۔ایسا وہ کمنٹیٹرز کہہ رہے ہیں جو پی ٹی آئی اور عمران خان کی سربراہی میں پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک ایسا اتحاد چاہتے ہیں جو نون لیگ کے سومنات پر چڑھ دوڑے۔بلاول نے بھی فیصل آباد میں یہ نعرہ لگایاہے کہ وہ تخت لاہور کا تختہ کردیںگے لیکن طریقہ کار مختلف ہے ۔ہمارے سیاسی سرکٹ میں آمری اورجمہوری فلمیں ہی نمائش ہوتی رہی ہیں،فرق صرف یہ رہاکہ آمری فلموں نے عامر خان کی ’’دنگل‘‘ جیسا بلاک بسٹر بزنس کیااورجمہوری فلموں کو’’ نیک پروین‘‘ جیسی پذیرائی نصیب ہوئی۔ پیپلز پارٹی ماضی میں اسٹیبلشمنٹ سے پنجہ آزمائی کرتے ہوئے مفتوح اور نون لیگ فاتح قرار پائی ۔ہاف ٹائم کے بعد فلم دوبارہ شروع ہوچکی دیکھیں سسپنس ،تھرل اور ایکشن سے بھرپور اس فلم میں آگے کیاہوتاہے ؟؟سوئٹرز لینڈ کے شہر ڈیووس میں وزیر اعظم میاں نوازشریف کی ملاقات سوفٹ ویئر کے بادشاہ بل گیٹس سے بھی ہوئی ہے۔بل گیٹس کاشمار دنیا کی امیرترین شخصیات میںہوتاہے وہ ایک عرصہ سے پولیوکے مرض کے خلاف لڑرہے ہیں ۔بل گیٹس کو چاہئے تھاکہ وہ ہمارے وزیر اعظم کوملک میں پائے جانے والے کروڑوں غریبوں کے لئے کوئی پولیوویکسین بھی تجویز کرتے لیکن تاحال بل گیٹس سمیت کسی نے بھی اس موذی مرض کے خلاف سوشل ورک شروع نہیں کیا۔

.
تازہ ترین