• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شہنشاہ ِغزل مہدی حسن دل جیسے نازک انسانی اعضا سے کھیلنے والوں کے خلاف یوں نوحہ کناں ہوئے تھے
ہمارے دل سے مت کھیلوکھلوناٹوٹ جائے گا
ذرا سی ٹھیس پہنچے گی ،یہ شیشہ ٹوٹ جائے گا
’’لاہور میں واقع سرکاری اسپتال میں دل کے مریضوں کودونمبر اورجعلی اسٹنٹ ڈالے جارہے ہیں‘‘ ۔ہمارے دوست اور’’جیو‘‘ کے سینئررپورٹر عدنان ملک نے انکشاف کیا ہے کہ میواسپتال لاہو رکے کارڈیک سینٹر میں مریضوں کو غیرمعیاری اور ناقص میٹریل سے بنائے گئے اسٹنٹ ڈالے جارہے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹرچوہدری سرفراز نے منصوبہ بندی کے تحت اپنے معاون چوہدری اعجاز کو ایک خفیہ مشن کے تحت متذکرہ اسپتال بھیجا جس نے دل کے مریض کے روپ میںطریقہ واردات کا کھوج لگایا۔ یوں تو دل کے امراض کی بیسیوں اقسام ہیں اور اس مناسبت سے اس کی تفصیل بھی لمبی چوڑی ہے مگر معاملات ِدل میں بائی پاس اور انجیوپلاسٹی معروف طریقہ علاج ہیں۔ زیر نظر کیس میں دل کے امراض میںمبتلامریض جونہی اسپتال پہنچتے سرسری معائنے کے بعد جب معالجین کو یہ پتہ چل جاتاکہ مریض کا بائی پاس نہیں ہونا تو وہ اس پر فارمولانمبر ٹوآزماتے ۔اس فارمولے کے مطابق مریض اور اس کے لواحقین کو بتایاجاتاکہ اگرفوری طور پر انجیوپلاسٹی نہ کی گئی تو مریض کی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتاہے۔دل سے وابستہ شریانوں میں دوران خون میں رکاوٹ کو دور کرنے کے واسطے اسٹنٹ ڈالنے کے عمل کو انجیوپلاسٹی کانام دیاگیاہے ۔مبینہ طور پر بعض مریضوں کو صرف CUT )چیرا)دے کران سے 2لاکھ روپے وصول کئے جاتے رہے۔اس میں ڈیڑھ لاکھ روپےا سٹنٹ کی قیمت جبکہ 50سے 60ہزار روپے ڈاکٹر کی فیس وصول کی جاتی حالانکہ اسٹنٹ مریض کے جسم میں داخل ہی نہیں کیاجاتاتھا۔چین سے امپورٹ کئے اس غیر معیاری اسٹنٹ کی اصل قیمت 5777روپے بیان کی گئی ہے جبکہ بدقسمت مریضوں سے اس کی قیمت ڈیڑھ لاکھ روپے وصول کی جارہی تھی۔اسی طرح بعض مریض جنہیں صرف ایک اسٹنٹ ڈالاجاتاوہ اپنے ان غیر ہمدرد معالجین کو دواسٹنٹس کا بل ادا کرکے اصلی کیش میمو وصول پاتے اور بیمار دل کے ساتھ ہی گھرواپس لوٹ رہے تھے۔مارکیٹ میں چینی مال کی کوئی گارنٹی نہیں دیتا وہاں سے امپورٹ کی استری دنوں میں ٹھنڈی ہوجاتی ہے غیر معیاری اسٹنٹ کے ساتھ دل کا مریض کتنے دن تک زندگی کی حرارت محسوس کرسکتاہے ؟؟
دل انسانی جسم کا وہ مرکزی اعضا ہے ہردھڑکن جس کی ممنونِ احسان رہتی ہے۔ زندہ دلان اور آس پاس کے علاقوں سے آنے والے نجانے کتنے ایسے مریض ہوں گے جن کے جسموں اوردل کی نازک شریانوں میں غیر معیاری اورمُضر صحت اسٹنٹ ڈال دئیے گئے ؟؟ یہ خبر نشرہوئی تو ان گنت لوگوں کی طرح میں بھی سوچ رہا تھا کہ دل کے معاملہ میں مسیحائوں کی طرف سے اس قدر سنگ دلی کامظاہرہ کیوں کیاگیا؟؟حریص اورلالچ کی ایسی بدصورت اور قبیحہ شکل کا تصور بھی روح کوجھنجھوڑ کررکھ دیتاہے لعنت ہے ایسے کاروبار پر جس کے تحت زندگی کے نام پر موت اورتریاق کے روپ میں انسانوں کو زہر دیاجارہاہو۔ایف آئی اے نے چارملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کرادی ہے ،اس ضمن میں وزیر اعلیٰ پنجاب نے ایک کمیٹی بھی بنائی ہے جوحقائق جاننے کے لئے برسرپیکار ہے ۔تاہم اس مقدمہ میں کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جاسکی۔وجہ یہ بیان کی گئی ہے ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیموں نے اپنی برادری سے اظہار یک جہتی کرتے ہوئے کہاہے کہ مقدمہ کا فیصلہ ہونے تک اگر ڈاکٹر حضرات کو گرفتار کیاگیا تو پنجاب بھر میں ہڑتال کردی جائے گی۔پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن( پی ایم اے ) کے سربراہ ڈاکٹر اشرف نظامی نے اس امر کی تردیدکرتے ہوئے کہاہے کہ ہمیں مریض بھی اتنے ہی عزیزہیں جتنے ڈاکٹرہیں،حقائق سامنے آنے تک ہمیں ذمہ دارانہ روئیے کا مظاہرہ کرناچاہئے۔ڈاکٹر نظامی کا کہناہے اصل معاملہ یہ ہے کہ جن اسٹنٹس کو جعلی اور دونمبر قراردیا جارہاہے وہ FDA(فیڈرل ڈرگ اتھارٹی) سے تصدیق شدہ نہیں ہیں۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں ریاست اور حکومت اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرپائی جس کے باعث اس ملک کے عوام صحت جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔سرکاری اسپتالوں میں عموماََ دو طرح کے مریض آتے ہیں ۔اول VIP مریض جوملک میں ہی بیرون ملک جیسی سہولتیں انجوائے کرتے ہیں۔یہ بیوروکریٹ ،سیاستدان اور بعض اداروں سے وابستہ افسران ہوتے ہیں۔آسمانوں سے اتری یہ مخلوق عوام کے خون پسینے کی کمائی سے ادا کئے گئے ٹیکسوںسے ایگزیکٹوعلاج معالجہ کی سہولت پاتی ہے۔دوسری طرف غریب اور نادار لوگ جن کی کوئی سفارش نہیں ہوتی ایسے مریض بعض اوقات اسپتال کے برآمدوں میں ٹھنڈے فرش پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرجاتے ہیںالبتہ بعدازاں ان کے پسماندگان کی تصاویر اخبارات میں دیکھی جاسکتی ہیں جس میں وہ حکومتی عہدیداروں سے امدادی چیک وصول کررہے ہوتے ہیں۔
گزشتہ دنوں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اپنے دل کا آپریشن لندن سے کرانے کے بعد کہاکہ ان کا دل 25سالہ جواں سال ہوگیاہے۔خادم اعلیٰ پنجاب شہباز شریف ، آصف علی زرداری ، چوہدری شجاعت اور ہمارے دیگر سیاسی سربراہ بھی اپنے علاج کے لئے بیرونی معالجین پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔جنرل ریٹائرڈ مشرف اور ان کے ہم نوا ئوں کو بھی صحت کیلئے انٹر نیشنل سہولتیں میسر رہتی ہیں ۔جنرل صاحب تو صرف کمر کی درد کے باعث عدل وانصاف کے نظام کوبھی پھلانگ گئے۔چاہئےمیرتقی میر سے لے کر خواجہ میر درد اور علامہ اقبال ؒ سے لے کر فیض تک سبھی نے دل والوں کا نوحہ بیان کیاہے لیکن غالب نے اہل ِ دل کے لئے جو پھوہڑی بچھائی ہے وہ بہت وسیع ہے،مرزا دل کی داستاں کو سینکڑوں رنگ میں بیان کیاہے ،فرماتے ہیں
گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگئی جاکا
گہر میں محو ہوا اضطراب دریا کا
ایک اور جگہ غالب فرماتے ہیں
دل سے مٹنا تری انگشت ِحنائی کا خیال
ہوگیاگوشت سے ناخن کا جدا ہوجانا
اس نظام میں عوام کو دل سمیت علاج معالجہ کی’’آسمانی ‘‘سہولتوں کا میسر ہونا غالباََ اس قدر ہی مشکل ہے جیسا غالب نے بیان کیاہے ؟



.
تازہ ترین