• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایسا ہر گز نہیں کہ قبائلی علاقوں میں رہنے والے فرشتے ہیں۔ خامیاں بیان کرنے لگ جائوں تو کتابیں تحریر کی جاسکتی ہیں ۔ غربت اور جہالت کے شکار انسان یوں بھی آسانی سے غلط راہ پر لگائے اور استعمال کئے جاسکتے ہیں لیکن بحیثیت مجموعی وہ پاکستان کے محسن ہی ہیں ۔ قیام پاکستان کے وقت افغانستان سے اپنے خونی اور تاریخی رشتہ ہونے کے باوجود انہوں نے خودکو پاکستان کا حصہ بنادیا۔ پھر آزادکشمیر کی آزادی میں اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا۔ امریکہ اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے مل کر دنیا بھر سے مجاہدین کو فاٹا میں لابسانے اور ان قبائلیوں کے علاقے کو بیس کیمپ بنانے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے پاکستان کی خاطر اپنے گھر بار اور کاندھے پیش کئے ۔ فیصلہ بھٹو کا تھا یا جنرل ضیاکا لیکن افغان مہاجرین کو انہوں نے گلے لگایا۔ یہ لوگ پچاس سال تک پاکستان کی مغربی سرحد کی حفاظت کرتے رہے اور مشرقی سرحد کے برعکس کبھی وہاں ایک لاکھ فوج تعینات کرنے کی بھی ضرورت نہ رہی ۔ نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف نے امریکہ کے دبائو پر وہاں فوج بھجوانا چاہا تو قبائلی ہر ایجنسی میں ہار لئے ان کے استقبال کے لئے کھڑے رہے ۔ پھر جنرل پرویز مشرف نے ڈبل گیم کی پالیسی کے تحت وہاں گڈ طالبان کے ٹھکانوں سے صرف نظر کی پالیسی اپنائی تو قبائلی ایک بار پھر قوم کے وسیع تر مفاد میں خاموشی سے وہ سب کچھ برداشت کرتے رہے ۔ لیکن دوسری طرف ریاست پاکستان نے انہیں بدلہ یہ دیا کہ پچاس سالوں میں انہیں اپنے وجود کا قانونی، آئینی اور انتظامی حصہ بنانا بھی گوارا نہیں کیا۔ نہ تعلیم کی سہولت نہ علاج کی ، نہ سڑک اور نہ صنعت۔ انگریز نے ان کو غلام رکھنے کے ایف سی آر کا جو ظالمانہ قانون رائج کیا تھا، وہ ساٹھ سال گزرنے کے بعدبھی اس ظالمانہ قانون کے تحت زندگی گزاررہے ہیں ۔ نہ وہ سپریم کورٹ جاسکتے ہیں اور نہ ہائی کورٹ ۔ نہ اسمبلی میں ان کے لئے قانون سازی ہوسکتی ہے اور نہ پختونخوا صوبے کی اسمبلی ان کے کسی ظالمانہ قانون میں ترمیم کرسکتی ہے ۔حالانکہ پختونخوا صوبے کا گورنر ان کا چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے ، یہاں کی بیوروکریسی ان کا انتظام چلاتی ہے اور یہاں کےاسپتال اور یونیورسٹیاں وہ استعمال کرتے ہیں ۔ ان کے نام پر امریکہ اور عرب دنیا سے آنے والے فنڈز باقی پاکستان میں خرچ ہوتے ہیں ۔ ان کے نام نہاد ممبران اسمبلی اور سینیٹ کی اکثریت پیسے کے زور پر منتخب ہوتی اور بار بار بکتی ہے ۔ ظلم حد سے بڑھ گیا تو قبائلی عوام خود کھڑے ہوگئے ۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب قبائلی علاقوں کے نوجوان موجودہ نظام کے خاتمے اور پختونخوا یا باالفاظ دیگر پاکستان کے ساتھ انضمام کے لئے مظاہرے نہیں کرتے ۔ ماضی میں فوج بھی رکاوٹ ڈالتی رہی لیکن جنرل راحیل شریف کے دور میں پہلی مرتبہ فوج بھی قبائلی علاقوں کو قومی دھارے میں لانے کی حامی بن گئی ۔ چنانچہ اس سے مجبور ہوکر ایک سال کی تاخیر کے بعد ہی سہی لیکن وزیراعظم میاں نوازشریف نے قبائلی علاقوں کو قومی دھارے میں لانے کے لئے ایک کمیٹی سرتاج عزیز صاحب کی سربراہی میں بنا دی ۔ مجھے خود اس کمیٹی کی ساخت پر اعتراض تھا اور بعض اپوزیشن جماعتوں نے بھی اعتراضات اٹھائے لیکن مولانا فضل الرحمان صاحب اور محمود خان اچکزئی صاحب ، نے میاں صاحب کی ناراضی سے بچنے کے لئے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ اس کمیٹی نے اپنی سفارشات مرتب کرنے کے عمل پر ایک سال کا عرصہ لگا دیا ، حالانکہ ہم جیسے طالب علم سمجھتے تھے کہ کمیٹیوں پر وقت ضائع کرنے کی بجائے فوراً کے پی کے ساتھ انضمام کا عمل شروع کردینا چاہئے ۔ وہ کمیٹی میاں نوازشریف کے نامزد کردہ گورنر کے ساتھ مختلف قبائلی علاقوں میں گئی اور ان کے بقول تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشورے کئے ۔ اس کمیٹی نے پختونخوا کے ساتھ انضمام کے حق میں فیصلہ دیا اور پانچ سال کے عرصے میں اسے مکمل کرنے کے لئے ایک روڈ میپ دیا۔ اس عارضی وقفے کے لئے کمیٹی نے ڈویزیبل پول سے تین فی صد رقم مختص کرنے کی سفارش کی ہے حالانکہ ہم جیسے طالب علموں کی رائے میں یہ تین فی صد نا کافی ہے لیکن چونکہ وفاقی حکومت کی ترجیحات میں فاٹا جیسے علاقوں کی بجائے موٹروے اور میٹرو وغیرہ سرفہرست ہیں ، اس لئے وہ مذکورہ رقم فراہم کرنے کو بھی تیار نہیں ۔ اسحاق ڈار صاحب زیادہ سے زیادہ ایک فی صد دینے کو تیار ہیں ۔ چنانچہ میاں صاحب نے رکاوٹ ڈالنے کے لئے پہلے تو ایک ایسے شخص کو وہاں گورنر نامزد کرکے بھیجا کہ جو بمشکل اپنے آپ کو سنبھال سکتے ہیں ۔ اس وقت گورنر وہ ہیں اور انتظام دیگر چار پانچ افراد کے ہاتھ میں ہے جنہوں نے کرپشن کا بازار گرم کررکھا ہے ۔ وہ گورنر رہے تو یہ اصلاحات سو سال میں بھی نہیں ہوسکتیں ۔ دوسری طرف انہوں نے اپنے دو پراکسیز یعنی مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی کو میدان میں اتار لیا۔ مولانا کے مسئلے کی نوعیت ذرا مختلف ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ الگ صوبے بننے کی صورت میں وہاں ان کا ہی سکہ چلے گا لیکن اچکزئی صاحب کی پارٹی کا قبائلی علاقوں میں سرے سے وجود ہی نہیں اور گزشتہ انتخابات میں ان کو پورے قبائلی علاقوں سے چند سو ووٹ ملے ہیں ۔ چنانچہ اب وہ روایات کی آڑ لے کر آئیں بائیں شائیں کرتے ہوئے قبائلی علاقوں کے پختونخوا کے ساتھ ضم ہونے کے معاملے میں رکاوٹ ڈال کر وزیراعظم اور اسحاق ڈار کاکام آسان کررہے ہیں ۔ سال بعد وزیراعظم کہیں گے کہ وہ تو قبائلی علاقوں کو پاکستان کا حصہ بنارہے تھے لیکن پختونوں کے لیڈروں کا اتفاق رائے نہیں ہوسکا۔ اب یہ پختون رہنما باقی ملک میں تو جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بات کرتے ہیں لیکن قبائلی علاقوں میں انہیں ’’جرگہ‘‘ یاد آجاتا ہے ۔ اب اگر قبائلی علاقوں کی روایات میں جرگہ کو اہمیت حاصل ہے تو کیا بلوچستان کے پختونوں کی روایات نہیں اور کیا وہاں جرگہ کو اہمیت حاصل نہیں ۔ کیا وہاں محترم اچکزئی صاحب کے بھائی کو گورنر اور وزیر کسی جرگہ نے بنا دیا ہے ؟۔ جن انتخابات کے نتیجے میں وہ بلوچستان کے پختونوں کے حکمران اور ان کی قسمت کے مالک بنے ہیں ، انہی انتخابات میں منتخب ہونے والے قبائلی علاقوں کے منتخب نمائندوں نے قومی اسمبلی میں جو قرارداد پیش کی ہے ، اس میں پختونخوا کے ساتھ انضمام کو پہلا آپشن رکھا گیا ہے ۔ قبائلی علاقوں میں سب سے زیادہ سیٹیں مسلم لیگ (ن) کو ملی ہیں اور مسلم لیگی شہاب الدین خان آف پشت انضمام کے حق میں سب سے توانا آواز ہیں ۔ پختونخوا کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف انضمام کے حق میں ہے ، پیپلز پارٹی اس کے حق میں ہے ۔ سب سے بڑی پختون قوم پرست جماعت اے این پی انضمام کے حق میں ہے ، جماعت اسلامی انضمام کے حق میں ہے لیکن ایک مولانا فضل الرحمان مخالف ہیں اور ایک محمود خان اچکزئی اور تماشہ یہ ہے کہ دونوں جمہوریت کے سب سے بڑے نام لیوا بھی ہیں ۔ کون نہیں جانتا کہ ایف سی آر کے اس نظام نے قبائلی عوام کو تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا۔ گزشتہ دس پندرہ سالوں میں ان پر مظالم کے جو پہاڑ ڈھائے گئے ، اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ۔ جس بھیانک غلامی کی زندگی وہ گزاررہے ہیں ، اس کااس اکیسویں صدی میں تصور بھی نہیں کیاجاسکتا ۔ اس نظام کی وجہ سے یہ قبائلی علاقے اپنے باسیوں کے لئے جہنم اور باقی پاکستان کے لئے مصیبت بنے ہوئے ہیں ۔ وہاں کا نظام اگر بہت بہتر ہے تو مولانا صاحب یا اچکزئی صاحب وہاں منتقل کیوں نہیں ہوجاتے ۔ خود تو ان کا رخ اسلام آباد کی طرف ہے لیکن باقی قبائلیوں کو اس اندھیرے میں الگ تھلگ رکھنا چاہتے ہیں ۔ جب قبائلیوں کو بے گھر کیا جارہا تھا ، جب عسکریت پسند ان پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہے تھے اور جب ان کے گھروں کو ایف سولہ جہازوں کی بمباریوں سے مسمار کیا جارہا تھا تو یہ روایات کہاں تھیں؟۔ ہمیں بتایا جائے کہ محترم اچکزئی صاحب نے گزشتہ پندرہ سالوں میں کیا کسی ایک قبائلی علاقے کا دورہ کیا ہے اور کسی ایک بے گھر قبائلی کو اپنے گھر میں پناہ دی ہے جو آج وہ ان قبائلیوں کے علمبردار بن گئے ۔ آج بھی لاکھوں قبائلی آئی ڈی پیز کی صورت میں دردر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ اگر محترم اچکزئی صاحب نے کسی ایک آئی ڈی پیز کیمپ کا دورہ کیا ہو تو ہمارے علم میں بھی لایا جائے ۔
اب جب قبائلی بیدار ہورہے ہیں اور پہلی مرتبہ ان کو امید پیدا ہوئی ہے کہ وہ بھی اسی طرح پاکستانی بن جائیں گے جس طرح کہ اچکزئی صاحب اور مولانا صاحب ہیں تو انہیں کیوں تکلیف ہورہی ہے ۔ تبھی تو میں کہتا ہوں کہ اس ملک میں اسلام کے نفاذ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مذہبی جماعتیں ہیں ، پاکستان سے زیادہ لوگوں کو پاکستان کے ٹھیکیداروں نے متنفر کیا ہے اور پختونوں کی بربادیوں کے سب سے بڑے ذمہ دار ان کے نام پر سیاست کرنے والے قوم پرست لیڈر ہیں ۔ میاں صاحب سیاست کے گرو ہیں ۔ وہ اپنے پراکسیز کو استعمال کرکے جو کھیل کھیلنا چاہتے ہیں ، ان کی مرضی لیکن انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اگر اب بھی انہوں نے قبائلی علاقوں کو پاکستان کا حصہ نہ بنایا تو پختونوں کی آئندہ نسلیں انہیں کبھی معاف نہیں کریں گی ۔ صرف یہ نہیں بلکہ جب تک قبائلی علاقوں کی یہ حالت رہے گی ، باقی پاکستان کو بھی سکون نصیب نہیں ہوسکے گا ۔ یہ علاقے پورے پاکستان کے لئے درد سر بنے رہیں گے اور ظاہر ہے لاہوربھی محفوظ نہیں رہے گا۔ سید یوسف رضاگیلانی اگر اپنے دور حکومت میں قبائلی علاقوں کو بھی ملتان کی طرح پاکستان کا حصہ بناتے تو شاید انہیں اپنے بیٹے کے اغوا کی اذیت سے نہ گزرنا پڑتا لیکن تاریخ کا سبق یہی ہے کہ ہم تاریخ سے سبق نہیں لیتے۔



.
تازہ ترین