• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں 5فروری کو ہر سال یوم کشمیر منایا جاتا ہے جس کا مقصد ایک تو قائداعظم ؒ کے اس فرمان کو یاد دلانا کہ ’’کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘‘ دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں کشمیری جو آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اُنکو یقین دلانا ہے کہ پاکستان کا ہر شہری آپ کی حق خوداداریت کی تحریک کی حمایت میں آواز اٹھا رہا ہے۔ پاکستان کا ہر بوڑھا ، نوجوان ، بچہ اور خواتین آپ کی تحریک سے جتنے مطمئن آج نظر آتے ہیں پہلے نہیں تھے کیونکہ 8جولائی 2016ء کو نوجوان حریت پسند رہنما اور سوشل میڈیا پر سرگرم کردار ادا کرنیوالے برہان وانی کی شہادت کے بعد جس طریقے سے تحریک حریت میں تیزی اور اقوام متحدہ کی استصواب رائے کی قرار دادوں پر عملدرآمد کے مطالبات ہو رہے ہیں۔ اُس سے ہندوستان کی سرکار بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکی ہے۔ اس وقت مجاہدین آزادی کی تیسری نسل کشمیر کی آزادی کیلئے جانوں کے نذرانے پیش کر رہی ہے۔ اس سے بھارتی حکومت کو اپنی اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی ٹوٹتی نظر آرہی ہے۔ پاکستان میں ویسے تو ہر شخص اپنے کشمیری بھائیوں کی آواز میں آواز ملا رہا ہے لیکن خصوصی طور پر جماعت الدعوۃنے ’’2017ء کو سال کشمیر‘‘ منانے کا اعلان کر رکھا ہے اور 26جنوری سے 5فروری 2017ء تک عشرہ کشمیر منا رہی تھی، ملک بھر میں اس جدوجہد آزادی کو زندہ رکھنے کیلئے جلسے جلوس اور ریلیاں نکال رہے تھے کہ اسی دوران یہ خبریں آنا شروع ہوگئیں کہ حافظ سعید کو نظر بند اور ان سمیت37ساتھیوں کے نام ای سی ایل میں ڈال دیئے گئے ہیں ۔
حافظ سعید کی نظر بندی کوئی پہلا واقعہ نہیں وہ ہمیشہ بھارتی ہٹ لسٹ پر رہے ، 21دسمبر 2001ء کو حراست میں لیا گیاپھر ممبئی ٹرین دھماکوں اورممبئی حملوں کے بعد حافظ سعید سمیت9افراد کو نظر بند کر دیا گیا ۔ جون 2009ء میں لاہور ہائیکورٹ نے نظر بندی کا لعدم قرار دیتے ہوئے ان کی رہائی کے احکامات جاری کئے اور اب پھر وفاقی وزارت داخلہ نے انسداد دہشت گردی ایکٹ مجریہ1997، سیکشن 11کے ( ای) کے تحت فلاح انسانیت فائونڈیشن اور جماعت الد عوۃ کو واچ لسٹ اور سیکنڈ شیڈول میں شامل کر کے نظر بند کر دیا ہے۔ یہ دونوں تنظیمیں اپنی کوئی بھی سرگرمی حکومت کی مرضی کے بغیر نہیں کر سکتیں ۔ نوٹیفکیشن کے تحت اب ان دونوں تنظیموں کے اکائونٹس منجمد ہو جائیں گے ۔
حافظ سعید کی نظر بندی کے بعد مختلف تجزیئے، تبصرے، وجوہات اور تاویلات دی جارہی ہیں۔ ماہرین ِقانون کاکہنا ہے کہ حافظ سعید سمیت کسی کا بھی نام شیڈول ٹو میں شامل کرنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور غیراسلامی ہے، شیڈول قوانین کو متعارف کرانے میں اقوام متحدہ ملوث ہے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ بھارت کی مودی حکومت کشمیر میں جاری تحریک آزادی میں شدت آنے اور نوجوانوں کی جہادی سرگرمیوں میں شمولیت سے سخت پریشان ہے اور بھارت حافظ سعید کے نام سے بھارتی سکیورٹی اداروں میں لرزہ طاری اور اس نے اپنے ان عزائم کی تکمیل کیلئے امریکہ کے ذریعے پاکستان پر دبائو ڈال کر حافظ سعید کے خلاف کارروائی کروائی ہے ۔ یہ بھی موقف سامنے آرہا ہے پہلے پاکستان پر اتنا دبائو نہیں تھا مگر ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد دبائو بریکنگ پوائنٹ پر آگیا تھا ، لیکن وزارت خارجہ کا موقف یہ ہے کہ پاکستان ایک آزاد ملک ہے اس نے اپنے ملکی مفادات کے پیش نظر امریکہ کی طرف سے حافظ سعید پر پابندی کے سنجیدہ مطالبے پر مخالفت کی بجائے طوفان آنے سے پہلے ہی نظر بند کر دیا ہے اور پاکستان کا یہ واضح موقف ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک مقامی مجاہدین چلارہے ہیں اس کیلئے پاکستان کی سرزمین استعمال نہیں کی جارہی اور نہ ہی پاکستان کسی کو اسکی اجازت دیتا ہے۔
اس ساری صورتحال کے بعد ہر پاکستانی کے ذہن میں دو سوال اٹھ رہے ہیں ایک سوال اُن کشمیریوں کے حوالے سے جو حق خود ارادیت کی تحریک میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ بھارتی فوج کے ظلم و ستم سے صرف جولائی 2016سے لیکر اب تک آزادی کیلئے 117کشمیری شہید 75سو زخمی ہو چکے ہیں۔ 17 سو 90 ایسے افراد ہیں جن کی آنکھیںضائع ہوچکی ہیں جن میں ایک تین سالہ بچہ اور چار بچیاں بھی شامل ہیں ۔ بھارتی دہشت گردی کی زد میں 16ہزار 700افراد زخمی جبکہ 11 ہزار 762گرفتار ہو چکے ہیں۔ پی ایس اے کے تحت 9سو 61افراد کو نظر بند کیا گیا جن میں 90سالہ بزرگ اور پانچ سالہ بچہ بھی شامل ہے ۔ کشمیریوں کی 65 ہزار سے زائد املاک کو جلایا گیا جبکہ اس دوران 35سو 61خواتین سے بدتمیزی کی گئی۔بھارت کشمیریوں کی آبادی کے تناسب میں تبدیلی کی سازش کے تحت کالونیوں کے نام پر فوجی چھائونیاں بنا اور مسلمانوں کے خلاف ہندوئوں کو مسلح کر رہا ہے ۔ ایک طرف یہ صورتحال ہے تو دوسری طرف میرے کانوں میں پاکستان کے غریب لوگوں کی یہ آوازیں گونج رہی ہیں کہ ان تنظیموں پر پابندی لگانا یاان کو کام سے روکنا دراصل غریب پر پابندی ہے جو پہلے ہی مررہا ہے۔ اس وقت ملک بھرکے 78شہروں میں قائم اس کے دفاتر لاکھوں غریب عوام کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ جن میں تین ہزار پانچ سو سے زائد رضا کار حصہ لے رہے ہیں ۔ فائونڈیشن کے زیر اہتمام سندھ میں دو اور پنجاب میں 8مستقل اسپتال قائم ہیں جبکہ 290ڈسپنسریاں فعال اور 89ریسکیو سینٹر غریب عوام کی خدمت کر رہے ہیں ۔ 802ایمبو لینس کے ذریعے فری سروس فراہم کی جارہی ہے ۔ اسکے پاس ملک بھر میں 66ہزار سے زائد بلڈ ڈونرز رجسٹرڈ ہیں، 54ہزار خون کی بوتلوں کی فراہمی اور سات لاکھ سے زائد افراد کے لیبارٹری ٹیسٹ کروائے جا چکے ہیں ۔ ملک بھر میں 6ہزار سے زائد میڈیکل کیمپ لگائے گئے ہیں۔ جن سے 13لاکھ سے زائد مریضوں نے استفادہ کیا ۔ 150سے زائد شہروں اور قصبوں کے اسپتالوں میں دسترخوان قائم ہیں جہاں سے تین وقت کا کھانا مفت فراہم کیا جاتا ہے۔ اس وقت ملک بھر میں 218اسکول اور کالج مفت اور غیر منافع بخش کی بنیاد پر 70ہزار غریب بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں۔ غریب لوگوں کو لباس فراہم کرنے کے پروجیکٹ میں 24ہزار کے قریب افراد کو ملبوسات اور ایک لاکھ92ہزار 930غریب افراد کو کمبل فراہم کئے گئے۔ سندھ اور بلوچستان کے کئی پسماندہ علاقوں میں 799پانی کے پروجیکٹ جاری ہیں ۔ تین ہزار چار سو آبی منصوبوں کے ذریعے 10لاکھ افراد کو یومیہ کی بنیاد پر صاف پانی مہیا کیا جارہاہے۔
ایسی صورتحال میں ایک طرف پاکستان کے دور دراز علاقوں میں رہنے والے یہ غریب لوگ سوال کر رہے ہیں کہ اگر ایک فلاحی تنظیم اُن کی دیکھ بھال کررہی ہے تو اس پر پابندی لگا کر کیوں غریب کی سانسیں نکالی جارہی ہیں حکومت پاکستان ، تمام سیاسی جماعتوں اور عوام کو یہ کہنا ہے کہ کشمیری حریت پسندوں کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رہتی ہے تو وہ وقت دور نہیں جب کشمیر پاکستان کا حصہ بنے گا۔ کشمیری بھائیوں سے یکجہتی کیلئے 2017ء کوکشمیر کےسال کے طور پر ہی منانا چاہئے۔

.
تازہ ترین