• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ اُس وقت کی بات ہے جب کاروبار کے سلسلے میں میرا زیادہ تر وقت مراکش میں گزرتا تھا۔ ایک روز جب میں علی الصبح اپنے آفس پہنچا تو کچھ پاکستانی نوجوان میرے انتظار میں بیٹھے تھے جن کے چہرے اور کپڑوں سے اُن پر بیتے مشکل حالات کا اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔ نوجوانوں نے مجھے بتایا کہ وہ کئی دنوں سے بھوکے پیاسے ہیں اور ایک سرائے خانے میں پڑے ہیں جہاں سے ہمیں کسی نے آپ کے بارے میں بتایا۔ اُن کے بقول ایک پاکستانی ایجنٹ یورپ بھجوانے کا جھانسہ دے کر ہمیں جعلی ویزوں پر مراکش لے آیا اور وعدہ کیا کہ وہ بوٹ کے ذریعے اسپین لے کر جائے گا جہاں سے ہم یورپ کے کسی بھی ملک جاسکتے ہیں مگر کئی ہفتوں سے ایجنٹ غائب ہے، ہمارے پاس کھانے اور رہنے کے پیسے تک نہیں۔ نوجوانوں نے مجھ سے کچھ مالی مدد اور اسپین بھجوانے میں تعاون کی درخواست کی جس پر میں نے انہیں مشورہ دیا کہ یہ کام بہت پرُخطر ہے اور میں اس سلسلے میں آپ لوگوں کی کوئی مدد نہیں کرسکتا لیکن اگر آپ لوگ پاکستان واپس جانا چاہتے ہیں تو مدد کرنے کیلئے تیار ہوں۔ پاکستانی نوجوانوں نے بتایا کہ ’’ہم اپنا گھر اور خواتین کے زیورات بیچ کر یہاں تک پہنچے ہیں اور اب کس منہ سے وطن واپس جائیں گے‘‘۔ میں نے ان کی کچھ مالی مدد کی اور رخصت ہوتے ہوئے انہیں ایک بار پھر تنبیہ کی کہ وہ یورپ جانے کا خیال دل سے نکال دیں مگر وہ میری باتوں سے قائل نہیں ہوئے۔ کچھ ہی دنوں بعد مراکش کے ایک مقامی اخبار میں ان پاکستانی نوجوانوں کی تصاویر کے ساتھ یہ خبر شائع ہوئی کہ ’’مذکورہ پاکستانی رات کے اندھیرے میں چھوٹی کشتی میں مراکش کے شہر تنجیر سے غیر قانونی طور پر اسپین جارہے تھے، بارڈر سیکورٹی فورس نے جب ان کی کشتی پر سرچ لائٹ ماری تو کشتی میں سوار تمام افراد نے گرفتاری کے خوف سے سمندر میں چھلانگ لگادی اور ڈوب کر جاں بحق ہوگئے۔‘‘
ان پاکستانی نوجوانوں کے چہرے کئی دن تک میرے سامنے گھومتے رہے، آج بھی جب کسی اخبار میں غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے والوں کے بارے میں خبریں پڑھتا ہوں تو ان نوجوانوں کے چہرے میرے سامنے آجاتے ہیں۔ گزشتہ کئی دنوں سے ملکی و غیر ملکی اخبارات میں پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے مسلسل خبریں شائع ہورہی ہیں۔ ملک میں امن و امان کی خراب صورتحال، غربت اور بیروزگاری کے باعث نوجوانوں میں بیرون ملک جانے کی خواہش روز بروز شدت اختیار کرتی جارہی ہے جس میں گزشتہ کچھ عرصے کے دوران بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ’’لیبر مائیگریشن فرام پاکستان‘‘ کی اسٹیٹس رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق 2014ء میں بیرون ممالک سے پاکستانیوں کو سب سے زیادہ ڈی پورٹ کیا گیا جن کی تعداد تقریباً ایک لاکھ تھی جبکہ گزشتہ 3سالوں کے دوران ڈھائی لاکھ سے زائد پاکستانیوں کو بیرون ملک سے ڈی پورٹ کیا جاچکا ہے۔ ڈی پورٹ کئے جانے والوں میں سے اکثریت کا تعلق گجرات، جہلم، بہاولپور، منڈی بہائو الدین اور پاکستان کے دیگر شہروں سے ہے۔ ان علاقوں کے لوگ یہ دیکھ کر کہ محلے کے کسی خاندان کے نوجوان کے بیرون ملک جانے سے اس خاندان کے معاشی حالات بہتر ہوگئے ہیں تو وہ بھی اسی لالچ میں اپنے جوان بیٹوں کو بیرون ملک جانے کی ترغیب دیتے ہیں مگر خاندان کی معاشی بہتری اور اپنی آنکھوں میں روشن مستقبل کے سہانے خواب سجائے بیرون ملک جانے کے خواہشمند بیشتر نوجوان انسانی اسمگلنگ میں ملوث ایسے ایجنٹوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو نوجوانوں کو بہتر مستقبل کا خواب دکھاکر غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک لے جانے کا جھانسہ دیتے ہیں جس کے عوض وہ ان سے بھاری رقوم بٹورتے ہیں۔ ان نوجوانوں میں سے کچھ خوش نصیب ہی منزل مقصود تک پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں جبکہ بیشتر نوجوان یا تو دھرلئے جاتے ہیں یا اپنی زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں۔
انسانی اسمگلنگ میں ملوث جرائم پیشہ افراد جو طویل عرصے سے اس گھنائونے کاروبار میں ملوث ہیں، اب انہوں نے انسانی اسمگلنگ کی تجارت کا نیا طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کو اغوا کرکے اُن کی فیملی سے تاوان وصول کرنا شروع کردیا ہے۔ اس نئے طریقہ کار کا انکشاف اُس وقت ہوا جب گزشتہ دنوں ترکی کی پولیس نے استنبول کے علاقے عثمان پاشا سے 6پاکستانیوں کو انسانی اسمگلرز کے چنگل سے بازیاب کرایا جن میں سے 4افراد کا تعلق گوجرانوالہ جبکہ دیگر 2 افراد کا تعلق مردان اور پشاور سے تھا۔ روزگار کی غرض سے ترکی کے راستے یورپ جانے والے ان پاکستانی نوجوانوں کو انسانی اسمگلرز سبز باغ دکھاکر غیر قانونی طریقے سے ترکی لائے تھے جنہیں بعد ازاں وہ اغواکرکے ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ان کی تصاویر اہل خانہ کو بھیج کر فی کس 20لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کرتے رہے۔ اس بات کی تصدیق ترکی میں قائم پاکستانی سفارتخانے نے بھی کی کہ ’’ترک پولیس نے انسانی اسمگلروں کے چنگل سے مغوی پاکستانی نوجوانوں کو بازیاب کرالیا ہے۔‘‘ ایسی اطلاعات ہیں کہ ترک پولیس کی معلومات پر پاکستانی نوجوانوں کے اغوا میں ملوث گینگ کے کچھ افراد کو پاکستان سے بھی گرفتار کیا گیا ہے تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ اغواکاروں کے چنگل سے بازیاب ہونے والے نوجوان جب ترکی سے وطن واپس لوٹے تو ایف آئی اے نے انہیں بھی گرفتار کرلیا۔
انسانی اسمگلنگ سے جہاں ایک طرف بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی بدنامی ہوتی ہے، وہیں غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کے پکڑے جانے اور ڈی پورٹ کئے جانے سے بھی ملک کی تضحیک ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ میں پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے جس تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو آنے والے وقتوں میں یہ ایک معاشی بیماری کی صورت اختیار کرجائے گا۔ انسانی اسمگلنگ میں ملوث ایجنٹ، معصوم نوجوانوں کو اپنے جال میں پھنسانے کیلئے ملک بھر میں دندناتے پھررہے ہیں مگر اس کے باوجود حکومتی اداروں کی خاموشی معنی خیز ہے جو شاید انسانی اسمگلرز کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ میں اپنے کالم کے توسط سے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے درخواست کرتا ہوں کہ جس طرح حکومت نے ’ضرب عضب‘ اور ’کراچی آپریشن‘ کرکے ملک سے کافی حد تک دہشت گردی کا خاتمہ کیا ہے، اُسی طرح انسانی اسمگلنگ کے خلاف بھی آپریشن شروع کرکے اس گھنائونے دھندے میں ملوث جرائم پیشہ افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے تاکہ آئندہ کوئی بھی پیسے کے لالچ میں نوجوانوں کی زندگی سے نہ کھیل سکے۔ بیرون ملک جانے والے نوجوانوں کے اہل خانہ پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے پیاروں کی غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے کی حوصلہ شکنی کریں تاکہ کل وہ اُن کی موت کا ذمہ دار خود کو نہ ٹھہراسکیں۔



.
تازہ ترین