• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدر ٹرمپ، بطور ٹرمپ کارڈ، حافظ سعید کے خلاف استعمال ہو چکے۔ سوموار، حافظ صاحب سے مقامی ہوٹل میں تفصیلی ملاقات رہی۔ منو بھائی، سجاد میر سمیت دو درجن سینئر اور نئے ابھرتے نوجوان سمیت میڈیا کی گلیکسی موجود تھی۔ معلوم نہ تھا، حافظ صاحب چند گھنٹوں بعد دھر لئے جائینگے۔ شاطر، ’’ترپ کے پتہ‘‘ (Trump Card) سے بخوبی واقف، کماحقہٗ استعمال جانتے ہیں۔ غلط فہمی نہیں کہ صدر ٹرمپ، امریکی اسٹیبلشمنٹ کا ’’ٹرمپ کارڈ‘‘ ہے۔ باریک بینی درکار، قرائن بقرینہ نشاندہی، دل بھی ماننے پر آمادہ، امریکہ اب بھی اپنی فضیلت، بزرگی اور برتری پر سمجھوتہ کرنے پر تیار نہیں۔ امریکہ سمجھنے سے قاصر کیوں؟ عرصے سے معاشرت، اقتصادیات، سیاست، قوت تیزی سے انحطاط پذیر ہے۔ تیزی سے گھٹتا وقار، کھویا اثر و رسوخ، دگرگوں اقتصادیات اور قوت، جارحیت ومدافعت کو امتحان درپیش ہے۔ ٹرمپ، ابتری اور ہولناکی کو تیزتر ہی کر پائے گا۔ لگتا ہے "Law of Diminishing Return" روبہ عمل ہے۔ دوران صدارتی انتخابی دوڑ، اپنے کالم اور ٹی وی پروگرام میں دلجمعی سے ٹرمپ کی کامیابی کے لئے دعاگو رہا۔ یقین محکم تھا، ٹرمپ تباہی کا عمل تیز رکھنے میں ہلیری کلنٹن پر سبقت رکھے گا۔ آج ٹرمپ پالیسیاں پچھلے چار صدور سے قطعاً مختلف نہیں، فرق صرف طریقہ کار کا۔ بش سینئر، کلنٹن، بش جونیئر، اوباما (ہلیری) جو فریضہ رات اندھیرے فرماتے رہے، ٹرمپ ننگ دھڑنگ، دن دیہاڑے فرما رہے ہیں۔
ارادہ تھا کہ آج کا کالم، امریکی چالوں کے تسلسل کو ٹرمپ کے ابتدائی فیصلوں سے جوڑوں گا۔ حافظ سعید کی بے ہنگم نظربندی، امریکی پالیسی کے مطابق بھی، آج کے کالم کا موضوع بنانا پڑا۔ بالکل متفق کہ ’’آندھی چلے تو نرم گھاس اور کمزور درختوں کے لئے جھک جانے میں عافیت‘‘۔ حکومت پاکستان کا موجودہ قدم، اس تناظر میں میں لیا جائے، تو زود فہم۔ معدودے چند کاحافظ سعید صاحب کے خلاف پراپیگنڈہ یامعاندانہ رویہ خبث دروںہی جانیے، امریکی/بھارتی گماشتہ گری کہلائے گی۔ پاکستانی قوم یکسو، متفق و متحد کہ حافظ سعید کسی قسم کی دہشت گردی، فرقہ واریت، نفرت انگیز تقاریر میں کبھی بھی ملوث رہے، نہ ہیں۔ یہ بات حتمی، تحریک آزادی کشمیر اور وطن عزیز کے مفادات حافظ صاحب کی کمزوری اور دکھتی رگ سمجھیں۔ 20کروڑ اہل وطن بھی اسی دائمی عارضے میں مبتلا ہیں۔ پاکستانی قوم کے نزدیک، تحریک آزادی کشمیر پر آوازِ سعید، قومی امنگوں کی ترجمان، وطنی نوید سعید۔ تحریک آزادی کشمیر، بھارت کی ناک میں دم، کسی لمحے دم نکلنے کو۔ حافظ سعید پر تلملانا بنتا ہے۔
میرے لئے مضحکہ خیز ضرور، حافظ صاحب کی کل ہونے والی نظر بندی کے اسکرپٹ کا انکشاف دو ماہ پہلے بھارت کی مقبول ترین ویب سائٹ ’’ون انڈیا‘‘ پر ہو چکا۔ دسمبر کے شروع میں ’’بلاگ ‘‘ پوسٹ ہوا۔ جس میں آج رونما ہونے والی کارروائی کی مکمل تفصیل درج تھی۔ انڈین انٹیلی جنس بیورو نے ہی بلاگر کوبتایا تھا کہ ’’لشکر طیبہ کے سربراہ حافظ سعید کو بہت جلد پابندیوں کا سامنا رہے گا‘‘۔ امریکہ کے مطالبے پر حکومت پاکستان شدید دبائو میں ہے۔ بھارت کو بہت بڑی فتح حاصل ہونے والی ہے۔ شروع میں حافظ سعید کو نظر بند کر کے پابند کیا جائے گا تاکہ عوام سے دور رہیں۔ امریکہ کی طرح برطانیہ نے بھی پاکستان پر ایسا دبائو ڈال رکھا ہے۔ پہلی ابتدا نظر بندی، بعد ازاں حافظ سعید پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بندش لاگو ہو جائے گی‘‘۔
امریکہ نے بھارت کو بغل بچہ بنایا تو پاکستان کو ہتھیانے کی ساتھ ہی ٹھانی۔ چین کے اردگرد ’’جنوبی دیوار چین‘‘ تعمیر کرنا، مقصد تھا۔ بھلا ہو چین، روس، پاکستان گٹھ جوڑ کا، امریکی و بھارتی ریشہ دوانیوں کی قدر و قیمت گھٹا دی۔ حافظ صاحب کی نظر بندی پر شوشہ کہ چین کا دبائو آیا، روس نے دبائو ڈالا، دھوکہ دہی کہلائے گا۔ چند ماہ پہلے چین نے اپنے طور مسعود اظہر پر ویٹو کیا۔ بھارت کو بلوچستان پر دبے الفاظ میں وارننگ دی۔ ہر طرح کی غیر مبہم گارنٹی دیتا ہوں بفرض محال UN میں جماعت الدعوۃ پر پابندیوں کی قرار داد آج آتی تو چین ویٹو کرتا،2017ہرگز 2009نہیں ہے۔ 2009میں ایسے ہی دبائو پر حافظ سعید کے خلاف ایسا ایکشن لیا گیا تو پاکستان کی اپنی عدالتوں نے ردی کا حصہ بنا یا۔ عدالتی فیصلے پر نظر دوڑائیں اور موجودہ حکومتی موقف کو پرکھیں، کھوکھلا پن عیاں ہے۔
عدالت عالیہ کے معزز ججوں کافیصلہ:’’حافظ سعید جن کو پہلے پرویز مشرف کی حکومت نے نظر بند کیا تو لاہور ہائیکورٹ نے رہا کر دیا، یہ ظاہر کرتا ہے کہ ملزم کے خلاف اور ان کی جماعت کے خلاف کوئی الزامات نہیں تھے۔ یہ بات بھی ثابت ہوئی ہے کہ جماعت الدعوۃ کبھی بھی پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث نہیں رہی۔ اس جماعت اور نظر بند افراد کے خلاف آج تک کوئیFIR درج نہیں ہوئی۔ ملک کے اندر کسی بھی حصے میں، خون خرابے، دہشت گردی یا املاک کی تباہی میں کبھی ملوث رہی اور نہ کوئی ایسا مواد کسی کورٹ میں پیش کیا گیا۔ جماعت الدعوۃ ایک خود مختار تنظیم ہے اور اس کا لشکر طیبہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ حافظ محمد سعید اور ان کے ساتھیوں کو اقوام متحدہ کی قرارداد کی وجہ سے نظر بند کیا گیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کو خود اس بات پر اعتماد نہیں ہے کہ کس وجہ سے نظر بندی کا حکم دیا گیا۔ یہ بات واضح ہے کہ حکومت نے آئین کے آرٹیکل 10(5)کی خلاف ورزی کی ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں ہر شہری کو قانون کا تحفظ حاصل ہے جو ہرشہری کا بنیادی حق ہے۔ حافظ سعید کی طرف سے اقوام متحدہ کی قرارداد کو چیلنج کیا گیا ہے اور دلائل دئیے ہیں کہ ’’پاکستان ایک خود مختار مملکت ہے اور اقوام متحدہ کی قرارداد کو پاکستان میں لاگو کرنا ضروری نہیں۔ جیسا کہ کشمیر کے معاملہ پر بھارت، اقوام متحدہ کی قراردادوں کو درخور اعتناء نہیں سمجھتا۔ بے شمار دوسری قراردادوں پربھی عمل نہیں ہو پا رہا‘‘۔ اٹارنی جنرل نے کہاہے کہ ’’نظر بند افراد پر الزام ہے کہ وہ ممبئی حملوں میں ملوث تھے‘‘ لیکن ایسا کوئی ایک بھی ڈاکومنٹ ریکارڈ میں موجود نہیں کہ جس میں یہ لکھا ہو کہ جماعت الدعوۃ یا نظر بند افراد ممبئی حملوں میں ملوث ہوں۔
جہاں تک اقوام متحدہ کی قرارداد کا تعلق ہے کہ ذکی الرحمٰن لکھوی اور حافظ محمد سعید کے القاعدہ کے ساتھ تعلقات ہیں، ہم نے پہلے بھی ایک کیس میں یہ مشاہدہ کیا تھاکہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ جماعت الدعوۃ کے القاعدہ کے ساتھ تعلقات ہیں۔اس تازہ الزام کے مطالعہ سے ہمیں کوئی ایسی بات نہیں ملی کہ جس میں کسی فرد کو سیکورٹی کے پیش نظر نظر بند کیا جانے کا لکھا ہو۔ اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملاکہ ان افراد کا کسی دہشتگرد تنظیم سے تعلق ہو۔ ماسوائے وہ الزامات جوکہ ’’بھارتی لابی‘‘لگاتی ہے۔نظر بندافراد ممبئی حملوں میں ملوث ہیں یاکسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہوں، شواہد نہیں ملے۔ درخواست کو قبول کیا جاتا ہے ۔ نظربندی کے غلط احکامات اور اس کے بعد دوسرے غیر قانونی احکامات کوختم کیا جاتا ہے اور ’’دونوں ملزمان کو آزاد کیا جاتا ہے‘‘۔
حکومت نے ہائی کورٹ فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل دائرکی ، وہاں بھی منہ کی کھائی ۔آنرایبل سپریم کورٹ کا فیصلہ:’’حکومت کااقوام متحدہ کی ایک قرارداد کی بنیاد پر نظربندرکھنا، جائز نہیں۔ خفیہ اور حساس دستاویزات جو کہ حساس اداروں کی طرف سے عدالت میں جمع کروائی گئیں، نظر بندی کیلئے بالکل ناکافی اور غیر موثر ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل کے بیان کے مطابق، ہائی کورٹ کی طرفسے رہائی سے لیکر اب تک حافظ محمد سعید اور دیگر نظر بند افراد پر کوئی شکایت نہیں ہے۔ یہ بات ہی اس فیصلے کے لیے کافی ہے کہ ان کونظر بند رکھنے کی کوئی جواز نہیں۔لہٰذا ہم نظر بندی کے سوال کو بالکل بے حیثیت سمجھتے ہیں۔ ہائیکورٹ کے فیصلے کی توثیق کرتے ہیں‘‘۔
مان گئے کہ امریکہ کا ڈومور ابھی موثرہے۔ پرانا الزام، پرانا مقدمہ، پرانی کارروائی۔اپیل کی تو عدالتی فیصلہ بھی پرانا ہی ہوگا۔ حافظ صاحب سے گزارش ، قانونی مشورہ ضرورکریں۔ قانونی چارہ جوئی نہ کریں کہ حکومتی جان شکنجے اندر۔




.
تازہ ترین