• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مری میں داخل ہوتے ہی روئی کے گالوں کی طرح گرتی ہوئی برف کی خوبصورتی نے ہمارا استقبال کیا ، یہ برف یکساں طور پر زمین، درخت اور سبزے پر گر رہی تھی لیکن کالے تارکول سے بنی ہوئی سڑک برف سے لطف اندوز ہوتے ان بچوں کی طرح اس گرتی برف کا مقابلہ کررہی تھی اور برف کی سفیدی کے باوجود جھانک رہی تھی جس طرح وہ بچے گرتی برف کی سردی سے بے پرواہ ہوکر بر ف سے ڈھکے ہوئے ایک میدان میں اچھل رہے تھے ، رنگ برنگے کپڑے پہنے ،خوشی میں اچھلتے کودتے یہ بچے دیکھ کر ان پر بے پناہ پیار آرہاتھا، بچوں کے والدین بھی اس ماحول سے لطف اندوز ہورہے تھے اور انجوائے کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں کو روک بھی ر ہے تھے کہ بس اب لو ٹ آئیں ورنہ بیما ر ہو جا ئیں گے، لیکن بچو ں کو تو شاید اس یخ بستہ گرتی برف اور انہیں اٹھا اٹھا کر گولوں کی شکل دے کر اپنے ہم عمروں پر برسانے میں بہت لطف آرہا تھا اوروہ ہر سنی ان سنی کررہے تھے، برف کا یہ نظارہ میرے لئے نیا نہیں تھا، میں مری ،سوات، ناران کاغان کے علاوہ دنیا کے کئی ملکوں میں اس گرتی برف اور دھرتی کو برف کی چادر اوڑھے دیکھ چکا ہوں لیکن یہ منظر مجھے بہت لطف اندوز کررہا تھا ، ہم گاڑی میں آگے بڑھتے جارہے تھے، ہفتے کا عام دن ہونے کی وجہ سے زیادہ رش بھی نہ تھا، گاڑیاں آسانی سے آجارہی تھیں، ان روٹس پر چلنے والی وہ گاڑیاں جو مسافروں کو لانے لے جانے کیلئے استعمال ہوتی ہیں ان کی بے دھڑک اور لاپرواہی والی ڈرائیونگ دیکھ کر یہ خوف پیدا ہورہا تھا کہ کہیں وہ خدانخواستہ کسی حادثے کا شکار نہ ہوجائیں یا کسی گاڑی سے ٹکرا نہ جائیں کیونکہ ان کی مہارت تو اپنی جگہ لیکن وہ لوگ جنہیں ان پہاڑی راستوں پر ڈرائیونگ کا تجربہ نہیں وہ بھی غلطی کرسکتے ہیں اور اس کی وجہ سے کوئی بھی بڑا حادثہ رونما ہوسکتا ہے، لیکن ان کی لاپرواہی اور تیز رفتاری پر کہیں کوئی کمی نظر نہ آئی ملک کے دوسرے حصوں سے آئے ہوئے سیاح اور شہری جہاں اس برف سے خوش نظر آرہے تھے، وہاں مقامی لوگوں کے چہروں پر بے زاری اور تھکاوٹ کے اثرات عیاں تھے، کیونکہ برفباری کی وجہ سے ان کی زندگی کسی بھی عذاب سے کم نہیں ہوتی ۔پانی اور ایندھن کی کمی اور اپنے گھروں تک رسائی کی ناہموار راستے ان کی زندگی کو اجیرن بنادیتے ہیں، جن لوگوں کے پاس وسائل ہوتے ہیں وہ اس سخت برفباری اور سرد موسم میں راولپنڈی اسلام آباد یا ان نواحی علاقوں کا رخ کرتے ہیں جہاں موسم کی شدت میں کمی ہوتی ہے ، تاہم وہ مقامی تاجر جو یہاں کاروبار کرتے ہیں وہ سیاحوں کی زیادہ تعداد میں آمد کی وجہ سے خوش نظر آتے ہیں کیونکہ ان کی آمدنی کا انحصار سیاحوں کی آمد پرہوتا ہے ، مری سے آگے بھور بن پہنچ کر ہم نے لنچ کیا، سردی میں لگی بھوک کی شدت کے باوجود کھانے سے زیادہ لطف واپسی پر سڑک کے کنارے ایک چھپر ریسٹورنٹ کی گرما گرم چائے نے دیا، مری تک ایکسپریس وے کی کشادہ سڑک کی وجہ سے تو سفر بہت اچھا رہتا تھا لیکن اس کے بعد ایک بے ہنگم منہ زور اور بے ترتیب ٹریفک خطرناک اور تاخیر کا باعث بنتی ہے، مری جاتے ہوئے ایک اور چیزجس کا ہم نے مشاہدہ کیا کہ شاہرائوں کے اطراف میں سافٹ ڈرنکس کی خالی بوتلیں ، ڈسپوزایبل گلاس، کپ اور ڈبوں کے علاوہ چپس کے پیکٹس اور پلاسٹک کے شاپرز کے ڈھیرے لگے ہوئے ہیں ، جنہیں پھینکنے والے اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ ہم اگر یونہی یہ گندگی پھیلاتے رہے تو پھر سبزے اور درختوں سے سجے ہوئے پہاڑیوں کی جگہ گندگی کے ڈھیر ہونگے، واپس پر ٹریفک میں زیادتی کی وجہ تو معلوم نہیں ہوسکی لیکن موسم کی زیادہ خرابی کے باعث اب شاہراہوں پر پھسلن زیادہ ہوچکی تھی بلکہ ایک کوسٹر کے پھسلنے کی وجہ سے پوری شاہراہ بلاک ہوچکی تھی، جہاں سمجھدار ڈرائیورز نے اپنی گاڑیاں ایک لین پر کھڑی کر رکھی تھیں، وہاں بدنظم لوگوں نے دُہری لین بناکر ٹریفک کو بالکل بلاک کردیا تھا، جہاں کچھ مقامی لوگوں کیوجہ سے کوسٹر کو سیدھا کردیاگیا وہاں دُہری لین بنانے والوں کی وجہ سے ٹریفک میں گاڑیاں بالکل پھنس کر رہ گئی تھی اور تقریباً چار گھنٹے یونہی ٹریفک جام رہا اور کچھ اچھے لوگوں کی محنت کی وجہ سے گاڑیاں اس قابل ہوئیں کہ رینگ رینگ کر چلنے لگیں،کاش ایک چھوٹی سی غلطی اور جلد بازی کی وجہ سے ہم دوسرے کے سارے لطف اور سیاحت کو غارت نہ کریں، اس میں ہمیں خود اپنی تربیت کرنا ہوگی،تھو ڑ ی سی احتیا ط سے ہم ان لمحو ں کو زیا دہ انجو ا ئے کر سکتے ہیں۔

.
تازہ ترین