• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستانی سیاسی تاریخ کے جو ابواب بحالی جمہوریت (2008)سے شروع ہونےوالے سیاسی ادوار میں تحریر ہوئے، ان سے پھر ثابت ہوا کہ فوجی یا نیم فوجی حکومتوں کے ناکام ہونے کے بعد جو سیاسی حکومتیں جیسے تیسے انتخابی عمل کے نتیجے میں اقتدار میں آئیں، وہ غلطیوں سے سبق سیکھنے اور اصلاح احوال کے لئے آمادہ نہیں، حالانکہ اس مرتبہ اسٹیٹس کو کو برقرار رکھنے کی معمولی گنجائش بھی نہ تھی، اور نظام حکومت و سیاست کو بمطابق آئین ڈھالنا پاکستان کے سیاسی استحکام اور غربت کے گڑھوں میں تیزی سے گرتی آبادی کے سنبھالنے کے لئے ناگزیر تھا کہ منتخب حکومت اور اس کی پارلیمانی اپوزیشن دونوں جمہوریت کی حقیقی بحالی، آئین کے (مکمل نہیں تو) زیادہ سے زیادہ اور قانون کے تمام شہریوں پر یکساں نفاذ کو مشترکہ اہداف بناتے، حکومت کا تمام تر رخ اسی قومی ایجنڈے پر ہونا چاہئے تھا اور اپوزیشن کو بھی اسی حوالے سے اپوزیشن کرنی چاہئے تھی کہ اب حالات کی نزاکت کے باعث ’’ تبدیلی ‘‘ کے پرکشش نعرے کو اپوزیشن (ن لیگ ، پی ٹی آئی اور وسیع رائے عامہ ) کا ہی نعرہ ہی نہ بننے دیتی بلکہ خود شدت سے مطلوب اقدامات کرکے روایتی خاندانی اور علاقائی جمہوریت کی بجائے آئینی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے مطلوب جمہوری عمل کا آغاز کرتی، وائے بدنصیبی پی پی کے نصیب میں یہ کیا تھا وہ تو اپنی اصل قائد بی بی بے نظیر کے بحالی جمہوریت کے لئے اعلانات کے برعکس، نئی پی پی حکومت نے ایسی دھما چوکڑی مچائی کہ اقتصادیات شفافیت انتظامی کنٹرول اور سیاسی عمل سب پے در پے پی پی کی شخصی قیادت کے رنگ میں اس تیزی سے رنگا گیا یوں لگا کہ محترمہ بے نظیر کے کھونے کے بعد یہ سب کچھ جائز ہی نہیں سمجھا جا رہا ہے بلکہ یہ اس کی لازمی وصولی ہے ۔سوکرپشن کے وہ الزامات جو پہلی دو بےنظیر حکومتوں پر بھی لگے تھے، اس بار اس حکومت کے پاس کچھ اور کرنے کو تھا ہی نہیں۔ آج اندرون سندھ ظلمت و غربت کی ان گنت کہانیاں کراچی کی قابو سے باہر حالت زار اور اس کے نتیجے میں پنجاب اور خیبر پختونخوا سے پی پی کی تقریباً بے دخلی تاریخی سیاسی سبق کے خلاف پی پی کی بدترین حکومت کا شاخسانہ ہے اور اس حکومت کا جس نے دھڑلے سے بغیر کسی رکاوٹ کے اقتدار کی باری مکمل کی اور ن لیگ نے بطور اپوزیشن نہ صرف اسے ’’جیسی چاہے‘‘ حکومت کا فرینڈلی موقع دیا، خود اپنی امکانی باری کے لئے کوئی ایسا ہوم ورک نہ کیا کہ مشکوک اور متنازع طرز کے روایتی انتخابات کے بعد یہ پھر اقتدار میں آتے ہی کچھ اقدامات کرتی جس سے تبدیلی کی امید پیدا ہوتی۔
ن لیگ کی الیکشن 13کے بعد بننے والی وفاقی اور پنجاب دونوں حکومتوں نے ازخود ثابت کیا کہ وہ بلا مہلت بحالی جمہوریت کا فائدہ اٹھانے میں ناکام رہیں۔یہ اسی روایتی تھیوری کے مطابق حکومت بنانے اور چلانے سے آگے ایک قدم بھی تو نہ بڑھ سکیں ۔کہ ’’ہماری حکومت پی پی کے مقابل بہتر ہو ‘‘ اور ہم من پسند ترقی کی کچھ علامتیں تشکیل دینے میں کامیاب ہو جائیں جو غربت و جہالت اور ناانصافی کے طویل اور افقی جزائر میں بلند (عمودی) اور غالب ہوں اور ان کی چمک کے نیچے ترقی کے زوو دار دعوئوں اور اشتہاری مہمات میں عوام کے بڑھتے دکھ، ظلم اور بے بسی نظر ہی نہ آئے لیکن اس مرتبہ ن لیگی حکومتیں باوجود اس کے کہ وہ پی پی کے کچھ نہ کرنے کے مقابل’’پھر کافی کچھ بہتر ہی کرنے ‘‘ کی تھیوری کو عمل میں ڈھال رہی ہے لیکن اس مرتبہ عوام، میڈیا، نئی سیاسی قوت پی ٹی آئی اور کسی حد تک (اب) پی پی بھی ، ن لیگ ترقی کی اصلیت کا پردہ چاک کرکے اس کے پس پردہ ذہنیت کو عوام کے سامنے بےنقاب کرنے میں سیاسی اور پیشہ ورانہ اعتبار سے بہت کامیاب ہو رہی ہے، جس سے مطلوب ترقی اور حقیقی جمہوریت کی اصل شکل اور تصورات واضح ہو رہے ہیں اور ن لیگ بلاشبہ جو پی پی کے مقابلے میں روایتی اندازکا کہیں زیادہ بہتر کر رہی ہے وہ بھی ’’بہتر‘‘ نہیں بلکہ مشکوک اور متنازع سمجھا جا رہا ہے تو قومی سطح کا انفراسٹرکچر جس کا بڑا حصہ نوسی پیک کی منصوبہ بندی کا حصہ وہ اسی طور واضح ہو رہا ہے اور جو کچھ اورنج ٹرین ، سستی روٹی پلانٹ اور میٹرو بس چمکتے دمکتےجیسے ترقیاتی منصوبے شروع کئے گئے وہ اپنے بجٹ اور عوامی ترجیحات اور خالصتاً حکومتی مفادات کے حامل سیاسی اور دکھاوے کے سمجھے جانے کے باعث الٹ سیاسی نتائج کے حامل بن رہے ہیں ۔میڈیا اور پوٹینشنل شہریوں کے مسلسل اور ہماگیر تجزیوں نے ان کی حقیقت، اصلیت اور ’’عوام دوستی ‘‘ کا پردہ اس طرح چاک کر دیا ہے کہ یہ جو ہیں عوام میں وہی سمجھے جا رہے ہیں یعنی مشکوک، متنازع اور فقط دکھاوے اورمعیاری محدود فوائد کے ۔
ن لیگ میڈیا کے ایجنڈے میں اور عوام کی سکت میں اس تبدیلی کو سمجھ نہیں پا رہی، لہٰذا وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو ان کے ’’پرجوش‘‘ ترقیاتی منصوبوں کا جو فیڈ بیک مسلسل دلائل پر مبنی تجزیوں کے ساتھ مل رہا ہے وہ اس پر بھنا رہے ہیں کہ ان کے جذبہ ترقی کی مخالفت کی جا رہی ہے، وہ یہ سمجھ ہی نہیں پا رہے کہ قومی سطح کے وسیع تر انفراسٹرکچر (جس کی اپنی اہمیت ہے، اور ان کی تعمیر اپنی جگہ قابل تعریف ہے) کے مقابل گلی، محلے، قصبے کی سطح کے کمیونٹی انفراسٹرکچر، بشکل ،صاف پانی کی سپلائی ،پختہ گلیاں، صفائی ستھرائی اورا سٹریٹ لائٹ کے انتظام،ا اسکولوں،اسپتالوں کی حالت، سیوریج سسٹم، بچوں کے پارک، نوجوانوں کے لئے کھیلوں اور جسمانی نشوو نما کی سہولتوں ،کمیونٹی کلب وغیرہ کی کیا اہمیت ہے ۔یہ سب کچھ ایک جاندار، جدید اور عوامی شرکت کے ساتھ تیار کئے ہوئے بلدیاتی نظام سے ممکن تھا جو آپ کو ہرگز قبول نہیں عوام یہ ترقی چاہتی۔آپ 180ارب کی لاگت سے 27کلو میٹر کی اورنج ٹرین کو پاکستان کی آن بان شان سمجھتے ہیں اور عوام کو جو چاہئے اسے آپ ذہناً قبول ہی نہیں کرتے عدالتی احکامات پر کرنا پڑا ہے تو ان پر متروک ڈپٹی کمشنری کا نظام اور اپنے نااہل ایم پی اے ایز کی کمیٹیوں اور اتھارٹیز میں جکڑ دیا ہے ۔امر واقع یہ ہے کہ بلدیاتی اداروں کے ذریعے بنیادی سہولتوں کے حصول سے ہی مطلوب ترقیاتی عمل شروع ہو گا جسے قومی سطح کے اسٹرکچر سے متوازن کرنا ہوگا۔ علامتی شہری ترقیاتی منصوبے اور قومی سطح کا انفراسٹرکچر اس کا بدل ہرگز نہیں ہو سکتا۔ اور یہ مطلوب ترقیاتی عمل جس کا ہدف کمیونٹی ڈویلپمنٹ اور دیہی ترقی ہو گی ایمپاورڈمقامی حکومتوں کے نظام کے بغیر ممکن نہیں جسے اپنے عوام کے بذریعہ عدلیہ بحالی کرانے پر پھر افسر شاہی اور آئین کو بھی جکڑ دیا ہے ۔وماعلینا الاالبلاغ




.
تازہ ترین